اس قسم کے داؤ سے تو کبڈی ہی اچھی۔۔۔ واہ واہ۔۔۔ غذا اور صحت بھی کوئی معنی رکھتی ہے(شفیق الرحمان کی مزاح سے بھرپور تحریر )

دوسری قسط
(ایک وقفہ)
بات یہ تھی کہ مغل سپاہی نے ایک مرہٹے کو دھکا مار کر گھوڑے سے گرا دیا تھا۔ مرہٹے نے مغل کی ٹانگ میں کاٹ کھایا۔ مغل حقارت سے بولا، ”اف! اب علاج کے لیے ناحق کسولی جانا پڑے گا۔“ آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ کسولی میں باؤلے کتے کے کاٹے کاعلاج ہوتا ہے۔ اس سے مرہٹے کے لطیف جذبات کو ٹھیس لگی۔ وہ بولا، ”ٹھہر تو سہی۔ ابھی کہتا ہوں امپائر سے۔“ چنانچہ دونوں کو باہر نکال دیا گیا۔
اچھا ہوا، جب تک ایسی سزائیں نہ دی جائیں لڑائی میں گڑبڑ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ افوہ! دوسرے مغل دستے کا بھی یہی حشر ہوا۔ آخر مغل کوئی اور طریقہ کیوں نہیں استعمال کرتے؟ مرہٹے چپ چاپ اپنی اپنی پوزیشن پر جمے کھڑے رہتے ہیں۔ مغل تیزی سے آتے ہیں۔ یہ کوئی مدافعت پیش نہیں کرتے اور جب ان کا دستہ گول کیپر دستے تک پہنچتا ہے تو سب مرہٹے ٹوٹ پڑتے ہیں اور انہیں دبوچ لیتے ہیں۔ اس قسم کے داؤ سے تو کبڈی ہی اچھی۔۔۔ واہ واہ۔۔۔ یوں کب تک ہوتا آخر؟ آب و ہوا کا اثر بھی کوئی چیز ہے۔ غذا اور صحت بھی کوئی معنی رکھتی ہے۔ اتنی سی دیر میں مرہٹے تھک گئے۔ بری طرح ہانپ رہے ہیں۔ کئی حضرات اپنے خود اور زرہ بکتر اتار اتار کر امپائروں کو دے رہے ہیں۔ وہ امپائروں نے خیمے کی طرف چلا کر کہا، ”ذرا پانی بھجوانا۔“ چنانچہ چند سقے پانی پلانے جا رہے ہیں۔
اب مغلوں کا پلہ بھاری ہے۔ مرہٹوں کی خوب خاطر تواضع ہو رہی ہے۔ مغل انہیں پچھاڑے ڈالتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مرہٹے ورزش نہیں کرتے۔ اگر یہی حال رہا تو لڑائی دیرتک نہیں چلے گی۔ مغلوں کے پوائنٹس بڑھتے جا رہے ہیں۔
(بگل کی آواز)
افوہ! یہ کیا ہونے لگا؟ بادل آگئے، آسمان پر اندھیرا چھا گیا، بجلیاں کوند رہی ہیں۔
(بجلی کوندنے کی آواز اور بوندوں کا شور)
یہ دیکھیے بونداباندی شروع ہوگئی۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑرہی ہے۔ بگل بجائے گئے اور لڑائی بند ہوگئی۔ موسم خوش گوار ہو گیا ہے۔ اب پھر لوگوں کو سبکیاں آ رہی ہیں۔ قدرت مرہٹوں کی مدد کو آپہنچی، اتنی دیر میں وہ تازہ دم ہوجائیں گے۔ سارے سپاہی بڑے خیمے کے نیچے کھڑے ہیں۔ غالباً بارش دیر تک نہیں رہے گی۔ لیجیے اتنی دیر تک آپ ایک ریکارڈ سنیے۔۔۔ شاید یہ میاں کی ملہار ہے۔
(ریکارڈ بجتا ہے، ’برسن لاگی رے بدریا ساون کی۔۔۔‘ اور اس کے بعد دوسرا ریکارڈ، ’چھا رہی کالی گھٹا جیا مورا لہرائے ہے۔‘)
(بگل کی آواز)
