موصل کے شہری شدید خطرے میں ہیں، حملے کا اگلا مرحلہ مشکل ہوگا: اقوام متحدہ
عراق (اے این این)عراق میں تعینات اقوام متحدہ کے اہلکار کا کہنا ہے کہ موصل شہر پر عراقی فوج کا حملہ آخری مرحلے میں داخل ہونے کے بعد سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا عام شہریوں کو کرنا پڑا ہے۔عراق میں اقوام متحدہ کی انسانی امداد کے کوارڈینیٹر لیز گرانڈے نے بی بی سی کو بتایا کہ خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم براہ راست خاندانوں کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس وجہ سے وہاں کے باشندے شدید خطرے میں ہیں۔شہر میں پہلے سے ہی لوگ پانی اور بجلی کی قلت کا شکار ہیں۔ عراقی فوج کا کہنا ہے کہ سنیچر کو دولتِ اسلامیہ پر نئے حملے میں انھیں اہم کامیابی ملی ہے۔فوج کا کہنا ہے کہ پرانے موصل شہر میں بچ جانے والے شدت پسند قلعوں کو آزاد کرانے کی کوششوں میں انھوں نے پیش قدمی کی ہے۔گذشتہ سال اکتوبر میں موصل کو دولتِ اسلامیہ کے قبضے سے چھڑانے کی جنگ شروع ہوئی تھی۔ تب سے لاکھوں عام شہری یہ شہر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔لیز گرانڈے نے کہا کہ حملے کا اگلا مرحلہ سب سے مشکل ہوگا۔ ان کے مطابق اس پوری مہم میں عام شہری سب سے زیادہ خطرے میں ہوں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ خاندان یہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دولتِ اسلامیہ انھیں براہ راست نشانہ بنا رہی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہاں پانی اور بجلی کی شدید قلت ہے۔وہ کہتی ہیں کہ سارے شواہد اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ان علاقوں میں پھنسے لوگ شدید خطرے میں ہیں۔حکومت نے اس سال جنوری میں موصل کو دوبارہ حاصل کرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن اس کے مغربی حصے پر پورے قبضے کی لڑائی اب بھی جاری ہے۔اس حملے میں عراق کے ہزاروں فوجی، کرد پیشمرگہ جنگجو، سنی عرب قبائلی اور شیعوں کی شہری فوج کے جنگجو شامل ہیں۔ امریکی قیادت والے اتحاد کے لڑاکا طیارے اور فوجی مشیر ان کی مدد کر رہے ہیں۔اسی مہینے امریکی قیادت والے اتحاد کے حکام نے اندازہ لگایا تھا کہ موصل میں شدت پسندوں کی تعداد ہزار سے کم رہ گئی ہے، جبکہ گذشتہ اکتوبر میں اس شہر اور اس کے آس پاس ان کی تعداد 3500 سے 6000 کے درمیان تھی۔اقوام متحدہ کے مطابق، اس جنگ میں آٹھ ہزار سے زیادہ عام لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف ان لوگوں کے ہیں جنھیں ہسپتالوں میں لایا گیا۔عراقی فوج ہلاکتوں کے سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کرتی، لیکن ایک امریکی جنرل نے بتایا تھا کہ مارچ کے آخر تک اس جنگ میں 774 عراقی سکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے اور 4600 زخمی ہوئے تھے۔اس جنگ کی وجہ سے پانچ لاکھ 80 ہزار سے زیادہ عام شہری اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ عراقی انتظامیہ کے مطابق ان میں سے چار لاکھ 19 ہزار مغربی موصل سے ہیں۔