اقبال کے فارسی مکالمے اور پانامہ لیکس!
ابتدائے آفرینش میں انسان اکا دکا ہو کر غاروں میں رہتا تھا۔ پھر قبیلے بن گئے، دیہات وجود میں آئے، شہر آباد ہوئے اور پھر بڑے بڑے قطعاتِ ارضی پر ممالک تشکیل ہوئے۔۔۔ اس عمل میں ہزاروں برس لگ گئے۔ آج انسان کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ یہ ارتقائی عمل صرف حضرتِ انسان کے ساتھ ہی خاص ہے۔ دوسری مخلوقات چرند، پرند، حیوانات، حشرات الارض، درندے وغیرہ سب کے سب اسی ارتقائی دور سے گزرے لیکن انسان نے جس انداز سے یکے بعد دیگرے ترقی کی منزلیں طے کیں، دوسرے جاندار ایسا نہ کر سکے۔ اس کی بنیادی اور سادہ سی وجہ یہ تھی کہ انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا تھا اور خدا نے اسے احسن التقویم کے منصب پر فائز کیا تھا۔۔۔ لہٰذا اس مسئلے میں زیادہ قیاس آرائیوں کی ضرورت نہیں۔۔۔ بس خدا نے ایسا ہی چاہا تھا اور ایسا ہی ہو گیا۔
پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں پنڈت کروڑوں دانا، بہت سیانے
جو خوب دیکھا تو یار آخر خدا کی باتیں خدا ہی جانے
اس حضرتِ انسان کی تعمیری اور تخریبی صفات کا جو نقشہ اقبال نے ایک مختصر سی فارسی نظم میں کھینچ کر رکھ دیا ہے، اس سے بہتر کمالِ فن خیال میں نہیں آ سکتا۔۔۔ میں آپ کی توجہ پہلے ان کے اسی فارسی مکالمے کی طرف دلاؤں گا۔ اس مکالمے میں پہلے خداوند کریم اپنی عزیز ترین مخلوق (انسان) کی خامیاں گنواتا ہے اور فرماتا ہے:
’’اے انسان میں نے تو سارے جہان کو ایک ہی پانی اور مٹی سے پیدا کیا تھا لیکن تو نے ایران، منگولیا اور حبشہ وغیرہ پیدا کر لئے۔۔۔ میں نے تو اس مٹی میں صافی فولاد پیدا کیا تھا لیکن تو نے اس فولاد سے تلواریں، تیر اور بندوقیں بنا ڈالیں۔۔۔ تو کیسا انسان ہے کہ چمن کے ننھے پودوں کو کاٹنے کے لئے کلہاڑے بناتا ہے اور درختوں پر جو پرندے چہچہاتے ہیں، ان کو پنجروں میں قید کر دیتا ہے؟‘‘
۔۔۔ فارسی میں خدا کا یہ ڈائیلاگ اقبال نے اس طرح نظم کیا ہے:
جہاں را زیک آب و گِل آفریدم
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی
من از خاک، پولادِ ناب آفریدم
تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی
تبر آفریدی نہالِ چمن را
قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را
کوئی عام انسان ہوتا تو خدا کی طرف سے عائد کردہ ان الزامات کو سن کر شرمسار ہوتا، اپنے گناہوں کی معافی مانگتا، توبہ استغفار کرتا اور کہتا کہ اس بار مجھے معاف کر دیا جائے آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ لیکن اقبال کا انسان تو اشرف المخلوقات ہے۔ وہ پانی، مٹی، فولادوں، شمشیروں اور تیروں سے کہیں زیادہ افضل ہے اور ان سب کا سردار ہے۔ یہ تمام چیزیں خدا نے جب انسان کی دسترس میں دے دی ہیں تو پھر انسان پر طعنہ زنی کیوں؟ باغ کے سرسبز و شاداب پودوں پر کلہاڑے چلانا اور پرندوں کو قفس میں قید کرنا گو بظاہر انسان کے جرائم معلوم ہوتے ہیں لیکن جب انسان ان سب سے برتر ہے، ان کا مالک ہے، ان پر حکمران ہے تو وہ جو چاہے ان کے ساتھ کر سکتا ہے۔ چنانچہ انسان، خدا کے حضور میں بجائے نادم ہونے کے یہ دلائل پیش کرتا ہے:’’اے پروردگار تو نے تو رات پیدا کی تھی لیکن میں نے رات کے اندھیرے کو اجالے میں تبدیل کرنے کے لئے چراغ بنا دیا۔۔۔ تو نے تو مٹی پیدا کی تھی میں نے اس مٹی کو پینے پلانے کے لئے جام و ساغر میں تبدیل کر دیا۔۔۔ تو نے پہاڑ، صحرا اور بے آب و گیاہ ریگستان تخلیق کئے اور میں نے انہیں خیابانوں، گلستانوں اور گلزاروں میں تبدیل کر دیا۔۔۔ اے خدائے بزرگ و برتر! میں وہ ہوں کہ تیرے پتھر سے آئینہ بناتا ہوں اور تیرے زہر کو شربت بنا دیتا ہوں‘‘۔
