حقیقت نگاری پر مبنی ایک نا ول

حقیقت نگاری پر مبنی ایک نا ول
حقیقت نگاری پر مبنی ایک نا ول

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اس مرتبہ عید کا انداز با لکل روایتی نہیں تھا۔کرونا وائرس اور پھر ”پی آئی اے“ طیا رے کے حادثے کے باعث اس مرتبہ عید میں زیادہ جوش و خروش نظر نہیں آیا مگر چونکہ عید پر چھٹیاں تھیں سوچا کہ کسی سنجیدہ کتاب کا مطا لعہ کرنے کی بجائے کسی ناول کا مطا لعہ کیا جا ئے۔نظر انتخاب اروند اڈیگا.کے مشہور ناولLast Man In Towerپر ٹھہری اور اس نا ول کا مطالعہ کیاجس سے میں بہت زیا دہ متا ثر ہوا۔ میں اس ناول سے متاثر کیوں ہوا اس کو سمجھنے کیلئے ہمیں ادب اور ادب کے مقاصد پر ایک طا ئرانہ نظر ڈالنا ہو گی۔


ادب کی تخلیق یا اس کے مقاصد کے حوالے سے دنیا بھر میں ہو نے والی بحث و مبا حثوں کا سلسلہ صدیوں پرانا ہے۔ادب پیدا کیوں ہوتا ہے؟ادب کو کیسے تخلیق ہو نا چا ہیے؟کیا ادب کا کو ئی مقصد بھی ہو تا ہے؟ ادب پر ہونے والے ان مبا حثوں کا سلسلہ کس قدر قدیم ہے اس کا عملی ثبو ت یو نا نی مفکر ارسطوکی کتا ب ”Poetics“کی صورت میں ہما رے پاس موجود ہے۔اس کتا ب میں بنیا دی طور پر ارسطو نے ڈرامے کے حوالے سے اپنے نظریا ت اور خیالات پیش کئے۔20ویں صدی میں تو ادب میں نظریا ت کے حوالے سے ہو نے والی لڑائیوں میں مزیدشدت آگئی خاص طور پر 1917میں روس میں بالشویک یا کمیونسٹ انقلاب برپا ہو نے کے بعد پو ری دنیا میں ادب میں مقصدیت ہونے یا نہ ہونے اور اس کے جا نبدار یا غیر جا نبدار ہونے پر دنیا بھر کے ناقدین کی جا نب سے گرما گرم بحث و مبا حثے ہو تے رہے۔تا ہم ادب کو لیکر ہو نے والے ان نظر یا تی بحث و مبا حثوں میں ادبی ناقدین کی واضح اکثریت اس امر پر اتفاق کرتی ہے کہ ادب چا ہے اپنے اندر مقصد یت رکھے یا نہ رکھے حقیقت نگا ری پر مبنی ہو یا نہ ہو مگر اس سب کے باوجود ایک حد تک وہ اپنے عہد کا عکا س ضرور ہو تا ہے۔


عالمگیریت کے اس دور میں جہا ں صحا فت اور تعلیم جیسے مقدس شعبے بھی تیزی سے کا رپو ریٹ سیکٹر کی گرفت میں آنے کے با عث زوال پذیر ہو رہے ہیں ایسے میں ادب کا دامن بھلا اس کا رپو ریٹ سیکٹر کی چکا چوند سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟یہی وجہ ہے آج دیکھنے میں آرہا ہے کہ مختلف قومی اور بین الاقوامی ادارے ”ادب کی سرپرستی“کے نا م پر با قا عدہ اعلان کرتے ہیں کہ اگر کو ئی نا ول نگا ر یا ادیب”فلاں فلاں“ موضوع پر کتا ب لکھے گا تو اسے اتنی رقم انعا م میں دی جا ئے گی۔ یہ ”فلاں فلاں“ مو ضوع یقینا وہی ہوتے ہیں کہ جن کے ذر یعے حکمران طبقات یا سامراج اپنے سیا سی، معا شی اور تہذ یبی مقا صد کو آگے بڑھا نے کے خواہاں ہو تے ہیں۔یا پھر یہ موضو ع ایسے ہو تے ہیں کہ جن کا تعلق کسی بھی سما ج کی اشرا فیہ یا اپر مڈل کلاس کے مسا ئل سے ہی ہو تا ہے۔ اسی طرح ادبی میلوں میں اکثر ایسے ادیبوں کی معا شی حوصلہ افزائی کی جا تی ہے کہ جو ادب کے ذریعے سامراج یا حکمران طبقات کے سیا سی مقاصد کو جما لیا ت کا رخ دینے کا ہنر جانتے ہوں۔مگر یہ دیکھ کر دلی خوشی اور ا طمینان ہو تا ہے کہ ابھی بھی کا رپو ریٹ سیکٹر کی چکا چوند ادب کو مکمل طور پر اپنا مطیع نہیں کر پا ئی۔اور یہ خوشی اس وقت دوبالا ہو جا تی ہے کہ جب کا رپو ریٹ سیکٹریا سرما یہ داری نظام کی حقیقت کی عکا سی انگر یزی زبان میں ہی سامنے آرہی ہو۔

