آئےے تھوڑی دےر ہنسےں

لدھےانے کی ماےہ ناز شخصےت ڈاکٹر کےول دھےر کے ساتھ اس بار دلّی سے کے اےل نارنگ ساقی بھی چوتھی عالمی ادبی کانفرنس مےں شرکت کے لئے لاہورآئے۔ادبی کانفرنس کا دلچسپ احوال انشاءاللہ اگلے کالم مےں لکھوں گی۔کے اےل نارنگ ساقی بہت محبت اور پےار کرنے والے انسان ہےں۔ لاہور مےں اُن کی دوسری کتاب” قلم کاروں کی خوش کلامےاں“ شائع ہوئی تھی،جسے پڑھ کر احساس ہوا کہ ہمارے ادب اور ہمارے لوگوں کو اےسی کتابوں کی بھی شدےد ضرورت ہے۔حقےقت ےہ ہے کے اےل نارنگ ساقی مبارک کے مستحق ہےںکہ انہوں نے اےک کٹھن کام کا بےٹرہ اٹھالےا ہے۔آج کے زمانے مےں جب گھٹن، ڈپرےشن،معاشی مسائل کے انبارکے ساتھ ساتھ امن و سکون بھی داﺅ پر لگے ہوئے ہوں،خےر اور امےد کی کوئی خوشگوار سی خبر اخباروں اور چےنلوں کے ہجوم مےں سے تلاش کرنا پڑتی ہے تو کوئی اےسی کتاب جو آپ سے جارج اےچ پاول کے الفاظ مےں کہے:
What is the use of worring Pack up your troubles and worries in your old kit bag and smile smile smile
اور واقعی آپ کے ہونٹ مسکرا اٹھےں۔کہےں آپ بے اختےار قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجائےںتو ےقےنا کاوش کرنے والا آپ کی محبتوں اور دعاﺅں کا مستحق ہے کہ اللہ کے نزدےک بہت پسندےدہ اور پےارا ہے کہ اُس کی مخلوق کو خوش کررہا ہے۔ہنسا رہا ہے۔نارنگ ساقی سے غائبانہ تعارف تو پرانا ہے کہ ہم تخلےق کے باقاعدہ قاری اور لکھاری ہےں،مگر بالمشافہ تعارف بُشریٰ رحمن کی طرف سے ڈاکٹر کےول دھےرکے اعزاز مےں دئےے گئے کھانے پر ہوا۔دھےمے سے لہجے مےں بات کرنے والے نرم خو سے انسان کو دےکھ کر مجھے اپنے تصور مےں تراشی ہوئی کے اےل نارنگ کی تصوےر مےں کوئی مماثلت نظر نہےں آئی تھی۔دلّی مےں پاکستان سے جانے والے نامور ادےبوں اور ہندوستان کے مشہور ادےبوںکے لئے محفلےں سجانے اور ان کی باتوں سے مزاح،لطےفہ گوئی، بذلہ سنجی کے موتی چننے اور وقت کی گزری تہوں سے اِن گوہروں کو ڈھونڈ نکالنے والا تو ےہ بالکل اپنا اپنا سا نظر آنے والا شخص ہے۔
حقےقت تو ےہ ہے کہ ”قلم کاروںکی خوش کلامےاں“ اےسی کتاب نہےں ہے کہ جسے اےک بار پڑھنے کے بعد آپ کہےں رےک پر سجا دےں۔ےہ اُن کتابوں مےں سے ہے، جنہےں ہمےشہ بےڈ کے سرہانے رکھا جاتا ہے۔ جب آپ اداس ہوںتواسے اٹھا کر پڑھنا شروع کردےں۔آپ کی اداسی بھاگ جائے گی،اس لئے بھی کہ ادب کی ےہ لےجنڈری شخصےات ہمےشہ انسان کو آسمان پر چمکتے ستاروںکی مانند نظر آتی ہےں۔ان کی روز مرہ کی باتوںسے چھلکتی مزاح کی لطافتےں،بذلہ سنجےاں اورنکتہ آفرےنےاں بتاتی ہےں کہ وہ بھی ہم جےسے ہی انسان ہےں۔انسانی فطرت کے تقاضوں اور ان کی جبلتوں مےںگندھے ہوئے۔اردو ادب نارنگ ساقی کا شکرگزار ہے کہ انہوںنے بڑے لوگوںکی چھوٹی چھوٹی اور بڑی بڑی باتوں کو محفوظ کردےا ہے۔
