آئی ایم ایف معاہدہ، اگلا بجٹ اور نئی مشکلات
بزنس ایڈیشن
حامد ولید
آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پانے کے بعد پاکستانی روپے کی بے قدری نے بڑے بڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سٹاک مارکیٹ تاریخ کے بدترین مندی کی شکار ہے، ایسا 2008میں دیکھنے میں آیا تھا جب عالمی کساد بازاری کے خوف یہاں کی مارکیٹ کریشن کرگئی تھی اور اس وقت کی حکومت کو اسے بند کرنا پڑا تھا۔اب اگرچہ عالمی کساد بازاری ایسی تو کوئی صورت حال نہیں ہے مگر اس کے باوجود پاکستان کی معیشت بارے پایا جانے والا عمومی تاثر اس قدر مایوس کن ہے اور حکومت کی معاشی کارکردگی اس قدر غیر متاثر کن ہے کہ کاروباری طبقے چاہنے کے باوجود اٹھ نہیں پا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت پر اعتماد بری طرح متزلزل ہوگیا ہے اور ایسے میں نیب چیئرمین کی دھمکیاں علیحدہ سے سوہان روح بن رہی ہیں۔
حکومت نے اپنی معاشی ٹیم کی اوورہالنگ کی ہے مگر اس کے باوجود ڈھاک کے وہی تین پات، ایسا لگتا ہی نہیں ہے کہ کسی کو بھی حکومت پر اعتماد ہے جیسا کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے موجودہ حکومت کی جانب سے ایمنسٹی سکیم کے اعلان پر خوبصورت تبصرہ کیا تھا کہ ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کو ڈر ہے کہ کہیں وزیر اعظم ایمنسٹی سکیم پر یو ٹرن نہ لے لیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ایمنسٹی سکیم کی کامیابی کا امکان بھی کم ہی ہے۔
ملک کو درپیش معاشی بحران روز بروز شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستانی روپیہ ملکی تاریخ کی بدترین بے قدری کا شکار ہے۔ معروف امریکی ایجنسی بلوم برگ نے گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران کارکردگی کے لحاظ سے پاکستانی روپے کو ایشیا کی بدترین کرنسی قرار دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق روپے کی قدر میں یہ انحطاط غیر ملکی زرِ مبادلہ کی طلب و رسد کی عکاسی کرتا ہے۔ مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو بتایا جا رہا ہے۔ صدر فوریکس ایسوسی ایشن ملک بوستان کے بقول ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کی بنیادی وجہ روپے کی قدر میں پندرہ سے بیس فیصد کمی کی افواہیں ہیں۔ اس کے باعث بازار حصص میں 100 انڈیکس33000 پوائنٹس کی پست ترین سطح تک گر چکا ہے۔ ڈالر کی مہنگائی سے ملکی قرضوں کا بوجھ بھی روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اس صورت حال میں کرنسی ڈیلروں کا یہ مشورہ نہایت صائب نظر آتا ہے کہ حکومت روپے کی قدر میں کمی کا ارادہ رکھتی ہے تو اس کا باقاعدہ اعلان کر دے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ڈالر کی قیمت ایک متعین حد تک ہی بڑھے گی۔ یوں قیمت میں مسلسل اضافے کی توقع پر ڈالر کی ذخیرہ اندوزی رک جائے گی۔
ادھر حکومت نے آئی ایم ایف سے نے قرضے کی نئی شرائط پر اتفاق کر لیا ہے جس کی رو سے آئی ایم ایف پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کیلئے 6ارب ڈالر کا 3سالہ پیکیج EFFدینے پر تیار ہوگیا ہے جبکہ آئی ایم ایف کی سفارش پر پاکستان کو ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے بھی 2سے 3ارب ڈالر ملیں گے۔ آئی ایم ایف پیکیج کے تحت حکومت کو آنے والے بجٹ میں 650ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانا ہوں گے۔ اْسکے علاوہ آنیوالے دو سالوں میں 700ارب روپے کی ٹیکس مراعات 350ارب روپے سالانہ کے حساب سے ختم کرنا ہوں گی۔ پاکستانی روپے کی قدر برقرار رکھنے کیلئے حکومت اور اسٹیٹ بینک کوئی مداخلت نہیں کرینگے اور روپے کی قدر فری فلوٹ پالیسی کے تحت ہوگی۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کی جائے گی، بجلی کی قیمتوں میں دو مرحلوں میں اضافہ کیا جائے گا، پہلے مرحلے میں یکم جولائی سے بجلی کی قیمتیں بڑھائی جائیں گی جبکہ گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جائیگا۔
