بلو چستان کا اصل مسئلہ محرو می یا شنا خت؟

بلو چستان کا اصل مسئلہ محرو می یا شنا خت؟
بلو چستان کا اصل مسئلہ محرو می یا شنا خت؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فیض امن میلہ میں بلو چستان کے ایک مقرر کی تان بار بار اس پر ٹو ٹتی تھی کہ برٹش بلو چستان اور پاکستان کا 1947 کی تقسیم کے وقت ایک زور زبر دستی کا تعلق بن گیا تھا، عما رت کی ٹیڑھی بنیا د شروع میں رکھ دی گئی وغیرہ وغیرہ۔

مگر اس سے بھی زیا دہ حیرتناک رویہ ہال میں بڑی تعداد میں بیٹھے لیفٹ کے نظر یا تی برہمن تھے جو اس قسم کے خیا لات اور پا کستان کے وجود پر پڑ نے وا لی ضرب پر خوب تا لیاں بجا رہے تھے۔

امن میلہ میں بلو چستان سے آ ئے مقرر نے حیران کن انکشا فات کیے ان کے نز دیک گوادر پتہ نہیں کہا ں ہے اور کہاں کی ترقی ؟ یہ سب کچھ قو می سطح کے اخبا رات اور میڈیاکی حد تک ہے۔

ممکن ہے حقیقت میں بہت حد تک ایسا ہو، آ ئین کے اندر رہتے ہو ئے ان کے بہت سے مطا لبات جا ئز اور ان کے پلڑے میں پورے پاکستان کو اپنا وزن ڈالنا چا ہئے۔ جو آ ئین بنیا دی آ زا دیوں کے احترام کو گارنٹی کر تا ہے وہی آ ئین ریا ست کے با غی جنگجوؤں کے ساتھ سخت اور بے رحم سلوک کا حکم دیتا ہے۔

جب آپ ریا ست کو ما ننے کی بجا ئے ہتھیار اٹھا تے ہیں تو آپ اپنے حقو ق سے بھی دستبردار ہو جا تے ہیں جو ریا ست کے ذمہ ہو تے ہیں۔پاکستان میں با ئیں با زو کے نظر یا تی لو گوں کو ایک حقیقت پلے باندھ لینی چا ہئے یہ ممکن نہیں کہ اس ملک میں طا لبان کے ساتھ نمٹنے کے لئے طا قت کا سلوک ہو مگر بلو چستان میں ریا ست کا دردِ سر بننے والے بے رحم جنگجوؤں سے رحم دلا نہ سلو ک ہو۔


ڈیرہ بگٹی کے ایک نو جوان کا سوال جو محرو می کا احا طہ کر رہا تھا اور میں دل ہی دل میں ڈیرہ بگٹی سے جڑے پنجاب کے آ خری ضلع راجن پور کا تقابلی جا ئزہ لے رہاتھا۔محرو می دو نوں جگہ ایک جیسی ہے، مگر میرااحساس اور ایک ناراض بلوچ کا طریقہ کار کیوں مختلف ہے؟ میں آ ئین کے اندر رہ کر اپنی محرو می سے نمٹنے کی کا میاب کو شش کر رہا ہوں، میں اپنی ذ ہنی پسماندگی ختم کر نے کے لئے پاکستان کے کسی بھی علا قے اور کسی بھی تعلیمی ادارے کا رخ کر نے میں کو ئی عار محسوس نہیں کرتا، میرا چھو ٹا بھا ئی را جن پو ر سے اٹھ کر پا کستان کی سول سر وس کا امتحان میرٹ پر پاس کر سکتا ہے، میری چھو ٹی بہن محض قا بلیت پر ایم بی بی ایس کا میرٹ بنا سکتی ہے، مجھے کبھی نسل پرستا نہ رویہ کا سا منا نہیں رہا میں تو آ ج بھی پنجا بیوں کے سب سے بڑے شہر لا ہور میں پو رے فخر کے ساتھ سرا ئیکی ہو کر بھی بلو چی ٹو پی پہنتا ہوں مگر ڈیرہ بگٹی کا نو جوان مرد کہستا نی ہو نے کے با وجود ہمت ہار جا ئے تو بلوچ روا یات کے شا یانِ شان نہیں ہے۔

محرو می کے نا مہر باں مو سموں سے بلو چستان میں ایک بڑے پیما نے پر بے چینی ہے، محرو می بلو چستان کے رگ و پے میں ہے مگر ہتھیار اٹھا نے سے جہا لت، غر بت اور مسا ئل کا نہ ختم ہو نے وا لا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔

ایسا خطہ جہاں پہلے ہی تعلیم اور صحت کی صورتحال خطر ناک حدوں کو چھو رہی ہو ، جہاں ہر ضلع ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں محض ایک گائناکالوجسٹ ڈاکٹر میسر ہو، انفرا سٹر کچر آ ج بھی قیام پاکستان سے پہلے کا ہو، بلو چستان میں پا نی آج بھی نہیں پہنچا جب پو ری دنیا سے پا نی ختم ہو رہا ہے۔


