نگران وزیر اعظم کی صلاحیتوں کا امتحان
نگران وزیراعظم کے لئے ریٹائرڈ چیف جسٹس ناصر الملک کا نام سامنے آتے ہی ایک طرح کا اتفاق رائے نظر آنے لگا ہے، حکومت کو اطمینان ہے تو اپوزیشن بھی خوش ہے، اگرچہ طویل عرصے کے دوران اِس عہدے کے لئے بہت سے نام سامنے آتے رہے اور بعض ناموں کو یہ اہمیت حاصل رہی کہ انتخاب اُنہی میں سے ہو گا،لیکن اب جب جسٹس(ر) ناصر الملک کے نام پر اتفاق رائے ہوا ہے تو حیرانی بھی ہوئی ہے کسی جماعت نے اُن کی مخالفت نہیں کی اور اُن کے اچھے ماضی کے حوالے سے کامیاب مستقبل کی امیدیں بھی وابستہ کی ہیں تاہم تحریک انصاف کے ایک رہنما نے جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) میں بھی رہ چکے ہیں، اتنا ضرور کہا ہے کہ جسٹس (ر) ناصر الملک کو یہ عہدہ قبول نہیں کرنا چاہئے تھا،کیونکہ ان کا خیال ہے کہ جج صاحبان کو ’’انتظامیہ اور ریاست کے معاملات کی اتنی زیادہ سمجھ نہیں ہوتی، اُن کی بجائے انتظامیہ میں سے کوئی شخص لینا چاہئے تھا، جسٹس(ر) ناصر الملک نے جن مقدمات کے فیصلے دیئے دیکھ لیں ان کا زیادہ فائدہ کس کو ہوا ،اب معلوم نہیں یہ صرف تحریک انصاف کے رہنما کا ذاتی بیان ہے یا پارٹی پالیسی ہے، فی الحال تو عمومی طور پر جسٹس(ر) ناصر الملک کی نامزدگی کا خیر مقدم ہی کیا جا رہا ہے اور اسے بہترین انتخاب قرار دیا گیا ہے۔
نامزد نگران وزیراعظم کا کہنا ہے کہ انہیں میڈیا کے ذریعے اپنی نامزدگی کا پتہ چلا ہے نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد ہی بات کروں گا،تاہم اُن کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ وہ انتخابی عمل کو سمجھتے،انتخابی نظام کی پیچیدگیوں اور انتخابی دھاندلیوں کے مروجہ طور طریقوں سے آگاہی رکھتے ہیں اُنہیں عمران خان کے دھرنے کے بعد2013ء کے انتخاب میں دھاندلیوں کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن کے سربراہ کے طور پر کام کا بھی تجربہ ہے اس کمیشن نے یہ فیصلہ سنایا تھا کہ عام انتخابات میں کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی تھی یہ وہ بنیادی الزام تھا، جو عمران خان ان انتخابات پر لگاتے رہے نامزد وزیر اعظم سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھال کر وہ ایسے اقدامات کریں گے جو 2018ء کے انتخابات کا اعتبار قائم کرنے کے لئے مفید ثابت ہوں، کیونکہ نگران وزیراعظم کا منصب قائم ہی اِس لئے کیا گیا ہے کہ ایک ایسا عہدیدار عام انتخابات کی مجموعی نگرانی کرے،جو خود بھی غیرجانبدار ہو اور الیکشن لڑنے والوں کو بھی مساوی نظر سے دیکھے۔
پاکستان میں انتخابات تو وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ہیں تاہم پہلے صوبائی انتخابات کے بعد ہی ’’جھرلو‘‘ کی اصطلاح ہماری انتخابی ڈکشنری میں شامل ہوگئی تھی اور آج تک ہم اس لفظ کو لغت سے خارج نہیں کر سکے،56ء کے آئین کے تحت طے شدہ انتخابات تو ہو نہیں سکے،لیکن ایوب خان نے بنیادی جمہورتیوں کا جو نظام اپنے رائج کردہ آئین کے تحت متعارف کرایا اُن میں بھی دھاندلی کا الزام لگا اس کا نقطہ عروج 77ء میں ہونے والے انتخابات تھے،جو چار ماہ کی مخالف تحریک کے بعد مارشل لا کے نفاذسے کالعدم ہو گئے، اس کے بعد بھی ہرانتخاب پر دھاندلی کا سایہ پڑا رہا۔ اگر چہ جسٹس(ر) ناصر الملک کی سربراہی میں قائم کمیشن نے 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کو تسلیم نہیں کیا پھر بھی تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی اپنے اپنے انداز میں اپنا یہ الزام دہراتی رہتی ہیں،اِس لئے اب اصل ضرورت یہ ہو گی کہ نگران وزیراعظم اپنی صلاحیتوں سے کام لے کر ایسے انتخابات کرا دیں، جن پر کسی کو بھی انگلی اٹھانے کی جرأت ہو اور نہ ضرورت، اگر ایسا ہو گیا اور امید کی جا سکتی ہے کہ ہو گا تو پھر اُن کا یہ کارنامہ ایسا ہو گا جو پاکستان کی انتخابی تاریخ میں زندہ اور یادگار رہے گا۔
