ساہیوال میں انتخابی سرگرمیاں سست روی کا شکار ، پنچھیوں کو یکم جون کا انتظار
ساہیوال(محمد الطاف الرحمن سے)ضلع ساہیوال میں الیکشن 2018کے سلسلہ میں انتخابی سر گر میاں سست روی کا شکار ہیں سابق نا اہل وزیرا عظم کے احتساب عدالت میں زیر سماعت مقدمات ،مسلم لیگ (ن) کے ممبران اسمبلی کی دو سری سیاسی پارٹیوں میں نقل مکانی اور یکم جون کا انتظار اہم وجوہ ہیں ۔ضلع ساہیوال میں نئی حلقہ بندیوں میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کھو چکا ہے پہلے چار قومی حلقے تھے جو اب تین رہ گئے ہیں۔اس وجہ سے بھی سیاسی تبدیلیاں اور سر گر میاں متا ثر ہوئی ہیں ۔واضح اور یقینی صورتحال تو پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد ہی سامنے آئے گی۔حلقہ این اے 147سے گز شتہ پانچ برسوں میں مسلم لیگ (ن) کے امیدورا ہی کامیاب ہو ئے ۔چو ہدری طفیل جٹ ممبر قومی اسمبلی تھے تو اس سے متعلقہ صوبائی امسبلی کے دو حلقہ جات سے ان کے حقیقی بھائی چو ہدری ارشد جٹ اور چو ہدری حنیف جٹ منتخب ہو ئے تھے۔دوسرے ممبر قومی اسمبلی چو ہدری منیرا ظہر کا تعلق بھی مسلم لیگ (ن) سے ہی تھا ۔پورے ضلع سے صرف ایک نشست پر رائے حسن نواز خاں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے کامیاب ہوئے جو بعد ازاں ناہل ہو گئے اور ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی نے یہ سیٹ چو ہدری طفیل جٹ کے پاس ہار دی ۔اب اس حلقہ سے چو ہدری طفیل جٹ اور چو ہدری منیرا ظہر دونوں امیدوار ہیں ۔دیکھیں مسلم لیگ (ن) کسے ٹکٹ دیتی ہے ۔شائد مسلم لیگ (ن) کو جٹ برادری کے تین بھائیوں کو چھوڑنا مشکل ہو جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کا تعلق ہے اس حلقہ سے چو ہدری سعید گجر اور اقبال لنگڑیال بھی پی ٹی آئی کے ٹکٹ کی آس لگائے بیٹھے ہیں ۔اس دور میں میجر (ر) غلام سرور بھی ان کے برابر ہیں ۔اب اس حلقہ میں چو نکہ رائے فیملی انتہائی مو ثر ہے وہ کیا رول ادا کر تی ہے خود حصہ لیتے ہیں یا کسی کی حمایت کر تے ہیں سارا دارومدار انہی پر ہے ۔رائے مر تضیٰ اقبال بھی سیاسی دنگل میں ہیں۔رائے حسن نواز خاں کسی بھی وقت کوئی اہم اعلان کر سکتے ہیں ۔انہیں اس بات کا بھی فائدہ ہے کہ میونسپل کمیٹی چیچہ وطنی کے چئیر مینوں کی اکثریت کا تعلق پی ٹی آئی اور رائے گروپ سے ہے جو اگلے الیکشن میں اہم کر دارا دا کریں گے ۔بیگم شہناز جا وید اس حلقہ سے پیپلز پارٹی کی امیدوار ہونگی ۔حلقہ این اے 148میں بھی کانٹے دار مقابلے ہونگے یہاں مسلم لیگ (ن) کے موجودہ ممبر قومی اسمبلی چو ہدری محمد اشرف لیڈر سدا بہارا ور مظبوط امیدوار ہیں لیکن اس بار ان کی نشست میں دراڑ ڈالنے والے ممتاز صنعتکار ،صوبائی اسمبلی کے رکن محمد ارشد کے والد اور میاں نواز شریف معتمد ساتھی ملک محمد رمضان بھی میدان میں کود اترے ہیں اور سیاسی بابو کا کہنا ہے کہ ملک محمد رمضان ٹکٹ لے اڑیں گے ویسے بھی عمر رسیدگی،صنعتی اور بیماری چو ہدری محمد اشرف کے آڑے آئے گی ۔