کیو نکہ بر صغیر میں مقامی زبا نوں اور علاقائی زبا نوں میں تخلیق ہونے والا ادب بڑی حد تک ایسے موضوعات پر مشتمل ہے کہ جن کا تعلق اس علاقے کی ا کثریت کے حقیقی مسائل سے ہی ہے۔مگر مقامی اور علا قائی زبا نوں میں پیدا کیا جانے والا ادب کس حد اعلیٰ ہی کیوں نہ ہو اور یہ ادب کے تما م تقاضے بھی کیوں نہ پورے کر رہا ہو یہ حقیقت ہے کہ بر صغیر میں ادبی میلوں، ادبی انعامات اور ادب کے نام پر غیر ملکی دوروں سے زیا دہ تر ایسے ادیبوں کو ہی نوازا جا تا ہے کہ جوانگریزی میں ہی لکھتے ہوں اور سامراج اور حکمران طبقات کے نظریا ت اور ان کی سوچوں کو رنگ برنگے تڑکے لگا کر انگر یزی ناول یا افسانوں میں ڈھالنے کا ہنر بخو بی جا نتے ہوں۔اسلئے بر صغیر کے معرو ض میں لکھنے والا کو ئی ادیب جب یہاں کے حقیقی مسائل کو انگریزی زبان کے ذریعے ادب کے سانچے میں ڈھالتا ہے تو یہ قدم اسلئے زیا دہ با عث تحسین نظر آتا ہے کہ ایسا ادیب ایک ایسی زبا ن جسے سامراجی اداروں، حکمران طبقا ت اور کا رپو ریٹ سیکٹر کی مکمل پشت پنا ہی حاصل ہے میں لکھنے کے با وجود وہ اس چکاچوند کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ آ سٹر یلوی نژاد بھا رتی ادیب اروند اڈیگا.نے ویسے تو ادب کے میدان میں اپنا لوہا اسی وقت منوا لیا تھا کہ جب2008میں ان کا ناول The White Tigerمنظر عا م پر آیا تھا۔ اس نا ول میں بلرام حلوائی نا م کے مرکزی کردار کے ذریعے بھارت میں پھیلی بے تحاشا کرپشن، سیاست دانوں کی رشوت خوری، امیر افراد کی غریب لوگوں کی بابت پائی جا نے والی بے حسی،اور ذات پات جیسے مسائل کی بھر پور عکا سی کی گئی تھی۔