اقبال کے فارسی اشعار بھی دیکھئے:
تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی، ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم کہ از سنگ آئنہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شرفِ انسانی کے جملہ محاسن میں اقبالؒ نے دو محاسن کا بڑے تواتر سے اپنی اردو اور فارسی شاعری میں ذکر کیا ہے۔۔۔ میری مراد علم اور عشق سے ہے۔۔۔ انہوں نے عشق کو علم پر ترجیح دی ہے۔ عشق کو سراپا حضور اور علم کو سراپا غیاب ٹھہرایا ہے۔ علم کو صرف شک پیدا کرنے والا اور اندازوں اور تخمینوں میں الجھانے والی خوبی قرار دیا ہے۔ اس ڈائیلاگ کوبھی دیکھئے:
علم نے مجھ سے کہا ’’عشق ہے دیوانہ پن‘‘
عشق نے مجھ سے کہا ’’علم ہے تخمین و ظن
بندۂ تخمین و ظن! کرم کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور، علم سراپا غیاب‘‘
اقبال اسی پر بس نہیں کرتے، اسی نظم میں آگے چل کر عشق کو جو مقامِ بلند دیتے ہیں، اس کو دیکھئے:
عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں
عشق کے ادنیٰ غلام، صاحبِ تاج و نگیں
عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں
عشق ہے امّ ایقیں اور یقیں فتحِ باب
اقبالؒ نے چونکہ اپنی غلام قوم کو علم و عشق دونوں سے فیض یاب ہونے کا پیغام دینا تھا اس لئے دونوں کا تذکرہ اس انداز سے کیا ہے کہ معلوم ہو سکے کہ کس کو کس پر سبقت حاصل ہے اور کیوں ہے۔ اقبال نے اپنی ایک اور نظم میں علم کو ایک چراغِ رہگزر بتایا ہے لیکن گھر کے اندر جو ہنگامے بپا ہوتے ہیں ان کا علم چراغ رہگزر کو نہیں ہوتا۔ عقل اور علم منزل کا سراغ ضرور دیتے ہیں، منزل کی طرف جانے کی رہنمائی ضرور کرتے ہیں اور منزل کو پانے کا راستہ بھی ضرور بتاتے ہیں لیکن اصل منزل علم و عقل سے نہیں بلکہ یقین و ایمان اور عشق و وارفتگی سے سر ہوتی ہے۔۔۔ اقبالؒ کو اپنی قوم کی نارسائیوں کا خوب اندازہ تھا۔ اس لئے انہوں نے ان نارسائیوں کو سر کرنے کے لئے محض عقل کا سہارا لینے کی تلقین نہیں کی بلکہ شدتِ شوق کا درس دیا ہے جسے وہ عشق کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ شدتِ شوق کا جنون اگر کسی قوم کے سر پر سوار ہو جائے تو وہ اپنی منزلیں غیر معمولی تیزی اور عجلت سے طے کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے فارسی کلام میں بھی اقبالؒ نے اسی مضمون کو مختلف استعاروں، تشبیہوں اور محاوروں کی مدد سے واضح کیا ہے۔ ذیل میں ’’محاورہ بین علم و عشق‘‘ کے عنوان سے پیام مشرق میں ایک مختصر سی نظم ہے جس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ علم یہ دعویٰ کرتا ہے کہ: ’’میری نگاہ سات آسمانوں تک ہے اور مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میرے زیر نظر ہیں۔ میری کمند میں سارا جہان قید ہے لیکن، چونکہ میری آنکھ اسی دنیائے فانی میں کھلی ہے اس لئے مجھے آسمانوں سے پرے کہیں اور دیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ خود میرے ساز میں ہزاروں نغمے، پوشیدہ ہیں جو لگاتار نکل رہے ہیں اور میں ان کو اس دنیا میں عام کر رہا ہوں۔‘‘
