گریٹر بلوچستان کی تحریک (2)
طالبان کے قبضے کے بعد یونو کول نے پائپ لائن کے لئے رابطہ کیا۔ طالبان کاوفد بھی امریکہ گیا، مگر ملا عمر یونوکول کے بجائے ارجنٹائن کی کمپنی بریڈاس میں دلچسپی رکھتے تھے۔ یونو کول کو جواب دیدیا گیا.
روس کی حیثیت سپر طاقت سے ختم ہوکر علاقائی قوت کے طور پر رہ گئی تھی۔ اب امریکہ دنیا کی واحد سپر طاقت کے طور پر ابھرا یونوکال کو انکار کا مطلب تھا امریکہ کو انکار۔
ماہرین کا اندازہ تھا کہ وارلاڈز کی شکست کے بعد اورطالبان کے ظہور کے بعد امریکہ نے اطمینان کا سانس لیا۔ اب انہیں یقین تھا کہ TAPI میں حائل رکاوٹ دور ہو گئی۔ امریکن ایڈمنسٹریشن کے سینیئر اہلکار نے ملاعمر سے وقت مانگا، مگر ملا عمر نے ملنے سے انکار کر دیا۔ امریکن افئیرز کے ماہرین کا اندازہ تھا کہ امریکہ ہر حالت میں پائپ لائن بچھانا چاہتا ہے۔
طالبان مان گئے تو ٹھیک ورنہ امریکہ طاقت استعمال کرے گا۔
اس وقت امریکہ کو یہ غرور تھا کہ وہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور ہے۔ دنیا کے فیصلے اسی کو کرنے ھیں۔ اس کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی اور خطرناک ترین ہتھیار ہیں ، جو بہت زیادہ تباہی پھیلا سکتے ہیں۔
اور دنیا میں اب اس کا کوئی مقابل نہیں تھا. فضائیں اس کی ہیں اور خلا کا بھی وہ خود ہی مالک ہے۔ اب اس کی حالت کسی بدمست ہاتھی کی طرح تھی۔
نائین الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا ڈیزی کٹربموں میزائلوں کی کارپٹ بمبنگ سے طالبان کا دفاع چند دنوں میں توڑ دیا۔ طالبان شکست کھا گئے ،لیکن چار ماہ کے قلیل عرصہ میں طالبان پھر منظم ہو گئے تھے۔
اور طویل جدوجہد اور جنگ کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ جب سوویت روس نیا افغانستان پر حملہ کیا تو بلوچستان میں پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کی سرپرستی روس کر رہا تھا۔
یہ قوم پرست روسی ٹینکوں کا انتظار کررہے تھے کہ کب یہ پاکستان میں داخل ہوں گے اور یہ لوگ ہار ڈھول اور بھنگڑوں سے ان کا استقبال کریں گے۔ 13 سال بعد روسی افواج ہزیمت اٹھا کر واپس چلی گئیں۔
اب یہ پائپ لائن امریکہ نے پلان کرلی . یہ منصوبہ بنایا گیا تھا کہ افغان بلوچ صوبہ نمروز ہلمند اور قندھار کے بلوچ اکثریتی علاقے، پاکستانی بلوچستان اور ایرانی بلوچستان کو یکجا کرکے گریٹر بلوچستان بنایا جائے گا۔ اور پھر اس نئے ملک کے اندر سے گیس اور تیل کی پائپ لائن کو گزارا جائے گا۔ روس افغانستان میں شکست کی وجہ سے ناکام ہو گیا اور بلوچستان کے تمام قوم پرست بھی یتیم ہو گئے تھے. امریکہ کے افغانستان پر قبضہ کے بعد پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کی سرپرستی امریکا نے شروع کردی۔
امریکن سفیر اور قوم پرستوں کے درمیان روابط بڑھ گئے۔ خیربخش مری نے بلوچوں کی محرومیوں پنجابی سامراج اور افواج پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کردی۔ قوم پرست سرداروں کی سرپرستی مغرب اور امریکا نے شروع کردی .