بارش بند ہوگئی۔ امپائر اور کپتان میدان کا بغور معائنہ کر رہے ہیں۔ یہ لیجیے انہوں نے میدان کو پاس کر کے فوجوں کو بلا لیا۔ پھر لڑائی شروع ہوگئی۔ مرہٹے بڑے جوش و خروش سے لڑ رہے ہیں اور اس وقت وہ گھمسان کی لڑائی ہو رہی ہے کہ ہم بیان نہیں کرسکتے۔ چند سپاہی لڑتے لڑتے بالکل ہمارے قریب پہنچ گئے ہیں۔ ڈر ہے کہ کہیں ایک آدھ ہاتھ ہمارے رسید نہ کردیں۔ آپ ان کی آوازیں سن سکتے ہیں۔ اوہ! مرہٹے کی تلوار ٹوٹ گئی۔ مغل نے بڑی سپورٹس مین سپرٹ دکھائی اور ایک طرف ہوگیا۔ اب ان کی آواز سنیے۔۔۔
مرہٹہ، ’ماریے صاحب!‘
مغل، ’نہتوں پرحملہ کرنا بہادروں کا شیوہ نہیں۔‘
چنانچہ مرہٹے نے جھک کر کہا، ’شکریہ!‘ اور فوراً نئی تلوار منگائی، اتنی دیر مغل دوسری طرف منہ کیے کھڑا رہا۔ غالباً ضبط کرتا رہا۔ نوکر نئی تلوار لیے آیا۔ مرہٹے نے تلوار ہاتھ میں لے کر اِدھر ادھر ہوا میں وار کیے۔ پھر مغلوں کو اشارہ کیا اور اس کی ڈھال پر تین چار وار کیے۔ جب اطمینان ہوگیا کہ تلوار مضبوط ہے تو دونوں لڑنے لگے۔ اب وہ لڑتے لڑتے دور نکل گئے ہیں۔
(بگل کی آواز)
یہ نفیریاں کیوں بج رہی ہیں؟ کہیں سے ڈھول کی آواز بھی آرہی ہے۔۔۔ اخاہ۔۔۔ لنچ انٹرول ہوگیا۔ فوجیں کھانا کھانے واپس جا رہی ہیں۔ فی الحال ہم بھی اجازت چاہتے ہیں۔ گھنٹہ بھر آپ کو جنگلی ریکارڈ سنائے جائیں گے۔
(ریکارڈ بجتا ہے، ’چل چل رے نوجوان۔۔۔‘ اس کے بعد، ’چھائی پچھم سے گھٹا نونہالو جاگو۔۔۔‘ اور کئی اور ریکارڈ۔)
لیجیے اب لنچ انٹرول ختم ہونے کو ہے۔ ہم ابھی ابھی خیموں سے آ رہے ہیں۔ مغلوں نے خوب مرغن غذائیں کھائی ہیں۔ میٹھے ٹکڑے تو وہ اس قدر کھا گئے ہیں کہ حیرت ہوئی کہ آخر ان لوگوں کا ارادہ کیا ہے؟ لیکن مرہٹوں نے نہ جانے کس پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف ذرا ذرا سے چاول پھانک کر صبر کرلیا۔ اب وہ پان کھا رہے ہیں۔ شاید وہ سوچتے ہوں کہ انسان خالی پیٹ اچھا لڑ سکتا ہے، لیکن ہمیں اس سے اختلاف ہے۔ طبی نقطہ نگاہ سے بھی جب پیٹ خالی ہو تو دم خم کہاں سے آئے گا؟ جسمانی قوت کا دار و مدار اعلیٰ درجے کی غذا پر ہے اور پھر بزرگوں نے بھی کہا ہے کہ بھوکا بٹیر کیا لڑے گا؟ معاف کیجیے ہم خواہ مخواہ اِدھر ادھر کی ہانک جاتے ہیں۔ اب فوجیں آرہی ہیں، انہوں نے میدان تبدیل کرلیے ہیں۔ مغل پہلے ہمارے داہنی طرف تھے۔ اب بائیں طرف آگئے ہیں۔ مرہٹے بھی دوسری طرف چلے گئے۔
(بگل کی آواز)
یہ لیجیے لڑائی شروع ہوگئی۔۔۔ لیکن یہ کیا ہو رہا ہے؟ مرہٹے بجلی کی طرح تڑپ رہے ہیں اور مغلوں پر چھائے جاتے ہیں۔ شاید یہ خالی پیٹ کا اثر ہے۔ ادھر مغل ہیں کہ بالکل سست پڑ گئے ہیں۔ غالباً پراٹھوں کا خمار چڑھ رہا ہے۔ ابھی ابھی امپائروں نے کئی سوئے ہوئے مغل سپاہیوں کو جگایا ہے۔ یہ مغل کپتان اشارے کسے کر رہا ہے؟ افوہ! ڈھول والوں کو کر رہا ہے۔ تبھی ڈھول زور زور سے بجنے لگے۔ (جاری ہے )
"شگوفے " سے اقتباس