آخری سلیکشن اور گیدڑ بھبکیاں 

 آخری سلیکشن اور گیدڑ بھبکیاں 
 آخری سلیکشن اور گیدڑ بھبکیاں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 عمران خان کے فلاپ لانگ مارچ کا سب سے زیادہ نقصان خود عمران خان کو ہوا ہے۔ گیارہ بارہ کروڑ آبادی کے صوبہ پنجاب سے عمران خان کے لانگ مارچ میں بمشکل گیارہ بارہ سو لوگ گھروں سے باہر نکلے۔ پنجاب کے عوام نے واضح پیغام دے دیا کہ وہ کسی فتنہ اور فساد کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں۔اللہ تعالیٰ لاہور کے سیاسی کارکن چوہدری فیصل عباس کی مغفرت کرے جو اس فتنہ میں جان سے گیا، اس کی معصوم بچیوں کو نہیں اندازہ کہ ان کا باپ ایک ذہنی مریض کی باتوں میں آکر انہیں اس ظالم دنیا میں بے یارو مددگار چھوڑ گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں حکومت اور تمام سرکاری وسائل استعمال کرنے کے باوجود وہاں سے آنے والوں کی تعداد چند ہزار سے نہ بڑھ سکی اور وہاں بھی تین یا چار لوگ جان سے گئے۔ عمران خان کے فسادی مارچ میں جاں بحق ہونے والے افراد میں ایک بھی ایسا نہیں تھا جو پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اس وجہ سے عمران خان کو لاشوں پر سیاست کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود فسادی اسلام آباد کے ریڈ زون میں اس لئے گئے تاکہ گولی چلے اور لاشیں گریں، لیکن سلام ہے ہماری پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کہ انہوں نے یہ گھناؤنا منصوبہ ناکام بنا دیا اور عمران خان کو سیاست کرنے کے لئے ایک بھی لاش نہ مل سکی۔

پولیس کے فرض شناس افسروں کو سلام جن میں کمال احمد جیسے شہید بھی شامل ہیں اور محمد شہباز جیسے غازی بھی۔ مجھے بجا طور پر پنجاب پولیس پر فخر محسوس ہورہا ہے۔میرے مرحوم ماموں سردار محمد چوہدری ایک ایسے آئی جی پنجاب تھے، جن کی شبانہ روز محنت سے پنجاب پولیس میں اعلی اقدار اور پروفیشنل ٹریننگ کا آغاز ہوا تھا اور جو آج بھی راؤ سردار علی جیسے فرض شناس سربراہ کے دور میں جاری ہے۔ میرا نہیں خیال کہ فلاپ لانگ مارچ کے بعد عمران خان ایک اور لانگ مارچ کرنے کی پوزیشن میں ہیں لیکن اگر انہوں نے ضد میں یہ کوشش کی تو جو تھوڑے بہت لوگ اس دفعہ نکلے تھے وہ آئندہ نہیں آئیں گے۔ اس دفعہ احتجاجی چوبیس گھنٹے بھوکے پیاسے رہے اور لوگوں سے کرایہ مانگ کر واپس گئے، کیونکہ منتظمین کی طرف سے نہ کھانے پینے کا انتظام تھا اور نہ واپسی کی سواریوں کا۔ اس لانگ مارچ کا ایک افسوس ناک پہلو البتہ یہ رہا کہ عمران خان کو مبینہ طور پر عدلیہ سے بھی سہولت ملی،جو ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ ان جج صاحبان کو انصاف دینا چاہئے یا انہیں انصافی ہونا چاہئے۔ میرا حسن ظن ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا، کیونکہ 66 سال گذر جانے کے بعد بھی پاکستانی قوم صبح شام جسٹس منیر کو گالیاں دینا نہیں بھولتی۔ میری چیف جسٹس پاکستان سے مودبانہ گذارش ہے کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے انتہائی اہم خط کو اعلیٰ عدلیہ کے لئے wake up call کی نظر سے پڑھیں۔ 