اس حلقہ سے پاکستان پیپلز پارٹی اپنے دیرینہ کارکن اور سابق پارلیمانی سیکرٹری تعلیم مہر غلام فرید کاٹھیا کو میدان میں لائے گی ۔پاکستان تحریک انصاف کے اس حلقہ سے دو امیدوار سامنے آئے ہیں پہلے سابق ڈپٹی ضلع ناظم ملک محمد یار ڈھکو اور سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری میاں انوار الحق رامے ،ملک محمد یار ڈھکو کو رائے حسن نواز کی حمایت بھی حاصل ہے ۔پاکستان مسلم لیگ (ق) کی طرف سے سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری میاں انوار الحق رامے،ملک محمد یار ڈھکو کو رائے حسن نواز کی حمایت بھی حاصل ہے ۔پاکستان مسلم لیگ (ق) کی طرف سے سابط وفاقی پارلیمانی سیکرٹری اور مشیر وزیرا علیٰ رانا طارق جا وید بھی اس حلقہ سے مظبوط امیدوار ہیں۔بعد اطلاعات کے مطابق ضلعی چئیر مین چو ہدری زاہد اقبال اور انکے بیٹے جو مسلم لیگ (ن) میں ایک مظبوط اور اور معروف سیاسی حیثیت رکھتے ہیں نے دو ٹکٹوں کا مطالبہ کیا ہے انکار کی صورت میں ان کا پاکستان تحریک انصاف کی طرف اڑان بھر نے کا امکان ہے جس میں ان کی معاونت سینٹر چو ہدری محمد سرور کر سکتے ہیں۔اب آتے ہیں ساہیوال کے اہم ترین حلقہ NA/149کی طرف جس میں ساہیوال شہر اور مضافات کے دیہات وغیرہ آتے ہیں اس حلقہ میں ملکی سیاست کی ابتدا سے ہی بڑے بڑے جوڑ پڑے ہیں اس میں جی ڈی دیہات 6/Rکے دیہات،5/Lاور 9/Lکے درجنوں دیہات بھی شامل ہیں ۔جہاں برادری ازم انتہائی مو ثر کردار ادا کر تا ہے ۔شہری علاقے میں بھی شیخ،آرائیں،راجپوت ،ملک اور رحمانی برادریاں انتخابی نتائج پر زبر دست اثرات ڈالتی ہیں سیاست کئی عشروں سے مخصوص خاندانوں کے گرد گھومتی ہے مختلف ادوار میں وفاقی سیاست پاکستان پیپلز پارٹی رانا عامر شہزاد نے اپنی الیکشن مہم دھوم دھام سے شروع کر دی ہے ان کا ڈیرہ سارا دن آباد رہتا ہے۔ سیاست کا نام ہی جوڑ توڑ کا ہے اور یہی توڑ جوڑ اس حلقہ کی خصوصیت ہے مستقل وفاداری کا فقدان ہے معروف دینی اور روحانی شخصیت پیر سید عمران احمد شاہ ولی اس حلقہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دو بار ایم این اے منتخب ہو ئے ہیں وہ لوگوں کے کام بھی آتے ہیں ۔ان کی خوشی ،غم اور روحانی محافل میں بھر پور شر کت کر تے ہیں ۔انہین اس بار یہ کریڈٹ بھی ہوگا کہ نئی حلقہ بندی سے جو دیہات نئے شامل ہوئے ہیں ان کی مقبولیت وہاں بھی پہلے سے ہے ۔صوبائی وزیر ملک ندیم کامران پارٹی ٹکٹوں کے اجرا ء میں ٹانگ اڑا سکتے ہیں کیونکہ ان کا شمار میاں شہباز شریف کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے اس لئے وہ صوبائی کی بجائے وفاقی سیاست میں جانا پسند کریں گے لیکن اس جنگ میں انہیں شدید دشواری کا سامنا ہوگا۔اس حلقہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے متوقع امیدوار رانا عامر شہزاد طاہر سابق تحصیل نا ظم ساہیوال ہیں اگر چہ اسی حلقہ سے پاکستان پیپلز پارٹی دو بار زکی چو ہدری کو اکھاڑے میں لا چکی ہے جو بری طرح ناکام رہے ہیں ۔