آ ج بھی جعلی ڈو میسا ئل بنا کر بلو چستان کی نو کریوں کے کو ٹے پر ہاتھ صاف کیے جا رہے ہیں، انسانی ترقی آج بھی دہکتے ہو ئے انگاروں پر چل کر اپنی بے گنا ہی ثا بت کر نے کے رواج پرقربان ہو رہی ہو ،بلو چ خوا تین تو اپنے حقوق کے لفظ سے بھی بیگا نہ ہیں اور سب سے بڑھ کر بلو چ اپنے خطہ پر اپنے حقِ حکمرا نی اور وسا ئل کی تقسیم کا سوال اٹھا تے ہیں۔

تو ایسی محر ومی سے دو جذ بوں کا جنم لینا فطری ہے، ایک تخریب کا خو گر ہو تا ہے جس میں جوان جذ بے نفرت اور انتقام میں سب کچھ بھسم کرنے کے در پے ہو تے ہیں اور دوسرا احسا س ہے تعمیر کا جو آ گے بڑھ کر تعلیم اور جد و جہد کے ذریعے محرو می کو شکست دیتا ہے پھر بہار کے نئے امکا نات کا دروازہ کھلتا ہے۔

بلوچ عوام با الخصوص نو جوان پاکستان کو نہیں بلکہ محرو می کو شکست سے دو چار کریں اس جدو جہد میں پورا ملک ان کے ساتھ کھڑا ہے، گرا نیء شب میں کمی لا نی ہے تو علاج درد دہشت میں نہیں بلکہ پرامن آ ئینی جدو جہد میں ہے جس میں پورا ملک ان کے سا تھ آن شا مل ہو ا ہے۔


بلو چوں کے مسا ئل ڈیرہ بگٹی سے لیکر سا حل مکران تک زیرِ بحث ہیں مگر لا ہور او ر کرا چی میں بھی ان کی حا لت پر دل دکھتا ہے۔عام پنجا بی، سندھی یا پٹھان بھی مسا ئل کی اس چکی میں پس رہا ہے جس سے بلوچ عوام گذر رہے ہیں۔

بلوچستان کے مسا ئل پر آج ماضی سے کہیں زیادہ بات ہو رہی ہے اس کی وجہ شدت پسند بلوچوں کی کار روا ئیاں نہیں بلکہ پا کستان کے جغر ا فیہ میں بلوچستان کی روز بروز بڑ ھتی اہمیت ہے ۔

آ ج ما ضی کے مقا بلے میں ز یا دہ دل اور زیا دہ کان بلو چ عوام کی بات سننے کو بیتاب ہیں۔لہٰذا آ ج اپنی بات پر امن انداز میں کر نا زیا دہ آ سا ن ہے۔ابھی بھی بلو چستان آ سمان سے ٹو ٹا ہوا تارا یا شاخ سے نو چا ہوا پھول تو نہیں ہے کہ مر جھانا اس کا مقدر ٹھہرے پاکستان اور بلو چستان کا ایک کل تھا جو گزر چکا ہے۔

ایک آ ج ہے جو گزر رہا ہے اور ایک آ نے وا لا کل ہے جو امکانات کی نوید سنا رہا ہے۔ جسے ہم حال کہتے ہیں وہ فی الحقیقت کیا ہے؟اسکا تھو ڑا سا احساس ہمیں میسر ہے مگر بلو چ ہی ہیں جو اس کے بے رحم تھپیڑے کھا رہے ہیں۔

مستقبل میں تو جو ہو گا سو ہو گا مگر لمحہء مو جودکے مسا ئل کی نو عیت بڑی تیز رفتاری کے ساتھ بدل رہی ہے، ہم ایک مسئلہ کی تفہیم اور اس کے حل کی جا نب بڑ ھنے کا سوچتے ہیں مگر محرو می اور مسا ئل سے لبا لب اس سر زمین پر مسائل کی نو عیت ہر لمحہ بدل جا تی ہے۔

اسی صبح نا امید اور شام بے اعتماد کو ختم کر نے کے لئے کیا کیا جتن کر نے پڑیں گے؟کتنے صحراوءں کو طے کرنا پڑے گا؟ کتنے سمندروں کو لانگنا پڑے گا؟کتنی چو ٹیوں سے بے خطر کو دنا پڑے گا؟ بلو چستان میں امن اور شورش کا خاتمہ ایک صبر طلب کام ہے اور بیتاب تمنا کے گھوڑوں کو لگام ڈا لنے کا وقت ہے۔

مسئلہ کی حقیقی تفہیم کی جا ئے توسمجھ یہی آ ئے گا کہ کو ہلو اور لورا لائی سے لے کر تربت اور گوادر تک پسماندگی اور بے چینی کا بیا باں ہے جس کے فو ری ختم ہو نے کا کوئی نام و نشان نہیں ۔ اس صو بہ کے مختار کل پاکستان اور بلوچ عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ بحال کر پا ئے تو مسئلے کے حل کا آ غاز سمجھا جا ئے گا،وگرنہ آ گے خرا بی اور حالات اپنا رخ خود متعین کریں گے۔

مزید :

کالم -