دلم زندہ شد از وصالِ محمدؐ

دلم زندہ شد از وصالِ محمدؐ
 دلم زندہ شد از وصالِ محمدؐ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عجیب طوفانِ بدتمیزی ہے کہ ہر سمت اضمحلالِ قلب و نظر کی فراوانی ہے ایک طرف تعقل نے تنکیر کے وہ جال بچھا دیئے کہ انسان ایک خشک میکانکی آلہ بن گیا تو دوسری جانب بے کیف و لاعرفانیت کے کھوکھلے نعروں نے عشق و جذب کے منازلِ ارفع کو دہشت و جہل کی بیڑیاں پہنا دیں، الامان والحفیظ
علم و حکمت بلاشبہ خدا کا نور ہے اس کے بغیر انسان خدا تک رسائی ہی نہیں حاصل کر سکتا یہی وجہ ہے کہ محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلمِ کتاب و حکمت بنا کر مبعوث کیا گیا، تاکہ آقائے نامدار ابد قرار علم کی روشنی کے ساتھ ساتھ حکمت یعنی دانش کی لو بھی جلا سکیں اور بخدا یہی حتمی اور حقیقی روشنی ہے علاوہ ازیں دجلِ ابلیس و مخرب القلب ہے اسی علم کا نور جب معرفت کے منازل سے گزر کر عشقِ محمدیہ میں روپانتر ہوتا ہے قلب و نظر کو تمام تر روحانی آلائشوں سے منزہ کر دیتا ہے حضرت رومی فرماتے ہیں کہ علم تو ایک ہی ہے
علم نبود جز بعلم عاشقی
مابقی تلبیس ابلیس شقی
حقیقتِ محمدؐیہ کا کماحقہ ادراک ہی انسان کو دراصل عشقِ محمدؐیہ سے ہمکنار کرتا ہے اور یہ نکتہ سالکین بہتر طریق سے جانتے ہیں یہ اصول اس قدر مضبوط اور لافانی ہے کہ بنا آشنائی صحبت راس ہی نہیں آ سکتی کیونکہ کوئی چیز ہو یا انسان جب تک آپ اس سے کماحقہ آگاہ نہیں ہو جاتے تب تک آپ اس کی اصلیت و حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے حضرت اقبال اس نکتہ کو بہت خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں


از ہمہ کس کنارہ گیر صحبتِ آشنا طلب
ہم ز خدا خودی طلب ہم ز خودی خدا طلب
محبتِ حقیقی دراصل اس وقت رونما ہوتی ہے جب آپ محبوب کی ذات و صفات اور اس کی روحانی رفعت سے کماحقہ آگاہ ہو جاتے ہیں اور یہ وہ انتہائی بنیادی ذرائع ہیں محبت کی توقع کے جس کو کوئی بھی ذہن مسترد نہیں کر سکتا محبوب کو جانے بغیر محبت کا دعویٰ مغلوبِ ماحول کر سکتا ہے یا پھر اضمحلالِ قلب و نظر کا حامل، تاکہ وہ اپنے روحانی کرب کا عارضی بنیادوں پر ازالہ کرکے آگے بڑھ جائے شومئی قسمت کہ ہمارے ہاں آج ان دو صفات کے حامل افراد کی بہتات ہے بخدا چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے سے ایسے نفوس آج نہیں ملیں گے جن کی روح میں عشقِ محمدؐیہ کی لو جل رہی تھی حضرت بیدم شاہ فرماتے ہیں
عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسولؐ
کہاں کہاں لئے پھرتی ہے جستجوئے رسولؐ
خدا گواہ ہے کہ عشق ہوک کے بغیر کوک نہیں سکتا اور عاشق کی کیفیت کچھ ایسی ہوتی ہے کہ
ہوک کروں تو جگ جرے اور جو کچھ ہے جر جائے
پاپی جیارا ناہی جرے کہ جاں میں ہوک سمائے
پس ایسی اعصاب شکن و روح حلیلہ کیفیت میں انسان کیسے کون و مکاں سے باخبر ہو سکتا ہے پس جو خبردار ہے وہ ناقص ہے اس کو چاہیے کہ وہ سلوک کی راہ اختیار کرے کسی صاحبِ نظر کی صحبت اختیار کرکے علاوہ ازیں یہ مقام محض آموختہ کتب کا محتاج نہیں نہ ہی صرف و نحو کی جگلری سے نمودار ہوتا ہے حضرت رومی فرماتے ہیں
آں علم کہ در مدرسہ حاصل گردد
کارِ دگر است و عشق کارِ دگر است
عشق دلائل و استنباط کی بوقلمونیوں سے منزہ ہے عشق جہل کا مرکب ہے نہ ہی ریا کا استعارہ، عشق عرفان کی وہ آخری آرام گاہ ہے جس کے بعد انسان اس قابل ہی نہیں رہتا کہ وہ دنیاوی عشق پر دھیان دے سکے۔ پس جو افراد عشقِ رسولؐ کے نعرے لگاتے ہیں۔