پاکستان مےں جومزاح تخلےق ہورہا ہے، اُسے محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ بشریٰ رحمن ، عطاءالحق قاسمی،امجد اسلام امجد،جےسی ملک کی لےجنڈری شخصےات جب کِسی محفل مےں اکٹھی ہوجائےں تو وہ پھلجھڑےاں چھوٹتی ہےں کہ آنکھوں کے کنارے نم ہی نہےں ہوتے،باقاعدہ بھےگ جاتے ہےں۔ بشریٰ رحمن جےسی ادبی خاتون نے تو سےاسی مےدان مےں بھی مزاح کے جھنڈے گاڑے ہےں۔مرحوم دلدار پروےز بھٹی جو اےک پےدائشی فنکار تھا،اُس کے لطائف ڈھےروں ڈھےر ہےں۔اےک عدد نارنگ ساقی کی پاکستان کو بھی اشد ضرورت ہے کہ ماشاءاللہ مواد کثرت سے ہے۔بس نارنگ ساقی جےسے جوش و جذبے کی ضرورت ہے۔سرحد پار کے اس مہمان کا شکرےہ کہ انہوںنے مجھے اتنی خوبصورت کتاب پڑھنے کو دی۔لےجئے آپ بھی تھوڑی دےر کے لئے ہنسےں۔
امجد اسلام امجد کا سیرےل ”وارث“ٹی وی پر چل رہا تھا۔اس کے ٹائٹل سےن مےں کتے چلتے ہوئے دکھائے جاتے تھے۔اس کے ساتھ ہی رائٹر کا نام امجد اسلام امجد دکھاےا جاتا تھا۔عطاءالحق قاسمی نے فون پر امجد سے کہا: ”ےار کمال ہے، آج تک کسی سیرےل والے نے رائٹر کی تصوےر نہےں دکھائی گئی ،لےکن تمہارے سیرےل والے تو رائٹر کی تصوےر بھی ساتھ دکھا رہے ہےں“۔
ضمےر جعفری جن دنوں سٹےلائٹ ٹاﺅن مےں رہتے تھے،اےک جےسے مکانوں کے نقشے کی وجہ سے اےک شام بھول کر کسی اور دروازے پر دستک دے بےٹھے۔دروازہ کھلنے پر دوسری عورت کو دےکھ کر جعفری صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوگےا۔فوراً واپس پلٹے۔اس فعل کا ذکر جب جعفری صاحب نے اےک دوست سے کےا تو اس نے سوال کےا : ”جعفری صاحب! آپ کو غلط گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے پر شرمندگی نہےں ہوئی کےا“؟....©©”مجھے اس فعل پر کوئی شرمندگی نہےں ہوئی،لےکن ےہ دےکھ کر ضرور تکلےف ہوئی کہ دورازہ کھولنے والی عورت مےری بےوی سے بھی زےادہ بدصورت تھی“۔جعفری صاحب نے جواب دےا۔
علی سردار جعفری اور سلطانہ دونوں ہی لکھنو ےونےورسٹی مےں الگ الگ شعبے مےں اےم اے کررہے تھے۔ سردارجعفری نے پہلی ملاقات مےں سلطانہ سے کہا:”تم تو ’وےنس ڈی مےلو‘ ہو۔“چند روزبعد سلطانہ نے انہےں دےنس ڈی مےلو کا مجسمہ تحفتاً دےا۔اس پر سردار جعفری نے کہا : ”کھلونے دے کے بہلاےا گےا ہوں“۔
