کورونا کا پیغام

کورونا کا پیغام
کورونا کا پیغام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سوال پوچھا ”ہمیں کیسے پتہ چلے کہ اللہ ہم سے راضی ہے؟“ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر تشریف لے گئے اور عرض کی ”اے اللہ! بنی اسرائیل والے پوچھتے ہیں کہ ہمیں کیسے پتہ چلے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہے“۔ رب کریم نے جواب دیا ”اے میرے کلیم! یہ بہت آسان ہے۔ بنی اسرائیل والوں کو بتا دیجیے یہ اپنے دِلوں میں جھانک کر دیکھیں، اگر یہ اپنے دل میں مجھ سے راضی ہیں تو میں پروردگار ان سے راضی ہوں اور اگر یہ مجھ سے خفا ہیں تو میں پروردگار ان سے خفا ہوں“۔


ابن تیمیہ فرماتے ہیں ”جس بندے کو اللہ نے جنت دینا ہوتی ہے، دنیا میں اس کے دِل کی کیفیت ایسی بنا دیتے ہیں کہ وہ اللہ سے راضی ہوتا ہے اس سے جب بھی پوچھو تو وہ کہتا ہے جی! میں اپنے رب سے راضی ہوں“۔ ابن تیمیہ آگے فرماتے ہیں ”اور جس بندے کو اللہ نے جہنم میں بھیجنا ہوتا ہے، دنیا میں اس کے دِل کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ہر وقت اس کو خدا پر اعتراض ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوا وہ نہیں ہوا، مجھے فلاں چیز نہیں ملی،جس کی زبان سے ہر وقت اعتراض سنیں تو سمجھ لیں اس کے دل کی حالت وہی ہے“۔


دورِ حاضر میں ہر ایک شخص گلہ شکوہ کے پہاڑ کھڑے کرتے دکھائی دے رہا، چہرے پر پریشانی، پژمردگی کے آثار نمایاں، خوشی تو جیسے چھین لی گئی ہو، ارب پتی شخص بھی قسمت کا رونا رو رہا، او جی! کیا کریں گزارہ نہیں ہوتا، بڑی مشکل سے وقت پاس کر رہے۔ حالانکہ اللہ پاک نے اولاد جیسی نعمت سے نوازا، تین وقت کی روٹی وہ بھی اعلیٰ اور بہترین، بیرون ملک سے منگوایا گیا منرل واٹر، مشروبات، اچھا رہن و سہن، برانڈڈ لباس، بینک بیلنس، گاڑی، بنگلہ مطلب دنیا کی ہر آسائش میسر کسی بھی چیز کی کمی یا تشنگی نہیں پھر بھی ناشکری کی انتہا، ان کی زبان پر اٹھتے بیٹھتے یہی گردان، او مر گئے، لٹ گئے، دنیا کی ساری مصیبتیں ہمارے حصہ میں ہی لکھ دی گئی ہیں، ہمارے مسائل قیامت سے پہلے حل ہو ہی جائیں گے۔ اسی طرح غریب شخص جس کے ہاتھ، پیر، ناک، کان، آنکھیں، دِل دماغ سلامت کسی بیماری میں مبتلا نہیں، کھانا، پینا اگر بہتر نہیں تو برا بھی نہیں، اچھا گزر بسر ہو رہا وہ بھی شکوہ کناں۔


ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس دھرتی پر موجود بنی نوع انسان روکھی سوکھی کھائے کسی بھی سخت ترین مشکل، مصیبت یا پریشانی میں زبان سے شکوہ و شکایت سے بھرپور کڑوے و کسیلے الفاظ نکالے بغیر ہر حال میں اللہ سوہنے کا شکر ادا کرتا لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی، 90 فیصد لوگ شکایات کے انبار لگا رہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ رب تعالیٰ قرآن مجید  میں فرماتا ہے: ”اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم نے ناشکری کا رویہ اختیار کیا تو میرا عذاب بھی بہت سخت ہے“۔(سورہ ابراہیم آیت 70)
ان قرآنی آیات کا ہم پر چنداں اثر نہیں، خاکسار کے خیال تو میں کورونا جیسی خدائی آفت کا ہم پر مسلط ہونا بھی اسی ناشکری کا نتیجہ اگر ہم ناشکری کو کورونا کے غدر مچانے کی پہلی وجہ قرار دیں تو میرے تئیں کورونا کے آئے سونامی کی دوسری بڑی وجہ ظلم عظیم ہے،جو زمین کے چپہ چپہ پر کسی نا کسی صورت میں جاری، حالانکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مظلوم کی آہ کو اللہ پاک پہلے عرش پر آ کر سنتا ہے ہم انسان پھر بھی ظلم وستم کی داستانیں رقم کرنے سے باز نہیں آ رہے۔
اس ظلم بارے اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے ”اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“۔ (آل عمران 140)
”کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے پیس کر رکھ دیا، اور ان کے بعد دوسری کسی قوم کو اٹھایا۔“ (الانبیا11)
اللہ کے آخری رسول کریم مدنی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے ”میں نے ظلم اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اسے تمہارے درمیان بھی حرام کر دیا ہے، لہٰذا تم میں سے کوئی کسی پر ظلم نہ کرے۔ (مسلم 2577)
ایک اور جگہ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”مظلوم کی بد دعا سے بچو، اس لئے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا“۔ (بخاری 1469، مسلم 19)
”مظلوم کی بددعا ہر حال میں بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوتی ہے چاہے وہ فاجر ہو“۔(احمد 8795)۔ یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر کیونکر اس ظلم کے حوالہ سے حضرت انسان کی بار بار تنبیہ فرمائی گئی؟ اس لئے کہ ہم اللہ کی ناراضی سے بچ سکیں ویسے کچھ اللہ والے یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی کشمیری، شامی، یمنی، فلسطینی، برمی مظلوم بچے، بچیوں کی آہوں سسکیوں کی آواز اللہ جل جلالہ نے سن لی اور ذمہ داران پر کورونا جیسے مائیکروسکوپک وائرس کی صورت میں اپنا قہر نازل فرما دیا۔جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم بھی فرعونیت و رعونت، جھوٹ، دھوکہ، قتل، قبضہ، حق تلفی، رشوت کا بازار گرم کر کے اپنی جانوں پر ظلم کر رہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ عزوجل سے قصور کی کم سن زینب نے بھی ہماری شکایت کی ہو گی جبھی تو کورونا بلاتفریق ہلاکت کی کہانیاں زورشور سے مرتب کر رہا اور نہیں معلوم کورونا کی تلاطم خیزی کب اختتام پذیر ہو ہاں لکھنے والے تو یہ بھی لکھتے ہیں کہ کورونا اللہ کی طرف سے ایک وارننگ، ہم اپنی بے ترتیب زندگی میں تبدیلی لے آئیں، اپنے اعمال درست کر لیں۔
اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کورونا کے پیغام کو یاد رکھتے……ناشکری اور ظلم کرنا چھوڑ دیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ کورونا بھی ہماری جان بخشی کر دے۔

مزید :

رائے -کالم -