کون نہیں جانتا کہ عمران خان سلیکٹڈ  وزیراعظم تھا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد ایک منصوبہ بنایا گیا، جس میں دو بڑی جمہوری طاقتوں کو زچ کرنے کے لئے ایک تیسری ”طاقت“ زبردستی کھڑی کی گئی جسے غیر جمہوری طاقتوں کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔ مسولینی اور ہٹلر کے حکومت پر قبضہ کرنے کو اچھی طرح سٹڈی کیا گیا کہ کس طرح مسولینی نے دھرنا دے کر اور ہٹلر نے جھوٹے پراپیگنڈے کی آڑ میں اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ اور پھر دونوں اس وقت ہی اقتدار سے گئے جب ان کے ملک کی اینٹ سے اینٹ بج چکی تھی۔ چانکیہ، میکاولی اور گوئیبلز کے فرمودات پر مبنی کتابیں کھولی گئیں کہ کیسے جھوٹ، پراپیگنڈا، چال بازیوں اور مکاری کے استعمال سے رائے عامہ کو اپنے حق میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان تمام لوگوں اور ان کے کرتوتوں پر بے تحاشہ ادارہ جاتی ریسرچ کی گئی اور پھر پاکستان میں جمہوریت، جمہوری اداروں، جمہوری پارٹیوں اور جمہوری طاقتوں کو بری طرح کچلنے کا منصوبہ بنایا گیا اور اس کے لئے ملک میں دس سالہ ”پراجیکٹ عمران خان“ لانچ کر دیا گیا۔اداروں نے ہر طرح سے قانونی اور غیر قانونی، اخلاقی اور غیر اخلاقی طریقے اختیار کرکے آئین، قانون، پارلیمان، سیاسی اقدار اور اصولوں کو قربان کر دیا، لیکن یہ پراجیکٹ دس کی بجائے ساڑھے تین سالوں میں ہی سمیٹنا پڑا۔ کیوں؟ اس کا جواب بہت آسان ہے، جس شخص کی سلیکشن ہوئی وہ اس قدر نکما، نا اہل، نالائق اور غبی تھا کہ ہر قسم کی برہنہ سپورٹ کے باوجود اس کا بوجھ نہ اٹھا سکا۔

ایک بات تو طے ہے کہ عمران خان کو اب کبھی اقتدار نہیں دیا جائے گا، کیونکہ ناکام تجربہ دہرانے سے مختلف نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ پاکستان اس بات کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا کہ عالمی طاقتوں اور عالمی اداروں سے دوبارہ تعلقات صفر سے بھی نیچے آ جائیں۔ اس لئے کچھ ہو جائے اب عمران خان کو آئندہ کبھی بھی اقتداردینے کی بونگی نہیں ماری جا سکتی۔ ان کی پہلی اور آخری حکومت ایک ڈراؤنا خواب تھا۔اگر کبھی کسی طالع آزما نے یہ تجربہ دہرانے کی کوشش کی تو وہ پاکستان کو 1971ء میں لے جائے گا۔ البتہ ابھی بھی ایسے سائنس دان موجود ہیں، جنہوں نے ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے کہ کیوں نہ عمران خان کی سیاست کو ختم کرنے کی بجائے اسے مستقل کنٹینر پر کھڑا رکھ کر حکومت پر مسلسل دباؤ رکھنے کے لئے استعمال کیا جائے تاکہ وہ گیدڑ بھبکیاں دیتا رہے، گویا ایک لطیفہ کے مصداق اسے ”اسی کام“ کے لئے رکھ لیا جائے۔ ایک اور ناکام تجربہ کرنے سے ملک کی کوئی خدمت نہیں  ہوگی۔ عمران خان نے بار بار آئین شکنی کی ہے، پونے چار سال میں سینکڑوں ہزاروں اربوں روپے کی کرپشن ہوئی ہے، ملک میں فساد اور فتنہ پھیلا کر خانہ جنگی کرانے کی کوشش کی ہے اور پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کر دیا ہے۔ عمران خان کی آخری سلیکشن اگر کنٹینر پر کھڑا رہنے اور گیدڑ بھبکیاں دینے کے لئے ہوئی ہے تو یہ ملک کے لئے اتنا ہی نقصان دہ ہو گا جتنا اس کی وزیراعظم کی سلیکشن کی تباہ کاریوں نے پہنچایا تھا۔ ہمارے سائنس دانوں کو چاہئے کہ وہ ملک کو 2071ء میں لے جانے کی منصوبہ بندی کریں، اسے دوبارہ 1971ء میں واپس دھکیلنے کی کوشش نہ کریں۔ 

مزید :

رائے -کالم -