’میں اس بات کی گواہ ہوں کہ امریکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کرنے کے لئے تیار تھا لیکن آئی ایس آئی نے منع کردیا کیونکہ۔۔۔‘ خفیہ ایجنسی پر خطرناک ترین الزام لگا دیا گیا
واشنگٹن(مانیٹرنگ ڈیسک) ناکردہ گناہوں کی پاداش میں 86 برس کی سزا پانے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی ریاست ٹیکساس کی جیل میں قید ہیں، پاکستانی عوام ان کی رہائی کے لئے احتجاج کرتے ہیں اور حکمران انہیں واپس لانے کے ’مخلصانہ‘ وعدے کرتے ہیں لیکن اب 15 سال سے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے کوشاں معروف برطانوی خاتون صحافی ایوان رڈلی نے تہلکہ خیز دعویٰ کردیا۔
ویب سائٹ ’مڈل ایسٹ مانیٹر‘ پر شائع ہونے والے اپنے مضمون میں ایوان رڈلی نے لکھا کہ حال ہی میں یہ افواہ پھیلی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی، جو کہ امریکی فوجیوں پر حملے کے جرم میں 86سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں، ٹیکساس کی جیل میں وفات پاگئیں۔ اس سے پہلے کہ لاکھوں پاکستانی احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر آجاتے ، ایک پاکستانی سفارتی عہدیدار کو فوری طور پر جیل بھیجا گیا جنہوں نے عافیہ صدیقی کے ساتھ دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد تصدیق کی کہ یہ افواہیں بے بنیاد تھیں۔
ایوان رڈلی نے دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس سے 15 سال سے وابستہ رہنے کی وجہ سے میں ان کھیلوں پر نہایت بے سکونی محسوس کرتی ہوں جو ان کے نام پر کھیلے جارہے ہیں، میں اب بھی یقین رکھتی ہوں کہ وہ سنگین ناانصافی کا نشانہ بنی ہیں اور امریکی خفیہ ایجنسی کے کچھ حصوں اور پاکستانی خفیہ ایجنسی کے درمیان جاری گیم کا مہرہ بن کر رہ گئی ہیں لیکن وقت آن پہنچا ہے کہ اب میں اس معاملے میں اپنی خاموشی ختم کر دوں۔
خاتون نے دعویٰ کیا کہ فورٹ ورتھ کی کارسویل جیل سے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو مکمل صدارتی معافی کے ساتھ رہا کروانے کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی۔ اس کا تبادلہ امریکی فوجی رابرٹ برگڈال کے ساتھ کیا جانا تھا، جو کہ جون 2009ءسے مئی 2014ءتک طالبان کی قید میں رہا۔ مجھے طالبان شوریٰ کے سینئر ارکان سے پتہ چلا تھا، جب میں 2013ءمیں خطے کے دورے پر تھی، کہ برگڈال اور عافیہ صدیقی کا تبادلہ ممکن ہے۔ میں نے فوری طور پر امریکی ملٹری انٹیلی جنس سے رابطہ کیا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ اگر مجھے کوئی سنجیدگی سے لے گا تو وہ امریکی آرمی ہے، جو اس بات پر فخر کرتی ہے کہ وہ اپنے ایک بھی سپاہی کو پیچھے نہیں چھوڑتی۔ جلد ہی میرا رابطہ ایک سینئر افسر سے کروادیا گیا جو کہ یرغمالیوں سے متعلقہ امور میں گفت و شنید کا تجربہ رکھتا تھا۔ کئی ماہ کی بات چیت کے دوران اور طالبان کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد ایک ڈیل طے پا گئی۔ اس میں رقم کا کوئی لین دین نہیں تھا، یہ سیدھا سادہ تبادلہ تھا، عافیہ صدیقی کے بدلے برگڈال۔
ایوان رڈلی نے لکھاکہ میں نے پاکستان میں کسی کو نہیں بتایا تھا کہ میں کیا کررہی تھی کیونکہ سچی بات ہے کہ وہاں بہت سے سیاستدان جن سے ملنے کا اتفاق ہوا، قابل اعتبار نہیں ہیں اور مجھے معلوم تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی میں بھی ایسے عناصر ہیں جو اس اقدام کی مزاحمت کریں گے۔ میں سوچ رہی تھی کہ عافیہ صدیقی کو ا فغانستان سے درہ خیبر کے ذریعے پاکستان لاﺅں گی جہاں ہم ایک پریس کانفرنس کرکے ان کی آزادی کا اعلان کریں گے۔مجھ سے آخری درخواست یہ کی گئی کہ امریکی فوجی کے زندہ ہونے کا ویڈیو ثبوت فراہم کروں جس پر طالبان نے رضامندی کا اظہار کیا۔ جب میں طالبان کے ساتھ ایک اور خفیہ میٹنگ کے لئے پہنچی تو وہ مضطرب اور مایوس نظر آئے۔ مجھے مترجم کے ذریعے بتایا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بات اب نہیں ہوگی، شاید اب کسی اور کے تبادلے کی بات ہوگی۔ مجھے ایک جھٹکا لگا اور میں نے پوچھا ایسا کیوں، لیکن مجھے بہت ہی کم معلومات دی گئیں، جس پر میں بہت برہم ہوئی اور انہیں برا بھلا کہا اور قیدیوں کو آزاد کروانے کے متعلق ان کے مذہبی فریضے اور غیرت پر بھی سوالات اُٹھائے۔ یہ ایک خطرناک عمل تھا کیونکہ میرے خاندان یا دوستوں میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ میں کہا ں تھی اور کس سے بات کررہی تھی۔ اس معاملے میں اتنا زیادہ وقت صرف کرنے اور گفت وشنید میں اتنا آگے بڑھ جانے کے بعد اب میں بری طرح مایوس تھی، اگرچہ میں اپنے اندر دہکتے غصے پر قابو پانے کی کوشش کررہی تھی۔
خاتون صحافی نے دعویٰ کیا کہ بالآخر خاموشی کو چیرتا ہوا طالبان کا جواب آیا اور وہ یہ کہ افغان طالبان کے ساتھ معمول کی ایک میٹنگ کے دوران پاکستانی خفیہ ایجنسی کو ہمارے منصوبے کی بھنک پڑگئی تھی اور الزام لگایا کہ انہوں نے طالبا ن کو صاف الفاظ میں بتادیا تھا کہ عافیہ صدیقی کی رہائی نہیں ہوگی، اگر اسے پاکستان واپس لایا گیا، اور یہ بات زور دے کر کہی گئی، تو غالب امکان ہے کہ وہ دو دن میں مردہ ہوں گی۔ خاتون نے دعویٰ کیا کہ میں نے پوچھا کہ افغان ہوتے ہوئے وہ پاکستانی ایجنسی کی بات کی پرواہ کیوں کر رہے تھے اور سوال کیا کہ ملا عمر اس طرح کے معاہدے کا حصہ کیونکر بنے۔خاتون یہیں نہیں رکی بلکہ مزید دعویٰ کیا کہ اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ طالبان کے روحانی رہنما کچھ ماہ قبل دنیا سے رخصت ہوچکے تھے اور ان کی موت کے بارے میں ابھی مزید ایک سال تک اعلان نہیں کیا جانا تھا۔ ان کی آپس کی کچھ بات چیت کے بعد مترجم نے جواب دیا کہ لڑائی میں ہمارے سینکڑوں جنگجو زخمی ہوئے ہیں اور پاکستان میں ان کے علاج کے انتظامات کئے گئے ہیں۔ ان کی مدد کے بغیر ہمارے لئے بہت مشکلات ہوتیں، ہمیں ان کی ضرورت ہے،یقینا آپ اس بات کو سمجھ رہی ہوں گی،میں اٹھی اور اپنے گائیڈ کے ساتھ وہاں سے چل دی اور اس کے بعد سے آج تک میری طالبان سے ملاقات نہیں ہوئی۔
خاتون کے بقول میں امریکہ میں جس شخص سے رابطے میں تھی اسے اطلاع دی کہ یہ ڈیل ختم ہو گئی ہے ۔ جب میں نے انہیں تفصیلات بتائیں تو وہ بھی بہت مایوس ہوئے۔ دریں اثناءامریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی اس معاملے میں چھلانگ لگادی تھی اور عافیہ صدیقی کے بدلے پانچ سینئر طالبان رہنماﺅں کو رہا کرنے کی پیشکش کی تھی۔ طالبان کے وہ اہم رہنما اب قطر میں مقیم ہیں لیکن مجھے اس سے یہ بات سمجھ آئی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اگر پاکستانی شہری نہ ہوتیں تو اب تک رہا ہوچکی ہوتیں۔ پاکستان میں تمام تر احتجاج اور مظاہروں کے باوجود، اور ’قوم کی بیٹی‘ کے لئے بہائے جانے والے آنسوﺅں کے باوجود، وہ گھر نہیں جارہیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ ان کی رہائی کے لئے پاکستانی حکومت کی جانب سے امریکی حکام کے سامنے سرکاری طور پر کبھی ایک بھی درخواست نہیں کی گئی، وہ مشرق سے مغرب تک ہر جہادی گروپ کیلئے نعرہ بازی کا بہانہ رہیں گی ، جب تک وہ ٹیکساس کی جیل میں قید ہیں۔
میں نے حالیہ سالوں میں متعدد پاکستانی سفارتکاروں سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں بات کی ہے اور انہیں بتایا ہے کہ اگر وزرائے اعظم اور صدور واقعی ان کی رہائی کے بارے میں مخلص ہیں تو انہیں بس یہ کرنا ہے کہ فون اٹھائیں اور واشنگٹن بات کرکے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بدلے انہیں رہا کروالیں۔ حالیہ دنوں میں یہ افواہیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کرنے کیلئے امریکہ کے ساتھ ڈیل ہوگئی ہے لیکن افسوس کہ ان کا عافیہ صدیقی کے ساتھ تبادلہ نہیں ہوگا۔