اب اس گیم میں انڈیا کو بھی شامل کر لیا گیا۔ اور انڈیا کو TAPIکی گاجر دکھائی گئی. امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں ناکام ہوگئے۔ اب امریکہ انڈیا کے ذریعے اس ممکنہ پائپ لائن کو کامیاب بنانا چاہتا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان میں ناکام ہوگئے۔
اب انڈیا اور امریکہ کی چند ہزار فوج افغانستان کو کیسے فتح کر سکتی ہے۔
طالبان آدھے سے زیادہ افغانستان پر قابض ہیں اور افغان حکومت کے زیر انتظام علاقوں میں فوجی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ طالبان کی رضامندی کے بغیر یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ طالبان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ غیر ملکی افواج افغانستان کو چھوڑ دے۔
عظیم تر بلوچستان کی تحریک ایک تو پائپ لائن بچھانے کے لئے تھی . دوسرے پاکستان اور ایران پر دباؤ بڑھانے کے لئے بھی ہے۔ سنی بلوچ ایران میں سخت گیر شیعہ ریاست سے تنگ ہیں، مگر ایران نے سیستان بلوچستان کو اچھے طریقے سے کنٹرول کر رکھا ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ بلوچستان کو مس ہینڈل کیا.
حقیقی عوامی جمہوری قوتوں کا احترام کرنے کے بجائے کئی مرتبہ طاقت کا استعمال کیا گیا۔ بلوچستان کے غریب بلوچ اور پشتون اقتصادی بدحالی کا شکار ہیں ، سرداروں کا استحصال، اور عام بلوچ کی زندگی مشکلات کا شکار۔ (FC) فرنٹئیر کور کی کارروائیوں نے ان کے دل میں نفرت پیدا کر دی تھی۔
انیس سو بانوے (1992) تک ایف سی کو صرف منشیات اور اسلحہ کے خلاف کاروائی کا حکم تھا۔ بعد ازاں اس کا دائرہ کار بڑھا کر کمبل کولر بغیر کاغذات کے گاڑیوں کا پکڑنا اور ایرانی تیل کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔
سمگلنگ کو روکنے کے لئے متعلقہ ادارے موجود تھے جیسے کہ کسٹم۔ FC سمگلنگ کی روک تھام کے لئے عام بلوچوں کے ساتھ بدتمیزی کی اور زیادہ ظالمانہ سلوک کیا گیا۔ ایف سی کی بدتمیزی متعلقہ کاغذات کا نہ دینا اور رشوت گری۔
بلوچوں میں ایف سی کے لئے نفرت بڑھ گئی۔ اگر ایف سی کو صرف اور اسلحہ اور منشیات تک محدود رکھا جاتا، تو بلوچوں میں فوج کے خلاف نفرت نہ بڑھتی۔
جب بلوچستان میں دہشتگردی حد سے زیادہ بڑھ گئی، غیر ملکی سازشیں کامیاب ہوگئیں اور ان میں ہماری اپنی نااہلی کا بھی دخل ہے۔ میں نے بلوچستان سے متعلق سینئر آرمی افسر کے تجزیے سنے تو بڑی خوشی ہوئی۔ عسکری قیادت کو اس بحران نے دانشور اور جہاں دیدہ بنا دیا تھا۔ اب ہر کوئی بلوچوں کو گلے لگانے اور اپنا بھائی بنانے پر تلا ہوا تھا۔
اگر سیاسی عمل جاری رہے اور مارشل لا نہ لگے اور عام بلوچ کی زندگی کو بہتر بنایا جائے تو یہ عظیم تر بلوچستان کی مہم اور سازش خود بخود ختم ہو جائے گی۔
جمہوری عمل کے نتیجے میں بلوچستان کے عوام پنجاب مرکز اور فوج کے خلاف ہونے کے بجائے خود اپنے سرداروں کے خلاف ہو جائیں گے، جو کہ انڈیا لندن اور سوئٹزرلینڈ میں بیٹھ کر گریٹر بلوچستان کی تحریک کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اگر ان اقدامات پر عمل نہ کیا گیا تو یہ تحریک وقتی طور پر دب جائے گی، لیکن یہ بحران شدید تر ہو کر پھر ابھرے گا۔(ختم شد)