خط کہیں نہیں ملتا، اب خود ہی آﺅجا نا ں ۔ ۔ ۔

خط کہیں نہیں ملتا، اب خود ہی آﺅجا نا ں ۔ ۔ ۔
خط کہیں نہیں ملتا، اب خود ہی آﺅجا نا ں ۔ ۔ ۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 گلوبل پِنڈ ( محمد نوازطاہر )وقت کی تیز رفتاری اور جدید ٹیکنالوجی کی برق رفتاری میں ریس لگی ہوئی ہے جس میں ترقی پذیر معاشرے کے کم وسائل والے عوام پیچھے سے پیچھے اور بہت پیچھے رہتے جا رہے ہیں جیسے میدانی علاقے کی سیاہ سڑک پر پیدل مسافر بھاگتی گاڑیوں سے صرف آنکھوں سے ریس لگاتا ہے اور پھر ہار جاتا ہے ۔
 مال روڈ پر آج میرا مقابلہ گاڑیوں کے ساتھ نہیں تھا ، وہ تو مجھ سے پیچھے رہ گئیں تھیں ، میرے قدموں کی رفتار اور ان کی ہِل جُل کہیں کم تھی البتہ ان میں جلنے والا ایندھن رفتار میں مجھ سے بہت آگے تھا ۔شیر پاﺅ پل سے لیکر ریگل چوک تک طویل سفر صرف لیٹر بکس ڈھونڈتے
کیسے مختصر وقت میں طے کرلیا سمجھ سے بالا تھا ۔اس کا احساس ریگل سے جی پی او چوک تک تھکاوٹ سے لڑکھڑاتے پہنچنے پر ہوا ۔ابھی گیٹ پر تھا کہ جیب میں ٹوں ٹوں کی آواز نے ٹریفک کے شور سے بے نیاز کردیا ۔ یہ میرے بیٹے کا ایس ایم ایس تھا ،بہت مختصر پیغام صرف بارہ سطریں تھیں ۔میں نے طویل پیغام پڑھ کر کال کی تو کاٹ کر جواب دیا گیا کہ ایس ایم ایس کرو۔اسی دوران کینیڈا سے پرانے دوست رانا سہیل کا فیس بک پر ایس ایم ایس آگیا جس میں اداکارہ میرا کے ’ سو فیصد کنوارہ ‘ ہونے کا دعویٰ زیر بحث تھا۔بیٹے سے زیادہ خوشی مجھے رانا سہیل کے پیغام نے دی ۔ پرانے یار نے یاد کیا ہو تو دل کا کیا حال ہوتا ہے یہ یاروں اور دل والے ہی جانتے ہیں ۔ کسی زمانے میں نہ تو لیٹر بکس تلاش کرنا مشکل تھا اور نہ ہی تحریری پیغام چند لمحوں کی خوشی دیتا تھا بلکہ جب یار لوگ خط لکھتے تھے تو کئی یار کئی بار پڑھتے تھے ۔ اب یہ سب کہاں ہے ؟۔یہ سب کچھ جدید دور کی ٹیکنالوجی نے چھین لیا ہے اور خط بیچارے پیدل ہوگئے ہیں بلکہ اب خط ملے تو لگتا ہے محکمہ ٹیکس یا عدالت کا پیغام ہوگا ۔
سوشل میڈیا کا سب سے بڑا کمال ہے کہ دور دراز بیٹھے دوست احباب کو قریب کردیا ہے ۔ جہاں کمال کیا وہاں سائنسی ترقی نے کچھ زوال کا باعث بھی بنی ہے ۔ صرف سوشل میڈیا ہی نہیں موبائل فون کا بھی کمال ہے اور اس سے بھی بڑا کردار ترقی پذیر معاشروں کے مالدار حکمرانوں کا کردار ہے کہ انہوں نے اپنی ’ویہلی‘ یعنی فارغ قوم کو ’کام ‘ پر لگا دیا ہے لہٰذا سستے پیکج اور لمبی گفتگو نئی نئی داستانیں بنا رہی ہے ، جدید ہیر، رانجھے مجنون پنوں مارکیٹ میں دستیاب ہیں ، کہیں ہیر اور کہیں رانجھے نے اپنی جنس خود بدل کر بھی جدید عشق شروع
 کردیا ، ہر مثبت پہلو کے ساتھ تصویر کا لازم تاریک رخ منفی انداز سے سامنے آنا فطری بات ہے ، معاشرتی خرابیاں اور بربادیاں اپنی جگہ مگر اس ترقی کی قبولیت سے انکار بھی’ کفر ‘ ہے، سوشل میڈیا اور موبائل فون کی وجہ سے سب سے بڑا زوال لیٹر بکس اور خط پر آیا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ٹیلی فون کے سستے پیکیج اور لمبی گفتگو ہے جس نے ہمیں جہاں بہت سے مسائل سے دوچار کیا اور ترقی بھی دی ہے تو وہاں ہماری خطوط کی چاہت اور رعنائی بھی بس ایسے ہی چھن گئی ہے جس طرح میک اَپ نے دوشیزہ سے حقیقی حسن چھین لیاہے ، یہی سوچتے میں نے ایک ادارے کیلئے تیار کیا گیا مراسلہ نما پیکٹ جو کسی زمانے میں خط ہی کہلاتا ۔ محکمہ ڈاک کے اس کلرک کے حوالے کیا جو ترقی کرکے ڈاکیے سے باﺅ بن کر بیٹھا ہوا تھا ۔ مجھے وہ زمانہ بہت یاد آیا جب ایسے ہی موسم میں کبھی ڈاکیا ڈاک لاتا تھا تو اسے ٹھنڈا پانی پلا کر
 خوشی ہوتی تھی ۔ وہ بار بار استفسار پر بتاتا تھا کہ اس کا موٹا خاکی لباس اسے گرمی نہیں لگنے دتا اور سر پر پگڑی سے دھوپ سے بچاتی ہے تب
 ہم ایک دونی دونی ، دو دونی چار کی طرح ردھم میں گایا کرتے تھے ’ ڈاکیا آیا ، ڈاک لایا ۔ ۔ ۔“اب نہ ڈاکیا خاکی وادی میں ہے نہ ڈاک سے خط آتا ہے یہ سب بھی دونی کے پہاڑے کی طرح کہیں میدانی علاقے کی سیاہ سڑک پر پیدل چلنے والے مسافر کی طرح بھاگتی گاڑیوں کے ساتھ مقابلے میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔

مزید :

بلاگ -