سبیکا ، امریکا اور عافیہ
غیر ملکی میڈیاکے مطابق 17 سالہ پاگورچیز کئی ماہ سے اپنی کلاس فیلو شانا کے ساتھ دوستی قائم کرنا چاہ رہا تھا۔ پاگورچیز نے اسے ڈیٹ پر چلنے کی دعوت دی۔ 16سالہ شانا نے پاگورچیز کو انکار کردیا۔ پاگورچیز کا اصرار بڑھا تو ایک دن شانا نے کلاس میں کھڑے ہوکر بلندآواز میں پاگورچیز کو کہا :’’میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گی‘‘۔ پاگورچیز نے ہفتہ بعد ان سب پرگولیاں برسا دیں، جن کو وہ ناپسند کرتا تھا اور شانا کو سب سے پہلے نشانہ بنایا۔
اس نے شاٹ گن اور 38بور کا پستول کو استعمال کیا۔ ابھی کلاس شروع ہوئی تھی کہ پاگورچیز کلاس میں داخل ہوااور اس نے شاٹ گن سے اپنے ہم جماعتوں پر گولیاں برسانا شروع کردیں۔
اس نے اندھادھند فائرنگ نہیں کی، بلکہ تاک تاک کر نشانے لگائے۔ اس کی فائرنگ سے دو ٹیچرز سمیت دس طلباوطالبات مارے گئے اور ایک درجن سے زائد زخمی ہوئے۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور نے مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے آرٹ کی کلاس میں داخل ہو کر فائرنگ شروع کر دی۔
مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایک عینی شاہد نے بتایا :’’کوئی شخص بندوق لے کر کلاس میں داخل ہوا اور فائرنگ شروع کردی اور ایک لڑکی کو ٹانگ میں گولی لگ گئی‘‘۔ایک طالبہ نے بتایا:
’’فائر الارم بجنے کے بعد تمام طلبہ باہر کی جانب بھاگے اور گولی چلنے کی آواز آئی۔ میں تیزی سے بھاگی تاکہ میں چھپ سکوں اور پھر میں نے اپنی ماں کو فون کیا‘‘۔حکام کے مطابق حملے کے وقت سکول میں 1400 طلبہ تھے۔
17 سالہ سبیکا بھی روزے کی حالت میں پاگورچیزکی فائرنگ کا نشانہ بن گئی۔کراچی کی رہائشی سبیکا عزیز شیخ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے کینیڈی لوگریوتھ ایکسچینج اینڈ اسٹڈی اسکالر شپ پروگرام کے تحت گزشتہ برس 21 اگست کو 10 ماہ کے لیے امریکا گئی تھی اور 9 جون کو اسے وطن واپس لوٹناتھا۔
وہ ٹیکساس کے شہر سانتافی کے ایک ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھی۔ سبیکا کے والد عبدالعزیز نے امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں واقع ایک ہائی سکول میں فائرنگ کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی خبر نیوز چینل سی این این پر سنی تھی۔انھوں نے بتایا:افطار سے فارغ ہو کر میں نے 8 بجے ٹی وی چینل کھولا تھا جب میرا دھیان ایک خبر پر گیا۔ اس پوری خبر میں دو لفظ ابھر کر میرے سامنے آ رہے تھے۔
ٹیکساس اور سکول۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے سبیکا کو فون کیا ہو اور اس نے فون نہ اٹھایا ہو یا اس کا فورا میسج نہ آجائے کہ بابا میں آپ کو بعد میں فون کرتی ہوں، لیکن اس دن ایسا نہیں ہوا‘‘سبیکا کے والد نے پھر اس کی دوستوں کو فون ملایا لیکن جواب موصول نہیں ہوا۔
سکول کی انتظامیہ اور پروگرام کوآرڈینیٹر کو فون کرنے پر معلوم ہوا کہ سکول کو چاروں طرف سے پولیس نے بند کر دیا ہے اور اس وقت ان کو کچھ بھی وثوق سے نہیں بتایا جا سکتا کہ کیا ہوا ہے۔
سبیکا کا تعلق گلشنِ اقبال کراچی سے تھا? اس کی والدہ نے بتایا کہ سبیکا کے پاکستان آنے میں صرف 20 دن رہ گئے تھے۔ ابھی پرسوں ہی اس نے مجھے فون پر بتایا ’’ مما اب صرف 19 دن رہ گئے ہیں اور پھر میں واپس آجاؤں گی‘‘ اپنی مرضی کے کھانے بتاتی رہتی تھی کہ مما میرے لیے افطاری میں یہ کھانا بنائیے گا۔ یہ واقعہ ہم سب کے لیے ایک سانحہ بن کر رہ گیا ہے۔
میری بیٹی اب واپس نہیں آئے گی۔