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ علم کا یہ کلیم کتنا بامعنیٰ ہے ہے کہ وہ دلیل دیتا ہے کہ مجھے تو اسی دنیائے فانی کی خبر دی گئی ہے اور میں نے تو اسی دنیا میں آنکھ کھولی ہے اس لئے دوسری دنیا یا آنسوئے افلاک کی خبر لانے کی مجھے کیا ضرورت ہے؟۔۔۔ علم کا یہ استدلال بڑا دلنشیں اور مبنی بر صداقت ہے۔ علم کو چونکہ اِس دنیا کا چارج دیا گیا ہے اِس لئے وہ کہتا ہے کہ مجھے اُس دنیا کی فکر کیوں ہو؟
لیکن عشق، جب علم کی یہ دلیل سنتا ہے تو علم پر طعنہ زنی کرنے اور اس کی تحقیر کرنے کی بجائے اپنے پرانے موقف کو تبدیل کر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تو بے شک انسان کے ساتھ اس کارخانۂ شش، جہات میں اترا۔ بے شک تو اس جہانِ رنگ و بو تک محدود ہے اور میں (عشق) اس دنیا سے ماورا اور ایک زیادہ اونچی اور عظیم دنیا کا باسی ہوں لیکن دونوں کی اصل تو ایک ہی ہے۔ تو بھی اسی باغ بہشت سے نکالا گیا تھا جس میں میرا بھی بسیرا تھا اور ہے۔ اس لئے اب تمہارا یہ فرض ہے کہ تم اس دنیائے ارضی کی منفی قوتوں کو چھوڑ کر میری مثبت صفات سے دوستی کر لو۔ آؤ دونوں مل کر اس کرۂ ارض کی تقدیر سنواریں اور ایک بار پھر اسے بہشتِ جاوداں بنا دیں۔ ۔۔۔ چنانچہ عشق، علم کو مخاطب کرکے کہتا ہے: ’’تیرے جادو سے دنیا شعلہ زار بن چکی ہے۔ دنیا کی آب و ہوا، آتشیں اور زہر ناک ہو چکی ہے لیکن تمہیں یہ بھی تو یاد ہوگا کہ جب ہم دونوں اوپر آسمانوں میں اکٹھے تھے تو ایک دوسرے کے دوست تھے۔ جب سے تو نے میرے ساتھ قطع تعلق کیا ہے اور زمین پر اتر گیا ہے تو جس خلوت خانۂ لا ہوت میں پیدا ہوا تھا اسے یاد کر ۔تو دنیا میں آکر نور سے نار (آگ) بن گیا ہے اور شیطان کے پھندے میں اسیر ہو گیا ہے۔‘‘۔۔۔فارسی کے اشعار ملاحظہ کیجئے:
ز افسونِ تو دریا شعلہ زار است
ہوا آتش گزار و زہر دار است
چوبامن یار بودی، نور بودی
بریدی از من و نورِ تو ناراست
بخلوت خانۂ لا ہوت زادی
و لیکن در نخِ شیطاں فتاوی
علم کو اس کی جائے پیدائش (بہشت) یاد دلا کر عشق اُسے دعوت دیتا ہے: ’’ آ کہ اس خاکداں کو گلستان بنا دیں۔ اس بوڑھے جہان کو پھر جوان بنا دیں۔۔۔ آ اور میرے دردِ دل سے ایک ذرہ لے کر آسمانوں کے نیچے واقع اس دنیا کو پھر سے بہشت جاودانی بنا دے۔۔۔ میں اور تو دونوں روزِ ازل سے ایک دوسرے کے دوست ہیں اور ایک ہی نغمے کے زیرو بم ہیں۔‘‘
بیا ایں خاکداں را گلستاں ساز
جہانِ پیر را دیگر جواں ساز
بیایک ذرہ از دردِ ولم گیر
تہہِ گردوں، بہشتِ جاوداں ساز
ز روزِ آفرینش ہمدم استیم
ہماں یک نغمہ را زیر و بم استیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین محترم ! بظاہر اقبالؒ کی ان مختصر نظموں پر تبصرہ کرنا آج آپ کو بے وقت کی راگنی معلوم ہوگا۔ جب سارا پاکستان پانامہ لیکس کے قفس میں قید ہو تو بیرونِ قفس کی دنیا کی کوئی آواز پاکستان کی بیشتر آبادی کا ہے کو سنے گی؟ہم کافی ہفتوں سے ایک مخصوص دائرۂ فکر کے اندر گھوم رہے ہیں۔ اس دائرے کے محیط سے باہر نکلیں گے تو معلوم ہو گا کہ کنویں سے باہر بھی ایک دنیا ہے جو بہت وسیع و عریض ہے۔ جو کچھ ہم اپنے نشرو اشاعت کے اداروں سے سن رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں، اس کو کب تک اوڑھنا بچھونا بنائے رکھیں گے؟ جو کچھ ہونا ہے وہ ہو کے رہے گا۔ میرے اور آپ کے فکر مند ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کبھی دو چار لمحوں کے لئے اس حصار سے باہر نکل کر بھی دیکھنا چاہئے۔۔۔ میں نے سطور بالا اسی مقصد کے پیش نظر آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں وگرنہ پانامہ پیپرز کہاں اور اقبالؒ کے فارسی مکالمے کہاں؟