ابھی صرف انتخابات کی تاریخ سامنے آئی ہے، شیڈول کا اعلان نہیں ہوا، تاہم سیاسی جماعتوں کی چھتریوں سے موسمی پرندوں کی اڑان بتاتی ہے کہ ہوا کا رُخ کدھر ہے،کیونکہ یہ پرندے کئی سو میل دور سے فضاؤں کی خوش بو سونگھ کر یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ اقتدار کا ہُما کس کے سر پر بٹھایا جانے والا ہے اِس لئے وہ مرغان باد نما کی طرح اپنا رُخ بھی اس طرف کر لیتے ہیں۔اگرچہ سیاسی اخلاقیات میں یہ عمل تو اچھا نہیں سمجھا جاتا،لیکن پرندوں کی اڑان کو روکا بھی نہیں جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اِن دنوں یہ عمل اپنی پوری رفتار سے جاری ہے، سیاسی جماعتوں کے اتحاد بھی بن اور بگڑ رہے ہیں جو جماعتیں گزشتہ پانچ سال میں ایک دوسرے کی حلیف تھیں وہ اب حریف بن کر سامنے آرہی ہیں، ایک عشرے کی کوششوں کے بعد ایم ایم اے کا اتحاد بحال ہو گیا ہے تاہم اس میں سے ایک جماعت نے بحالی کے اس فیصلے کو پسند نہیں کیا اور اس کی سیاسی محبتیں بدستور ایک ایسی جماعت پر قربان ہیں جسے بعض حلقے نہ جانے کیوں نئی کنگز پارٹی کے نام سے یاد کرنے لگے ہیں۔
عام انتخابات سے پہلے نئی دھڑے بندیاں تو ہوتی ہیں اور پرانی دوستیاں بھی بدل جاتی ہیں،لیکن اِدھر کچھ عرصے سے ایسے دانشوروں کی ایک کھیپ سامنے آئی ہے،جو ابھی سے ’’ہنگ پارلیمنٹ‘‘ کے گن گانے لگی ہے یہ تو ووٹروں پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں اور ان کے فیصلے کے نتیجے میں کس قسم کی پارلیمینٹ وجود میں آتی ہے،لیکن جس انداز میں ’’ہنگ پارلیمینٹ‘‘ کے تصور کو گلوریفائی کیا جا رہا ہے، لگتا ہے اس پردۂ زنگاری میں بھی کوئی معشوق ہے اس لئے نگران حکومت کو سامنے نظر آنے والے انتخابی انتظامات کے ساتھ ساتھ اُن ڈوریوں پر بھی نظر رکھنا ہو گی، جو کہیں دور سے ہلائی جاتی ہیں اور اُن کا مقصد کسی نہ کسی طرح انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونا ہی ہوتا ہے، اِس مقصد کے لئے نئی سیاسی جماعتیں بھی بنتی ہیں اور پرانی جماعتوں کی توڑ پھوڑ بھی ہوتی ہے۔یہ کام چونکہ ننگی آنکھ سے نظر نہیں آتا، اِس کے لئے ایک اندرونی بصیرت درکار ہوتی ہے اِس لئے جسٹس(ر) ناصر الملک سے امید ہے کہ وہ اپنی خداداد ذہانت اور بصیرت سے کام لے کر ہر طرح کی نہاں اور عیاں قوتوں پر نظر رکھیں گے، جن کا مقصد انتخابی نتیجے کو براہِ راست یا بالواسطہ،مثبت یا منفی طور پر متاثر کرنا ہو۔
چیف جسٹس(ر) ناصر الملک دھاندلیوں کے الزامات کی تحقیقات کرنے والے جس عدالتی کمیشن کی سربراہی کر رہے تھے اس نے اپنی رپورٹ میں نو بڑی خامیوں کی نشاندہی کی جو انتخابی منصوبہ بندی اور انتظام میں اُس وقت کے الیکشن کمیشن سے سرزد ہوئیں، اسی رپورٹ میں الیکشن کمیشن کے کردار پر بھی تفصیل سے بحث کی گئی ہے، اب جبکہ جسٹس(ر) ناصر الملک کو خود مُلک کے نگران چیف ایگزیکٹو بننے کا موقع ملا ہے تو وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ جن کوتاہیوں کی انہوں نے نشاندہی کی وہ اگر دور ہو گئی ہوں تو بہتر اور اگر نہیں ہو سکیں تو یہ وقت ہے کہ وہ اپنی نگرانی میں یہ سب کوتاہیاں دور کرا دیں اور الیکشن کمیشن کو ایسا ادارہ بنا دیں،جو ہر قسم کے دباؤ کو نظر انداز کر کے صحیح معنوں میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے میں کامیاب ہو جائے۔اگر پہلے کی طرح انتخابات کو متنازعہ ہی بنایا جاتا رہا تو پھر یہ کہا جائے گا کہ ہم جتنے بھی تجربات کرتے ہیں بالآخر وہ ناکام ہی ثابت ہوتے ہیں۔