ریاست ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے کہا کہ مختلف قسم کا دھماکہ خیز مواد سکول اور سکول کے نزدیک سے ملا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کو حملہ آور کی ڈائری ، کمپیوٹر اور موبائل فون سے مزید معلومات ملی ہیں۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے حملے کی پہلے تیاری کی تھی اور اس کا ارادہ تھا کہ وہ اس کے بعد خود کشی کر لے گا۔گورنر گریگ ایبٹ نے کہا کہ ملزم نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا کیونکہ اس میں خودکشی کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ہیوسٹن کے سانتافی میں جمعہ کی صبح ہونے والا واقعہ امریکہ کے سکولوں میں فائرنگ کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ امریکی اخبار’’ واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے مطابق سال 2018 میں امریکی سکولوں میں امریکی فوج کے مقابلے میں زیادہ اموات ہوئی ہیں۔
ٹیکساس سکول کی فائرنگ سے قبل فروری میں فلوریڈا کے ایک سکول میں پڑھنے والے طالبعلم نے فائرنگ کی تھی جس سے 17 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔اپریل 2007 میں ایک 23 سالہ کوریائی نڑاد امریکی طالب علم نے ورجینیا ٹیک یونورسٹی میں فائرنگ کی جس میں 27 طلبہ اور پانچ اساتذہ ہلاک ہوئے۔
دسمبر 2012 میں کنیکٹیکٹ کے شہر نیو ٹاؤن میں 20 سالہ ایک شخص نے اپنی والدہ کو مار کر سینڈی ہوک ایلیمینٹری سکول میں فائرنگ کی۔ اس واقعے میں 20 چھ اور سات سال کے بچے اور چھ دیگر افراد ہلاک ہوئے۔واضح رہے کہ دو ہفتے قبل نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر مطالبہ کیا تھا کہ سکولوں میں اساتذہ کو اپنے ساتھ ہتھیار رکھنے چاہییں۔ کیا عجب نظارہ ہو گا، ایک ہاتھ میں کتاب اور ایک میں ہتھیار۔
دنیا کے عظیم اسلحہ ساز ملک امریکا کے اسلحہ کی فروخت میں مزیداضافہ ہو جائے گا۔تصور کیجیئے کہ یہ واقعہ اگرامریکا کی بجائے پاکستان میں پیش آتا۔ ٹیکساس کی بجائے پشاورمیں پیش آتا۔ پاکستانی کی بجائے امریکی طالبہ ہلاک ہو جاتی۔ منظر یقیناًبدل جاتا۔اور وہ منظریقیناًآپ کی نظروں میں گھوم چکا ہے۔ کیا ٹیکساس کا یہ بے رحم اور بے مہر طالب علم مسلمان تھا؟ کیا یہ جنونی طالب علم کسی اسلامی مدرسے کا تعلیم یافتہ تھا؟ کیا اس دہشت گرد نے پاکستان میں تربیت حاصل کی تھی؟ یقیناًنہیں۔
پاگورچیز امریکہ میں پیدا ہوا۔ امریکہ میں اسلحہ کا استعمال سیکھا۔ اپنی مادر علمی میں دہشت پھیلا دی۔ اپنے ہی کلاس فیلوز کو خون میں نہلا دیا۔ کیا ٹیکساس کے سنگدل ،کیا فلوریڈا کے پتھر دل ، کیا ورجینیا ٹیک کے بے درد ،کیا نیو ٹاؤن کے سفاک دہشت گردوں کی قساوت اور سرد مہری کے باعث تمام امریکی دہشت گرد قرار پائیں گے؟ یقیناًنہیں۔ سبیکاکی موت نے امریکیوں کویہ پیغام دیا ہے کہ دہشت گرد کا نہ ملک ہوتا ہے ، نہ مذہب۔ نہ قوم ہوتی ہے، نہ اخلاقیات۔
دہشت گرد امریکہ اور یورپ میں بھی جنم لیتے ہیں۔ سبیکا کراچی پبلک سکول کی طالبعلم تھی۔غیر معمولی ذہین اور باصلاحیت بچی تھی۔ چھوٹی عمر میں اس کے خواب بڑے تھے۔ وہ پاکستان کی فارن سروس میں جانا اور ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی۔
امریکا جانے سے قبل سبیکا بہت خوش تھی۔ سبیکا کا کہنا تھا کہ جب والدین نے مجھے لیٹر کے بارے میں بتایا تو مجھے یقین نہیں آیا، میرے والد نے مجھے اپنی میل چیک کرنے کو کہا۔جس کے بعد میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور خوشی سے اپنے کمرے میں چھلانگیں لگائیں۔
مجھے اگست کا بے چینی سے انتظار ہے میں امریکا پڑھنے جانے کے لئے بہت زیادہ پرجوش ہوں۔
جاتے ہوئے وہ خوشی سے نہال تھی۔ واپسی پر وہ خون میں نہا چکی تھی۔ ٹیکساس میں قیام کے دوران سبیکا نے امریکہ میں طالبات کو حجاب پہنایا تھا۔
سانحہ کے دن وہ روزے کی حالت میں تھی۔اس کے خوابوں کے سرزمین نے اس کے خواب چھین لئے۔سبیکا کا لاشہ امریکا سے پاکستان آچکا اور قبر میں اتار دیا گیا۔ عافیہ امریکی قید میں ہے اور آزادی کی منتظرہے۔ ایک بیٹی قبر میں ہے ، دوسری قید میں۔