کرپشن، بے حسی، اور رشوت خوری ہی کے با عث بلرام حلوائی کاکردار ایک گھریلو ملازم، اورڈرائیور سے ہوتا ہوا ایک کڑور پتی بزنس مین بن جا تا ہے۔ بلرام حلوائی کا کردار چین کے سابق وزیر اعظم وین جیا باؤکے نا م خطوط لکھ کر یہ بتا تا ہے کہ کیسے اس نے چوری، قتل، کرپشن سیاست دانوں، وزرا، بیو روکریٹس اور پو لیس کو رشوتیں دے دے کر بھا رت میں ایک کڑور پتی بز نس مین کی پو زیشن حا صل کر لی۔اس نا ول The White Tigerکو دنیا بھر میں بہت زیا دہ سرا ہا گیا تھا۔ اس کی اسی پذیرائی کے با عث اسے 40th Man Booker Prizeبھی دیا گیا۔ابھی اس نا ول کی گو نج موجود ہی تھی کہ اروند اڈیگا کا ایک اور ناول Last Man In Towerکے نا م سے منظر عا م پر آیا۔اس نا ول کی کہا نی کو اروند اڈیگا.نے بھا رت کے سب سے بڑے تجا رتی شہر ممبئی کے معروض میں لکھا ہے۔ نا ول وشرام سوسائٹی ٹا ور اپارٹمنٹ کے رہا ئشی افراد اور دھرمن شاہ نام کے ایک رئیل اسٹیٹ ڈویلپرجیسے کرداروں پر مشتمل ہے۔مگر نا ول کے بنیادی کردار دو ہی ہیں جن کے ما بین کشمکش چلتی رہتی ہے۔ان بنیا دی کرداروں میں سے ایک کردار ریٹا رڈ سکول ما سٹر یوگیش اے مورتھی کا ہے جس کو لوگ پیا ر سے ماسٹر جی بلا تے ہیں اور دوسرا دھرمن شاہ کا۔

دھرمن شاہ اپنے پرا پرٹی بزنس کیلئے وشرام سوسائٹی ٹا ورکی زمین ہتھیا نا چا ہتا ہے اور اس مقصد کیلئے اس ٹاور میں مقیم افراد کو لالچ بھی دیتا ہے۔ اور ماسٹر جی کے علاوہ اس ٹاور میں مقیم تمام افراد دھرمن شاہ کے حقیقی مقا صد کو نہ سمجھتے ہوئے اس کے لالچ میں آجاتے ہیں۔مگر ماسٹر جی ایک ایسا واحدکردار ہے کہ جو دھرمن شاہ کے خلاف اپنی مزاحمت کو جا ری رکھتا ہے۔ اروند اڈیگا.نے دھرمن شاہ کے کردار کے ذریعے واضح کیا ہے کہ کیسے کرپشن، رشوت خوری، دھوکہ دہی اور جعل سازی کی با عث ایک عام انسان ارب پتی رئیل اسٹیٹ ڈو یلپر بن گیا۔اس ناول میں طنز و مزاح کا سہا را لیکر اکثریت کی بے حسی کو بھی عیاں کیا گیا ہے کہ کیسے لو گوں کی واضح ا کثریت لا لچ کے عوض نہ صرف اپنے حقوق سے بے پرواہ ہو جا تی ہے بلکہ اپنے ہی طبقے کے فردیعنی ماسٹر جی کے خلاف سازشوں پر بھی اتر آتی ہے۔یوں اروند اڈیگانے اس نا ول میں طا قت، پیسہ، لا لچ، رشوت خوری، بے حسی اور محرومی کے احساس کو نہا یت خوبصورتی سے سمو کر سماج اور سما جی رویوں پر زبر دست تنقید کی ہے۔


جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ بر صغیر کے ایسے مسائل جن سے ایک عام آدمی کا روز واسطہ پڑتا ہے جیسے کرپشن، دولت ومنا فع کی اندھی حرص، کالا با زاری، اداروں میں لوٹ ماراورسیا ستدانوں کی کرپشن، سرکا ری نوکریوں کی نیلامی، بے روزگاری اور غربت جیسے مسائل پر یہاں کی مقامی اور علا قائی زبا نوں میں تو بہت کچھ لکھا جا رہا ہے مگر انگریزی زبان میں تخلیق کئے جا نے والے ادب میں دیگر موضوعات پر تو بہت تو جہ دی گئی ہے خاص طور پر اب دہشت گردی کا موضوع بھی بر صغیر کے انگریزی میں لکھنے والے ادیبوں کا موضوع بن رہا ہے۔مگر حقیقت یہی ہے عام آدمی کے مسائل پر بر صغیر میں لکھے گئے انگریزی ادب پر کم توجہ دی گئی ہے۔ اس حوالے سے حالیہ دور میں بھارت میں ارو ن دتی رائے اور اروند اڈیگاجیسے کئی انگر یزی میں لکھنے والے ادیبوں کی مثا لیں تو پھر بھی مل جا تی ہیں مگر افسوس پاکستان میں اس نوعیت کی مثالیں کم ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -