وزیر اعظم نے ملتان فیصل آباد موٹروے، بے نظیر شہید پل کے نامکمل منصوبوں کا افتتاح کردیا
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی یہ شکوہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے کیا ایسے ملک اور حکومت چل سکتی ہے، جب کوئی سیاستدان کوئی بیورو کریٹ کام کرنے کو تیار نہ ہو، بیورو کریٹس کا گلہ اور خوف یہ ہے کہ وہ کسی کاغذ پر دستخط کرتے ہیں تو انہیں نیب بلا لے گی یا پھر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا اگر ان سے بچ گئے تو پھر میڈیا ایسا ٹرائل کرے گا کہ رہے رب کا نام، ایسے میں ان سے بچنے کے لئے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ کوئی کام نہ کیا جائے واضح رہے کہ یہ بات پاکستان کے منتخب جمہوری وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ وزیر، مشیر یا کوئی سیاسی کارکن یہ بیان نہیں کر رہا ہے اب اس سے بڑی پارلیمنٹ کی بے توقیری کیا ہو گی لیکن اس میں کس کا قصور ہے یہ ایک الگ کہانی ضرور ہے مگر اس میں موجودہ سیاسی اشرافیہ کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا جنہوں نے صرف بیانات بلکہ حقیقت میں بھی اس کی توہین کی ہے اب وہ آنے والی پارلیمنٹ کا اس تناظر میں کیا حشر برپا کرتے ہیں یہ تو عام انتخابات کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا لیکن ادھر نگران وزیر اعظم کو بھی ان معاملات کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا اس کے باوجود کہ انہوں نے کوئی پالیسی فیصلے نہیں کرنے اور صرف انتخابات تک نگرانی کرنی ہے لیکن حالات کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتے ہیں ویسے بھی نگران وزیر اعظم اس 7 رکنی بنچ کا حصہ تھے جس نے پیپلز پارٹی کے منتخب وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو ایک مختصر ترین سزا دے کر پانچ سال کے لئے نا اہل قرار دے دیا تھا اور اس کا تسلسل میاں نواز شریف کی نا اہلی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
ادھر مسلم لیگ ن کی مرکزی اور صوبائی حکومتیں دھڑا دھڑ ایسے جاری منصوبوں کا افتتاح کرنے پر دن رات زور لگائے ہوئے ہیں جو ابھی تک مکمل بھی نہیں ہوئے۔ خیبر پختون خوا کی انصافی حکومت بھی پیچھے نہیں رہی جبکہ سندھ والے تو منصوبوں کی ’’خوابی‘‘ فلمیں بنا کر کارناموں کی صورت میں الیکٹرانک میڈیا پر قیمتاً براڈ کاسٹ کروا رہے ہیں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی نا مکمل منصوبوں کا دھڑلے سے افتتاح کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ بقول ان کے اسلام آباد میں کم از کم ان کے کام کرنے کو کچھ بھی نہیں اس لئے وہ ایسے ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرنے بھی پہنچ رہے ہیں جو مخص 20% بھی مکمل نہیں ہوئے ملتان سے فیصل آباد موٹر وے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے دور میں شروع ہوا اور آج 8 سال گزرنے کے باوجود بھی مکمل نہیں ہو پایا اسی طرح راجن پور کے قریب دریائے سندھ پر بے نظیر شہید پل کی تعمیر بھی ایک عرصہ دراز تک جاری رہنے کے بعد مکمل تو ہو گئی لیکن آج بھی اس کی رابطہ سڑکیں تعمیر نہ ہو سکیں اس کا بھی افتتاح کر دیا گیا ہے حالانکہ وہ گذشتہ 2 سال سے ٹریفک کے لئے کھلا تھا کیا مقامی آبادی کو اس بارے میں تمام معلوم نہیں اور اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر اب کی مرتبہ عام انتخابات میں کیا ہو سکتا ہے کیا مسلم لیگ ن نے یہ سوچا ہے؟ کیونکہ ٹھیک اسی طرح اپنی حکومت کے آخری دنوں میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا تھا اور پھر عام انتخابات میں اس کا جو سیاسی حشر ہوا اس کا صدمہ ابھی تک وہ اٹھائے پھر رہے ہیں شاید اب دیر ہو چکی ہے دیر تو ن لیگ کی حکومت نے پانی کے مسئلہ پر بروقت اقدام نہ کر کے بھی کر دی ہے جس کی وجہ سے عالمی بنک نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر پاکستان کی شکایات اور شواہد کو ناکافی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے جو سفارتی محاذ پر ہماری ایک بڑی شکست بھی ہے اس ڈیم کی تعمیر پیپلز پارٹی کے دور یعنی2009 میں شروع ہوئی اس وقت ن لیگ ایک مضبوط اپوزیشن کی صورت میں موجود تھی لیکن دونوں پارٹیوں کو اتنا وقت نہیں ملتا تھا کہ وہ ملک کے مستقبل اور عوام کی زندگی کے بارے میں کچھ سوچ سکیں یہ حقیقت ہے کہ پانی زندگی ہے اور اس وقت اس ’’زندگی‘‘ کا کنٹرول تقریباً بھارت کے پاس جا رہا ہے جو ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں، آمروں، منصوبہ سازوں اور سب سے بڑھ کر پانی اور ماحولیات کی وزارت کی حد درجہ نا اہلی ہے جس کی سزا زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے کہ جس سے یہاں کے عوام اب پانی کی بوند بوند کو ترسیں گے یہ کس طرح ہوا کیوں ہوا اور اس محرکات کیا ہیں اس کی تفصیل پھر سہی مگر اب اتنا ہی کہ یہ مسئلہ اتنا سنگین ہے جس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے اور جو حالات پیدا ہو چکے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وطن عزیز میں 2025 تک پانی کی اس قدر قلت ہو جائے گی فصلوں کی بات تو دور پینے کے لئے پانی بھی دستیاب نہیں ہو گا۔ دریاؤں، ندی اور نالوں کی خشکی زیر زمین پانی کو نہ صرف مزید گہرائی تک لے جائے گی بلکہ قدرتی عمل کے تحت پانی کی مٹھاس کڑواہٹ میں تبدیل ہو کر بیماریوں کی جڑ بن جائے گی اب ایسے وقت میں نہ صرف سیاستدانوں بلکہ باقی دعویٰ داروں سے یہ پوچھنا تھا کہ کیا اس مسئلہ کا ان کے پاس اب بھی کوئی حل ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر یہ تمام منصوبے کاغذی ثابت ہوں گے۔
ادھر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے مظفر گڑھ کے دورے کے دوران ایک مرتبہ پھر اپنے سیاسی حریفوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یکدم نیب کی تعریف شروع کر دی اور یہ دعویٰ بھی کر دیا ہے کہ نیب ایک آئینی ادارہ ہے جسے چاہے بلا سکتا ہے ہمیں قانون کے آگے سر جھکانا ہو گا انہوں نے یہ دعویٰ بھی داغ دیا کہ اگلے پانچ سالوں میں جنوبی پنجاب کو وسطی پنجاب کے برابر ترقیاتی کاموں میں لا کر کھڑا کریں گے اب اگلے پانچ سال کس کو ملتے ہیں یہ تو جولائی 18 کے انتخابات میں ہی فیصلہ ہو گا لیکن دوسری طرف نواب آف بہاولپور نواب صلاح الدین عباسی نہ صرف خود تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں بلکہ اپنی جماعت کو بھی اس میں ضم کر دیا ہے ان کے بیٹے پرنس بہاول خان عباسی بھی ان کے ہمراہ تھے اب تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد وہاں کیا تبدیلی آتی ہے اس کے لئے انتظار کرنا پڑے گا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سید یوسف رضا گیلانی کی کئی خوبیاں ہیں ایک تو وہ ملک کے طویل ترین وقت تک رہنے والے وزیر اعظم کا ٹائٹل حاصل نہ رکسے تاہم وہ اس کو اب بھی حق سمجھتے ہیں جبکہ ہر وہ کام جو اس وقت معلوم نہیں کس کی محنت سے مکمل ہوتا ہے وہ اپنے کھاتے میں ڈال لیتے ہیں جیسا کہ فاٹا کا خیبر پختون خوا میں انضمام کا کریڈیٹ بھی انہوں نے لے لیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ فاٹا کے عوام کو پیپلز پارٹی کی کوششوں سے آزادی نصیب ہوئی ملتان سے فیصل آباد تک موٹر وے ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی اس بارے سید بذات خود اور راوی بھی خاموش ہے ۔
ملک کی معروف ادبی، صحافتی شخصیت اور معروف قانون دان مظہر نواز خان ایڈووکیٹ گذشتہ دنوں جہان فانی سے کوچ کر گئے ان کی پہچان مظہر کلیم ایم اے کے نام سے بھی تھی اور جب وہ بچوں اور بڑوں کے لئے کہانیاں لکھا کرتے تھے جس میں عمران سیریز، جاسوسی ناول سے انہوں نے خاصی شہرت پائی جبکہ بچوں کا معروف کردار آنگلو بانگلو ان کی تخلیق تھا ’’آنہ‘‘ لائبریری ان کی لکھی ہوئی سیریز وار کتابوں سے چلا کرتی تھیں انہوں نے پانچ ہزار سے زیادہ کتابیں بچوں کے لئے تحریر کیں پاکستان کی فلم انڈسٹری جب اپنے پاؤں پرکھڑی تھی تو انہوں نے سپرہٹ فلموں کی نا صرف کہانیاں لکھیں بلکہ ڈائیلاک اور نغمے بھی تحریر کئے ان کی وفات سے ادب میں ایک بڑا خلا پیدا ہوا ہے۔