وہ یقیناًبڑی جرات کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ یہ تو وہ مقام ہے جہاں الفاظ اپنا وجود کھو دیتے ہیں اور کیفیت اپنے اصل کی طرف لوٹ جاتی ہے عارفین کہتے ہیں کہ عشق ہڈیاں سرمہ نہ کر دے تو پھر وہ عشق نہ ہوا


عشق گر خاک نہ کر دے
تو ہوا خاک پھر عشق
عارفین کا قول ہے کہ خدا سے اس قدر محبت کرو کہ تمہارا سینہ روشن ہو جائے اور پھر خدا کے رسولؐ سے اس قدر محبت کرو کہ تمہارا سینہ پھٹ جائے تو اب امرِ خوض یہ ہے کہ جس کا سینہ پھٹ جائے وہ بھلا کیسے دنیاوی امور میں ہوس و حشم کا حامل ہو سکتا ہے یقیناً نہیں ہو سکتا عاشق اگر بقاء باللہ پر بھی مقیم ہو تب بھی اس سے اس امر کی توقع ممکن نہیں کہ وہ کسی جہل و مخرب التہذیب قول یا فعل کا ارتکاب کرے چہ جائیکہ عاشق مخبوط الحواس ہو۔


عشق جسے صوفیاء تصوف سے تعبیر کرتے ہیں یا تصوف جسے صوفیاء عشق سے تعبیر کرتے ہیں دراصل مخ الاسلام یعنی اسلام کا مغز ہے پس عشقِ الہی اسلام کی بنیاد اور عشقِ محمدؐیہ اسلام کا محور ہے، جس کے گرد پورا اسلام متحرک ہے قرآن میں عشق کی ابتدائی کیفیت کا ذکر ہے جسے ہم ایمان کہتے ہیں ایمان چونکہ ایک ابتدائی اور انتہائی آسان مقام ہے اس لئے خدا نے عام انسانوں سے اسی کا ہی مطالبہ کیا ہے ،مگر عارفین کا دل کہاں بھرتا ہے جب تک کہ وہ خدا کی محبت میں مستغرق نہ ہو جائیں انتہائی معروف روایت ہے آقائے نامدار ابد قرار فرماتے ہیں کہ" خدا کا ذکر اس قدر اپنے اندر جاگزیں کر لو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہنا شروع کر دیں" پس اسی دیوانگی کو صوفیاء عشق سے تعبیر کرتے ہیں سلطان العارفین حضرت سلطان باھو بہت خوبصورت طریق سے اس مقام کی رفعت بیان کرتے ہیں
ایمان سلامت ہر کوئی منگے عشق سلامت کوئی ھو
منگن ایمان شرماون عشقوں دل نوں غیرت ہوئی ھو
جس منزل تے عشق پچاوے ایمان خبر نہ کوئی ھو
عشق سلامت رکھیں باھو ایمان دیاں در وہی ھو
زمانہ بدل گیا ہے آج حمقاء کی روحانی تربیت کیلئے عارف کی خانقاہ رہی نہ پیر مغاں کا میکدہ، ذہنی خشکی اور روحانی خلا نے انسان کو ہوسِ زن زر اور زمین میں مبتلا کر دیا ہے پس ایسے میں دل مردہ کیوں نہ ہوں کون ہے جو عارف کے علاوہ زر کی چمک زن کے فریب اور زمین کی ہوس سے محفوظ رہ سکے ہاں اگر وہ عارف ہے کیونکہ عارف کا دل ہمہ وقت عشقِ محمدؐیہ کی لو سے منور رہتا ہے اس لئے دنیا کی کوئی بھی تاریکی اسے مردہ نہیں کر سکتی، بلکہ روشنی تو ہے ہی عشقِ محمدؐیہ کا دوسرا نام،حضرت عبدالرحمن جامی فرماتے ہیں
جہاں روشن است از جمالِ محمد ؐ
دلم زندہ شد از وصالِ محمد ؐ

مزید :

کالم -