حکومت کا ریموٹ کنٹر ول کس کے پاس ؟

حکومت کا ریموٹ کنٹر ول کس کے پاس ؟
حکومت کا ریموٹ کنٹر ول کس کے پاس ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاک فوج کی ثالثی یا مداخلت سے بالآخر فیض آباد میں ۲۱ دِن سے جاری دھرنا اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ بیشک ڈھائی سو سے زائد افراد اِس دھرنے میں زخمی ہوئے ہیں اور کُچھ ہلاک ہوئے ہیں تاہم پولیس کے اہل کار بھی اِس مُڈ بھیڑ میں کا فی تک ناکام رہے ہیں۔ حالانکہ اِنکی نفری پانچ ہزار کے لگ بھگ تھی۔ اسلحہ بھی ضر ورت کے مُطابق موجود تھا۔ پولیس اور ایف سی نے اپنی پلاننگ کے مُطابق دھرنے والوں پر حملہ کیا۔ لیکن پھر بھی سَب کو مُنہ کی کھانی پڑی۔ قوم سب جاننے کے لئے بیقرار ہے۔ اِس ناکام آپریشن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مُسلم لیگ کی موجودہ حکومت انتظامی اعتبار سے نہایت کمزور ہے۔ عمران خان کی بات کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے کہ حکومت کا ریموٹ کنٹرول کسی اور کے پاس ہے۔ مُحترم شاہد خاقان عباسی کی حکومت کو مکمل اختیار حاصل نہیں ہیں۔ نواز شریف یا اُنکے حواری شاہد خاقان کو اپنی مرضی سے فیصلے کرنے نہیں دیتے۔ کٹھ پُتلی اور بے بس قسم کی حکومت کا کسی کو بھی فائدہ نہیں۔ مُلک کا نظم و نسق چلانے کے لئے فیصلے دُرست اور بر وقت ہونے چاہیں۔ لیکن حکومت اپنے تیءں کوئی بھی فیصلہ لینے کیلئے مستعد نظر نہیں آتی۔ نواز شریف مُسلم لیگ (ن) کے سر براہ ہیں۔ حکومت اُنکی پارٹی کی ہے ۔ لیکن نواز شریف اپنی ہی پارٹی اور مُنتخب نمائیندے کے خلاف کارروائی کرکے موجودہ حکومت کو افسوسناک صورتِ حال سے دوچار کر د یتے ہیں۔ وزارتِ داخلہ اپنی نااہلی کو چھُپانے کے لئے اپنی ناکامی کا الزام فوج کے سر تھوپ رہی ہے۔سب سے پہلی بات توہ یہ ہے کہ وزارتِ داخلہ نے لبیک پارٹی کو لاہور سے آسلام آباد آنے ہی کیوں دیا؟ جب یہ لوگ دھرنا دینے کی پلاننگ کر رہے تھے۔ اُس وقت خُفیہ والے کیوں اِنکو روک نہیں سکے؟ یہ بات تسلیم کرنے کے لائق ہے کہ اداروں نے اپنی ذُمہ داری دُرست انداز نہیں نبھائی۔ پولیس کو بغیر کسی ٹھوس پلاننگ کے دھرنے کے لوگوں سے نبر د آز ما ہونے کے لئے بھیج دیا گیا۔ ؂
وزیر داخلہ اقبال احسن کے مُطابق پولیس نے یہ آپریشن اُ نکی اجازت کے بغیر انتظامیہ کے کہنے پر کیا۔ کیونکہ انتظامیہ پر ہائیکورٹ کی جانب سے دباؤ تھا کہ دھرنے کو ہر صورت ختم کیا جائے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ وزیر داخلہ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ واقعات کی تفصیل کو اگر مدِ نظر رکھا جائے تو یہ بات کھُل کر سامنے آتی ہے کہ اقبال احسن حقائق کو چُھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ اُنکو اعتماد میں نہیں لیا گیا تو سوال پید اہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا۔؟ اقبال احسن جب سے وزارتِ داخلہ میں بطور وزیر آئے ہیں۔ اِنکو ہمشیہ رینجرز اور دوسرے اداروں سے تکلیف رہی ہے۔ اں کی کوشش رہی کہ اپنی ناکامی کا ملبہ فوج پر ڈال دیا جائے۔ بعض واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ پولیس کا پورا آپریشن اقبال احسن کی مر ضی سے ہوُا۔ یہ آپریشن جان بُوجھ کر باد ل نخو استہ کیا گیا۔ تاکہ دُنیا کے لوگوں کہ یہ دکھایا جا سکے کہ نو از شریف کے بغیرکوئی بھی حکومت پاکستان کے حالات کو مو ثر انداز میں نہیں چلا سکتی۔ پولیس آپریشن جان بُوجھ کر ناکام بنایاگیا تاکہ فوج کو عوام کے ساتھ لڑایا جاسکے۔ بعض واقفانِ حال کے مُطابق پلان یہ تھا پولیس کو دھرنا ختم کرنے کے لئے کہا جائے۔ پولیس اِن دھرنہ والے لوگوں پر ہاتھ ہلکا رکھے۔ پولیس آپر یشن کے بعد لوگ حکومت سے مُطالبہ کریں کہ وہ آرمی کو دھرنہ ختم کرنے کے لئے استعمال کریں۔ اِس ساری گیم کا مقصد یہ تھا کہ فوج کو عوام کے خلاف لڑا دیا جائے ۔ تاکہ مُلک میں افراتفری پیدا کی جائے۔ یہ فوج کو بد نام کر نے کی پا لیسی تھی۔ لیکن فوج نے قبل از وقت اِس سازش کو بھانپ لیا تھا۔ انہوں نے وزیر اعظم کو یہ مشورہ دیا کہ معاملات کو خُوش تدبیر ی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذا وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے درخواست کی وُہ اِس نا گوار اور مُشکل صورتِ حال میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔لہذا فوج نے مزید قتل و غارت سے مُلک کوبچانے اور پاکستان کی امیج کرنے کے لئے فوج کو مصالحانہ انداز ا سے معا ملات کو سُلجھانے کی کو شش کی اور فوج کے افسران اِس دھرنے کو ختم کرنے کے لئے کوشاں ہو گئے۔
یاد رہے کہ دھرنا دینے والے صرف اور صرف فوج پر ا عتماد کرتے تھے۔ اُس و قت فوج کے سامنے مُلک کو دہشت گردی کو بچانے کے لئے یہی ایک راستہ تھا کہ دھرنے والوں کے جائز مطالبات کو تسلیم کر لیا جائے لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ فوج کی انتظامیہ عوام پر گولیا ں بر سا کر اپنی عوام میں پوزیشن خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔حالانکہ نواز شریف کی دِلی خواہش یہی تھی کے عوام فوج کے خلاف صف آراء ہو جائیں۔ مُلک میں افرا تفری پھیل جائے۔ لیکن فوج اِس سازش کی بُو کو وقت سے پہلے ہی سوُنگھ چکی تھی۔
نواز شریف اور فوج کے درمیان تعلقات ہمیشہ کشیدہ ہی رہے ہیں۔ اِسکی موٹی سی وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ نواز شریف بلا شرکتِ غیرے حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کویہ بات پسند نہیں کہ وُہ کسی دوسرے کو کسی بھی معاملے میں جوابدہ ہوں۔ وُہ طبعیت کے اعتبار سے با دشاہ ہیں۔ اپنی مرضی پوری نہ ہونے کی صُورت میں بازی کو الٹنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔وُہ اپنے ہوتے ہوئے شاہد خاقان کو حالات کے جبر کے تحت برداشت کر رہے ہیں۔ اپنی پارٹی کی حکومت کو مجبوری کے تحت برداشت کر ہے ہیں۔ اُنکا مطمع نظر خود وزیر اعظم بننا ہے۔ انہو ں نے دوبارہ وزیر اعظم کا عُندیہ حاصل کرنے کے لئے مبینہ طور پرامریکہ میں ایک خاص فرم خریدی ہے جس کا بنیادی کام پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا کرکے وزیر اعظم کو دُ وبارہ بحال کرانا ہے۔ اَب حکومت اپنی ناکامی چھُپانے کے لئے فوج کو حالیہ دھرنے کا ذمہ دار ٹھہر ا کر فوج کے کردار پر سوال اٹھا رہی ہے اور یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ فوج نے بغاوت کرکے نواز شریف کو عدلیہ سے معزول کروایا ہے۔ آئینی اعتبار سے فوج ایسا نہیں کر سکتی لیکن فوج ا پنے ہی عوام کے خلاف گولیا ں بھی نہیں چلا سکتی۔ ہمیں کسی کو بھی دُکھ نہیں دینا چاہئے۔ قانون اور آئین کے مُطابق چلنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ فوج کو بھی مُلکی صورتِ حال میں غیر آئینی اقدامات سے اجتناب کرنا چاہئے۔ لیکن عوام کو یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہئے کہ فوج مُلک کی بقا کے لئے کام کرتی ہے۔ اُسکی گولیاں اپنوں کے لئے نہیں بلکہ غیروں کے لئے ہوتی ہیں۔ فوج نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مُلک کو مزید قتل و غارت سے بچا لیا ہے۔ ہمیں اُنکے جذبے کی قدر کرنی چاہئے اور یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئیے کہ فوج کے افسروں نے مُلکی بھلائی کے لئے سب کُچھ کیا ہے۔ پاکستان کی حکومت خُود فوج کو اپنے معاملات سُلجھانے کے لئے درخواست کرتی ہے۔ فوج از خُود کبھی نہیں آتی۔سیاستدان اُن کو دعوت دے کر سیاست میں اُلجھا دیتے ہیں۔ اَب بھی فوج کو مارشل لاء لگانے کی دعوت ا شاروں اور کنایوں میں دی جا رہی ہے۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

.

ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزید :

بلاگ -