مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ
20مارچ 1980ء کو دارالعلوم دیو بند کی سو سالہ تقریبات کا آغاز ہونا تھا۔ پاکستان کے مدارس سے علماء کرام اور اساتذہ کی کثیر تعداد نے اس میں شریک ہونا تھا۔ ہندوستان جو زائرین حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ یا حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ؒ کے عرسوں پر جاتے ہیں، انہیں ایک عرس کے لئے دو سو سے زائد افراد کو ویزہ نہیں ملتا، مگر دیو بند کی اس تقریب کے لئے ساڑھے آٹھ سو افراد کو ویزہ دیا گیا۔اس کے ساتھ سپیشل ٹرین کا بھی حکومت نے انتظام کیا، جس نے انہیں دیوبند تک لے کر جانا تھا۔ چار روز بعد واپس لے کر آنا تھا۔ مَیں بھی ایک خادم کی حیثیت سے ان علماء کرام کے ساتھ شریک سفر تھا۔ جناب مفتی محمود صاحب اور جناب مولانا عبدالقادر آزاد صاحب نے اس خادم کی ڈیوٹی اس طرح لگائی کہ دوران سفر ریلوے ،امیگریشن ،کسٹم اور دیگر جو بھی محکمہ بیچ میں آئے، جماعت کے خادم کے طور پر مَیں نے بات چیت کرنی ہے۔
18مارچ بروز بدھ لاہور ریلوے سٹیشن سے یہ سپیشل ٹرین مسافروں کو لے کر روانہ ہوئی۔ ریلوے کے کئی اعلیٰ حکام نے مسافروں کو الوداع کہا۔ ریلوے گارڈ نے سبز جھنڈی دکھائی، سیٹی بجائی، جواباً انجن سے بھی ایک لمبی سیٹی بلند ہوئی، چھک چھک کی آوازیں نکلنا شروع ہوئیں اور گاڑی نے رینگنا شروع کر دیا۔ خراماں خراماں اٹاری پہنچے۔ فرداً فرداً کی بجائے سب کے پاسپورٹ جمع کرکے خروج کی مہریں لگوائیں۔ کسٹم کلیرنس لی۔ وہاں سے دھیمی دھیمی رفتار سے چلتے ہوئے مغرب سے پہلے امرتسر ریلوے سٹیشن پر پہنچ گئے۔وہاں سپیشل ٹرین ہونے کے ناتے ریلوے حکام نے خوش آمدید کہا۔نیز مشورہ دیا کہ ایک ذمہ دار فرد بکنگ کاؤنٹر پر جا کر تمام مسافروں کا ایک ٹکٹ بنوائے۔ وہاں کرایہ کے پیسے جمع کرنا، پاسپورٹ جمع کرنا، ایک ٹکٹ بنوانا پاسپورٹس پر آمد کی مہر لگوانا۔یہ سب پہلے ہی میرے ذمہ کیا جا چکا تھا، لہٰذا بہت قلیل عرصہ میں یہ سارے ضابطے کے کام احسن طریقہ سے مکمل ہو گئے۔ پہلی مرتبہ پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد کسی بھارتی ریلوے سٹیشن پر موجود تھی۔
نماز مغرب کا وقت قریب آ پہنچا۔ سب نے نماز ادا کرنی تھی۔ اتنے افراد کہاں نماز پڑھیں، کیسے نماز پڑھیں۔ مسئلہ اس طرح حل ہوا کہ تمام مسافردس پندرہ کی ٹولیوں میں بٹ گئے۔ ہر ٹولی نے اپنی اپنی چادریں بچھا کر صف بندی کی اور ہر طرف سے اذان مغرب بلند ہونا شروع ہو گئی۔ سٹیشن کے لوگ، اطراف کے لوگ ،قرب و جوار کے لوگ بھاگے آئے۔ امرتسر کے ریلوے اسٹیشن پر ہر طرف اللہ اکبر کی صدا بلند ہے۔ ’’مجھے ہے حکم اذاں‘‘ ہر گروپ میں ایک موذن اذان دے رہا ہے۔ہندو سکھوں کی کثیر تعداد حیرانی سے یہ منظر دیکھ رہی ہے۔ اتنے لوگ اتنی اذانیں، جس کا امرتسر والے سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔اللہ کی کبریائی نے ان کو مغلوب کیا ہوا ہے۔ بولنے کی جرات نہیں، زبان گنگ ہے۔اللہ کی تکبیر اور حسنؓ حسینؓ کے ناناؐ کا نقارہ بج رہا ہے۔ سٹیشن پر سوائے اذانوں کے اور کچھ سنائی نہیں دے رہا۔ ماحول پر سناٹا چھا گیا۔دل و دماغ پر سکتہ طاری ہے۔لوگ بول نہیں رہے۔ ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہے ہیں، یہ سب کیا ہے؟ کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہم پر اسلام غالب آ گیا۔۔۔ ابھی نہیں آیا تو انشاء اللہ آ جائے گا۔
اذانیں ختم ہوئیں، اماموں نے اپنے مصلے سنبھالے تکبیر شروع ہوئی۔ امام صاحب نے اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھی نماز کا آغاز ہوا۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز۔پھر امام قرآن حکیم کی مختلف سورتیں تلاوت کررہے ہیں۔ احکم الحاکمین کا کلام ہے۔سٹیشن کی فضا میں فرقان الحمید کا غلبہ ہے۔ ایسا منظر ہندوستان کی سرزمین پر طویل عرصے سے کسی نے نہیں دیکھا ہوگا۔ نمازی نماز و دعا سے فارغ ہوکر گاڑی میں اپنی اپنی سیٹوں پر جا بیٹھے۔ اب میزبان حرکت میں آئے۔ چائے کی دیگیں، سنگتروں کی ٹوکریاں، بسکٹوں کے ڈبے لے کر آگے بڑھے۔ مسافروں کی فرداً فرداً خاطر کی جا رہی ہے۔ چائے لینے میں مجھے بڑی کراہت محسوس ہوئی۔ مَیں نے شکریہ ادا کرنا ہی مناسب سمجھا۔ اذان اور نماز کا جو منظر مَیں نے پیش کیا ہے، زندگی بھر مَیں وہ منظر بھلا نہ سکوں گا۔ہمارے ساتھ جناب خواجہ محمد اسلام صاحب بھی شریک سفر تھے، ان کی مشہور کتاب ہے۔
اس کتاب کے پوسٹر خواجہ صاحب نے ریل کے ڈبوں کے باہر چسپاں کر دیئے۔ ایک جگہ گاڑی رکی تو سکھ گارڈ نے مجھے اپنے پاس بلا لیا۔ گارڈ نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا کتاب ہے اور اس میں کیا لکھا ہوا ہے۔ مَیں نے کتاب کے لبِ لباب سے سردار جی کو آگاہ کیا۔وہ کہنے لگے کہ ایک کتاب مجھے بھی پڑھنے کے لئے دیں۔ مَیں نے کہا یہ کتاب تو اردو زبان میں ہے۔ آپ کی کہاں سمجھ میں آئے گی۔ اس کا انہوں نے جواب دیا کہ مَیں نے ایف اے تک فارسی پڑھی ہے۔ اردو پڑھنا اور سمجھنا میرے لئے بالکل مشکل نہیں ہے، لہٰذا ان کی خواہش پر ایک کتاب خواجہ صاحب سے لے کر ان کو ہدیہ کی۔ ان کی نگرانی میں گاڑی چلتی رہی اور تقریباً رات بارہ بجے ہم اپنی منزلِ مقصود دیوبند ریلوے سٹیشن پر الحمدللہ پہنچ گئے۔