معاہدے کے تحت پاکستان کے ترقیاتی بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائیگا۔ حکومت کو اِس وقت 350ارب روپے کے ریونیو کی وصولی کی کمی کا سامنا ہے جس سے اِس سال 7فیصد بجٹ خسارہ متوقع ہے جس میں کمی لانے کیلئے 1400ارب روپے کے گردشی قرضوں کو ختم کر کے پاور سیکٹرز میں اصلاحات اور دی گئی سبسڈیز ختم کرنا ہوں گی اور نیپرا کو بااختیار بنایا جائے گا۔ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں اضافہ کر کے اْسے موجودہ 10.75فیصد سے بڑھا کر 12فیصد تک کیا جائیگا، جس سے بینکوں کے قرضوں کی شرح سود میں مزید اضافہ ہوگا۔ رواں مالی سال 2018-19میں ضمنی جی ڈی پی گروتھ گزشتہ 9سال کی کم ترین سطح 3.29فیصد یعنی 280ارب روپے پر پہنچ گئی ہے جبکہ 2017-18میں یہ 5.35فیصد یعنی 313ارب ڈالر تھی۔ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عبدالحفیظ پاشا کے مطابق رواں سال جی ڈی پی گروتھ میں 33ارب ڈالر کی کمی سے 40لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے اور 10لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں جس کی بنیادی وجہ پی ٹی آئی حکومت میں صرف 9ماہ میں 20فیصد کمی سے ڈالر کی قدر 123.16روپے سے 149.07پیسے تک پہنچ گئی ہے اور بلومبرگ کے مطابق پاکستانی کرنسی خطے میں سب سے کمزور کرنسی ثابت ہوئی ہے۔ جی ڈی پی گروتھ میں کمی زراعت، بڑے درجے کی صنعتوں اور کنسٹرکشن کے شعبوں میں واضح ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج 53,000انڈیکس کی حد سے گر کر 33166انڈیکس کی نچلی ترین سطح تک آگیا ہے جس سے چھوٹے سرمایہ کاروں کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے کے بعد آنے والے بجٹ سے بزنس کمیونٹی اور ایک عام آدمی کیلئے نہایت مشکل حالات متوقع ہیں۔
آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر آنے والے بجٹ میں عملدرآمد کر کے صنعتکار، تاجر اور ایک عام آدمی بری طرح متاثر ہوگا، بجلی گیس کے نرخوں میں اضافہ، اضافی ٹیکسز سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا اور افراطِ زر ڈبل ڈیجیٹ میں پہنچ جائیگا۔ ڈالر کا 150روپے ہو جانا اسٹیٹ بینک کی عدم مداخلت کا ثبوت ہے جو آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ہے۔ ایف بی آر کے نئے چیئرمین شبر زیدی ایک پروفیشنل چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں، جو نہ صرف بزنس کمیونٹی کے ٹیکس مسائل سے بخوبی واقف ہیں بلکہ حکومت کی ٹیکس وصولی کی مشکلات سے بھی آگاہ ہیں کیونکہ اْنہوں نے حکومتی ٹیکس اصلاحات کی کئی کمیٹیوں میں کام کیا ہے۔ شبر زیدی نے عہدہ سنبھالنے کے بعد 30فیصد بلیک اکانومی کو دستاویزی شکل دیکر اْسے ٹیکس نظام میں لانے، ٹیکس دہندگان کو ہراساں اور بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ اْنہوں نے کم ٹیکس دینے والوں اور نان فائلرز سے ٹیکس وصول کرنا اپنی ترجیحات بتائی ہیں جبکہ ٹیکس ادا کرنیوالوں اور ٹیکس حکام کے درمیان باہمی رابطوں میں خاتمے یا کمی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