مجتبیٰ حسےن ،حمایت اللہ،طالب خوندمےری،اور مصطفی علی بےگ طنزومزاح کی اےک محفل مےں شرکت کے لئے سعودی عرب گئے،وہاں پہنچتے ہی عمرہ کی ادائےگی کے لئے مکہ مکرمہ چلے گئے۔خانہ کعبہ مےں سب لوگ نماز ادا کررہے تھے کہ حمایت اللہ سے اےک صاحب نے پوچھا : ”قبلہ ،ےہاں سونے کا کےا بھاﺅ ہے“؟حمایت اللہ نے انہےں ڈانٹتے ہوئے کہا: ”کچھ تو خےال کیجئے، ےہ خانہ کعبہ ہے“۔وہ اٹھ کر پچھلی صف مےں مصطفی علی بےگ کے پاس بےٹھ گئے ۔جےسے ہی دعا ختم ہوئی تو انہوںنے مصطفی سے پوچھا:” ےہاں سونے کا کےا بھاﺅ ہے؟“مصطفی نے بھاﺅ بتاتے ہوئے کہا: ”جناب، ےہ اللہ کا گھر ہے، ےہاں دنےاوی باتےں اچھی نہےں لگتےں۔“اس پر انہوںنے پوچھا کہ ”آپ کو بھاﺅ کےسے پتہ چلا ؟“بےگ نے جواب دےا :”مَیں نے اےرپورٹ پر اترتے ہی سونے کا بھاﺅ پوچھ لےا تھا تا کہ خانہ کعبہ مےں لوگوں سے اےسے بےہودہ سوال نہ کرنے پڑیں۔“
سرےندر پرکاش نے صدر پاکستان ضےاءالحق کو خط لکھا: ”مَےں اپنے آبائی وطن لائل پور کو اےک بار دےکھنا چاہتا ہوں، لہٰذا مجھے پاکستان آنے کی اجازت دی جائے۔ اجازت تو کےا ملتی، البتہ پولےس گھر پر ضرور پہنچ گئی اور اسے پوچھا:”تم بغےر پاسپورٹ،وےزا کے پاکستان کےسے جاسکتے ہو؟“....”اسی لئے تو مَےںنے سےدھے صدر پاکستان کو خط لکھاتھا کہ پاسپورٹ اور وےزے کی رسمی کارروائی سے مستنثیٰ کردےا جاﺅں“....سرےندر پرکاش نے معصومےت سے جواب دےا۔
اےک پاکستانی ادےب ہندوستان آئے تو واجدہ تبسم سے ملاقات مےں کہنے لگے....” آل احمد سرور پاکستان آئے تھے،ان سے پوچھا گےا کہ واجدہ تبسم آپ کے خےال مےں کےسی افسانہ نگار ہےں؟“اس پر انہوںنے کہا:” واجدہ تبسم کون ہےں؟“ےہ واقعہ سنا کر انہوںنے ازراہِ مذاق واجدہ سے پوچھا ....”کےا ےہ ممکن ہے کہ آل احمد سرور نے آپ کے بارے مےں ےہ کہا ہو؟“واجدہ تبسّم نے آنکھوں مےں حےرت بھر کر مخاطب کو دےکھا اور پھر معصومےت بھرے لہجے مےں پوچھا:” ےہ آل احمد سرور کون ہےں؟“
پشتو کے شاعر پرےشان خٹک اردوبہت اچھی طرح نہےں جانتے تھے۔انہوںنے کالج مےں سروس شروع کی تو وہاں اےک لےکچرار خاتون بھی تھےں۔وہ بہت عرصے تک انہےں ”قبلی‘ قبلی“کہہ کر پکارتے رہے۔اےک دن اس خاتون نے غصّے سے ان سے پوچھا : ”آپ مجھے ہر وقت ”قبلی قبلی“ کےوں کہتے ہےں“؟....”مردحضرات کو احترام سے قبلہ کہتے ہےں،تو عورتوں کو ےقےنا ”قبلی“کہتے ہوں گے“۔پرےشان خٹک نے انکساری سے جواب دےا۔
روس پر جےت حاصل کرنے کے بعدنپولےن سے اےک بوڑھی عورت نے پوچھا: ”ےہ بات ٹھےک ہے کہ فرانسےسی لوگ زمےن،دولت اور عورت کے لئے لڑتے ہےں؟مگر ہم روسی لوگ اےسے نہےں،اگر ہم لڑتے ہےں تو صرف اپنی خودداری کے لئے ہی لڑتے ہےں۔“نپولےن کے محافظوںنے تلوارےں نکال لےں،مگر نپولےن نے سب کو منع کردےا ۔اےک بھرپور مسکان کے ساتھ اس نے بزرگ عورت کی طرف دےکھا اور کہا: ”محترمہ! آپ نے جو کہا وہ بالکل درست ہے۔ہرکوئی اس چےز کے لئے ہی لڑتا ہے جو اس کے پاس نہےں ہوتی“۔
(مضمون ادبی بےٹھک الحمرامےں پڑھا گےا۔) ٭