2013کے الیکشن میں رانا عامر شہزاد طاہر نے آذاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا تھا ٹھیک ٹھاک ووٹ لئے تھے ۔اس بار پی پی پی کے ورکرز ان کی پشت پر ہونگے اس لئے مقابلہ کانٹے دار ہوگا ۔اسی حلقہ سے صوبائی وزیر ملک ندیم کامران کے معتمد ساتھی حافظ خالد ڈوگر انہیں خیرآباد کہہ کر مسلم لیگ (ق) میں چلے گئے اور ق لیگ کے ضلعی صدر بھی نامزد ہو گئے ۔وہ بڑی تندہی اور جوش و جذبے سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور شب و روز اس میں مصروف ہیں ۔ان کا دعویٰ ہے کہ وہ بڑا سر پرائز دیں گے کیونکہ ڈوگر برادری،بلوچ ،آرائیں برادری،بھٹی برادری کی اکثریت اور شہر ساہیوال سے تاجروں اور شہری معززین نے انہیں حمایت کا یقین دلایا ہے ۔پاکستان تحریک انصاف نے اس حلقہ سے ابھی تک کسی بھی امیدوار کو واضح اشارہ نہیں دیا سابق وفاقی وزیر چو ہدری نوریز شکور جن کے علی شکور جو 2013میں اس حلقہ سے الیکشن ہار گئے اس بار خود میدان میں اتر نے کی تیاری کر رہے ہیں لیکن ان کے لئے کافی مسائل ہیں ۔ان کے دیرینہ ساتھی رانا آفتاب احمد خان خود بھی ان کے برابر اسی حلقہ سے پی ٹی آئی کے لئے در خواست گزار ہیں ان کے اختلافات اور رنجشیں بھی اپنی جگہ ہیں پھر ان کے قریبی دوست پیر ولایت شاہ کھگہ اور انکے بیٹے خضر حیات شاہ کھگہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ان کے مد مقابل ہونگے ۔پھر مزید 9.Lکے کچھ دیہات کی اس حلقہ میں شمولیت بھی ان کے لئے مسئلہ ہوگی بہر حال اس بات کا فیصلہ تو پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد ہی ہو سکے گا ۔سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری انوار الحق رامے اس حلقہ سے بھی امیدوار ہو سکتے ہیں۔تحریک لبیک کی طرف سے شہزاد خاں بھی میدان میں کود پڑے ہیں جو خصوصی طور پر پاکستان مسلم (ن) اور متحدہ مجلس عمل کو نقصان پہنچانے کا باعث ہو سکتے ہیں ۔متحدہ مجلس عمل اس حلقہ سے ابھی تک کسی بھی امیدوار کو فائنل نہیں کر سکی نہ ہی کھل کر ابھی تک کسی امیدورا نے اس کا اظہار کیا ہے ۔متحدہ مجلس عمل کے زرائع بھی حتمی فیصلوں تک کھل کر اظہار نہیں کر رہے۔الیکشن 2018کی انتخابی مہم پر میاں نواز شریف کے خلاف مقدمات کے فیصلے اور مسلم لیگ (ن) کی شکست وریخت دو رس اثرات مر تب کرے گی اور کامیابی خواجہ سعد رفیق لوہے کا چنا ثابت ہوگی ۔عوامی رخ اور رحجان کیا سمت اختیار کر تا ہے اس کا فیصلہ عید کے بعد ہی ہو سکے گا کیونکہ رمضان المبارک کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ سیاسی سر گر میاں سست ہیں بلکہ غیر متوقع طور پر امیدواروں کو اپنی ٹکٹیں کنفرم نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی افطاریوں کا بھی فقدان ہے ۔شائد ثواب کے حصول کیلئے بھی انتخابی ٹکٹ کی کنفرمیشن ضروری ہے ۔یہ انتخابی صورتحال صرف قومی اسمبلی حلقہ جات کیلئے ہے۔