بزنس کمیونٹی اور اْن کے اداروں کے خلاف گرفتاریاں، کمپیوٹرز اور ریکارڈ کا ضبط کرنا، اکاؤنٹس منجمد کرکے ٹیکسوں کی وصولی، 2017کے بے نامی اکاؤنٹس قانون پر عملدرآمد، اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992کے مطابق نواز شریف حکومت کے لبرل فارن ایکسچینج پالیسی کے تحت کھولے گئے فارن کرنسی اکاؤنٹس سے آفیشنل چینلز کے ذریعے بھیجی گئی اور آنے والی انکم ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر شدہ رقوم پر نیب، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے اور دوسرے اداروں کی انکوائریاں اور نوٹسز نے بزنس کمیونٹی میں خوف و ہراس پیدا کر رکھا ہے جس کی وجہ سے کوئی بزنس مین نئی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں۔ معاشی عدم استحکام، روپے کی گرتی ہوئی قدر، آئی ایم ایف کی سخت شرائط سے اسٹاک ایکسچینج مسلسل گررہا ہے اور بیرونی سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری نکال رہے ہیں۔ ملکی معیشت پھیلنے کے بجائے سکڑ رہی ہے اور نئی ملازمتوں کے مواقع محدود ہوگئے ہیں۔ کراچی سے پشاور تک رئیل اسٹیٹ کی خرید و فروخت کی ٹرانزیکشن نہیں ہورہی۔
وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ان کی حکومت نے معاشی بحالی کے لیے اگرچہ سخت فیصلے کیے ہیں لیکن آئندہ چند ماہ میں ان کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ تاہم لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ جب دنوں اور ہفتوں میں عوام کے مسائل حل کرنے کی ماضی میں کرائی گئی خوشنما یقین دہانیاں خیالِ خام ثابت ہوئیں تو آج کیے جانے والے دعووں کا کیا اعتبار۔ وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے موجودہ معاشی ابتری کی ساری ذمہ داری ماضی کی حکومتوں پر ڈالنے کی روش بدستور جاری ہے جبکہ اپوزیشن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری پر احتجاجی مہم شروع کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ حالانکہ ملک کو درپیش اس سنگین معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے قومی یکجہتی اولین ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے احتساب کے معاملے کو پوری طرح نیب و دیگر متعلقہ اداروں اور عدلیہ پر چھوڑ دیا جاے، اس شکنجے میں حکمراں اتحاد کے ارکان آئیں یا مخالف سیاسی جماعتوں کے یا دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگ، ساری کارروائی شفافیت اور غیر جانبداری کے مکمل اہتمام کے ساتھ جاری رہنے دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو مل بیٹھنے کی دعوت دی جائے، پارلیمنٹ کے اندر بھی الزام ترشیوں کا بازار گرم رکھنے کے بجائے سنجیدگی اور دل سوزی کے ساتھ قومی مسائل کے حل کی تلاش کا سلسلہ شروع کیا جائے اور قومی سطح پر بھی وسیع تر مشاورت کے ذریعے معاشی بحران سے نمٹنے کے
اقدامات زیر غور لائے جائیں کیونکہ موجودہ معاشی بحران حکومتی ہی نہیں قومی مسئلہ بھی ہے جسے قومی اتحاد و یکجہتی ہی سے حل کیا جا سکتا ہے۔
سرخیاں
حکومت کی کارکردگی اس قدر غیر متاثر کن ہے کہ کاروباری طبقے چاہنے کے باوجود اٹھ نہیں پا رہے
حکومت روپے کی قدر میں کمی کا ارادہ رکھتی ہے تو اس کا باقاعدہ اعلان کر دے
اپوزیشن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری پر احتجاجی مہم شروع کرنے کے لیے پر تول رہی ہے
تصاویر
وزیر اعظم عمران خان
آئی ایم ایف
وفاقی مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