اقبال ؒ کی ایک رباعی

اقبال ؒ کی ایک رباعی
اقبال ؒ کی ایک رباعی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جوانی خوش گلی رنگین کلاہی
نگاہِ اوچو شیران بی پناہی
برمکتب علم میشی را بیا موخت
میسر نایدش برگ گیاہی
حل لغات:۔ جوانی، ایک نوجوان=ی، ایک= خوش، اچھی، خوب، جو اچھی لگے=گلی، گل، مٹی یعنی شکل، صورت، انسان مٹی سے بنایا گیا ہے، اس لئے اچھی شکل و صورت کو گل کہا گیا ہے، خوش گل، اچھی مٹی، مرکتب توصیفی= رنگین، کئی رنگوں والی،جس میں مختلف رنگ ہوں۔

رنگ228 ین، ین لاحقہ236 کلاہی، کلاہ228 ی، کلاہ، ٹو پی، ہیٹ236 ی، ایک236 کلاہ رنگین، مرکب توصیفی236 نگاہ اُو، اس کی236 نگاہ اُو، اس کی نظر، مرکب اضافی236چو،چون کا مخفف، جیسے، کی طرح= شیران، شیر کی طرح236 بی پناہی، بی، بغیر، کلمہ نفی236 پناہ، بچاؤ، بچنے کا ٹھکانا یا آسرا236 بی پناہی، جس سے بچنا نا ممکن ہو، جس سے بچا ہی نہ جاسکے236 بہ، سے، میں236 مکتب، مدرسہ، سکول، کالج، ظرفِ مکاں236 علم، جاننا، سیکھنا میشی، میش228 ی، میش، بھیڑ236 ی، یائے نسبتی236 علم میشی، بھیٹر کا علم، مرکب اضافی236 را، کو236 آموخت، آموختن مصدر سے ماضی مطلق واحد غائب، اس نے سیکھا، اس نے سیکھ لیا236 میسر، حاصل، دستیاب236 نایدش، ن228اید228ش، ن، نہ نہیں236 اید، آتا ہے، آمدن مصدر سے آمد ماضی مطلق اور آید فعل مضارع واحد غائب، آتا ہے236 ش، اسے، اس کو= برگ، پتا، پتی236 گیا ہی، گیاہ228ی ، گیاہ، گھاس236 ی، ایک236 برگِ گیاہی، گھاس کی ایک پتی، مرکب اضافی236 برگ، مضاف اور گیاہ، مضاف الیہ236
ترجمہ:
ایک خوبصورت اور رنگین ٹوپی والے نوجوان نے جس کی شیر کی طرح کی تیز نظر سے بچنا محال ہے، (اس نوجوان) نے مدرسے میں بھیڑ کا علم حاصل کرلیا اب اسے گھاس کی ایک پتی بھی میسر نہیں۔
شرح۔
اقبالؒ کے نزدیک علم دو طرح کا ہے ایک وہ علم جو انسان کو شیر جیسا بہادر اور نڈر بنا دیتا ہے، خوف انسان کی سرشت میں داخل نہیں ہونے دیتا، اس میں نہایت اعلیٰ اقدار پیدا کر دیتا ہے، انسان سوائے اپنے پروردگار کے کائنات کی کسی قوت اور خطرے کی پروا نہیں کرتا، یہی علم ہے جس کی بنا پر انسان اس کائنات کی ہر چیز کو تسخیر کرلیتا ہے۔ اس کائنات میں انسان کی زندگی کا مقصد یہی ہونا چاہئے کہ وہ کائنات کو پہلے تسخیر کرے اور پھر اس میں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے قوانین اور اصول رائج کرے۔
دوسرا وہ علم جس کو اقبالؒ علم میشی اور گوسفندی قرار دیتے ہیں، ایسا علم انسان کو بھیڑ بکری کی طرح بزدل بنا دیتا ہے، اسے سر جھکا کر زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتا ہے، اس میں عاجزی مسکینی اور شکم پرستی کے خصائل پیدا کرتا ہے، اور جب انسان میں یہ خصائل پیدا ہوجائیں تو پھر وہ عاجزی اور مسکینی اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے جو اس کو محکوم اور غلام بنا دیتی ہے، یہ عاجزی اور غلامی انسان کی قوتوں کو ضائع کردیتی ہے، پھر وہ ذلت کی زندگی بسر کرتا ہے، اقبالؒ کو انسان کی یہ حالت پسند نہیں، اس کا پورا کلام انسان کو محکومی سے باز رکھتا ہے،ذلت اور پستی سے نکل کر عزت اور غیرت سے زندہ رہنا سکھاتا ہے، مختصر یہ کہ علم شیری سے انسان مقام محمود پر فائز ہوجاتا ہے، جبکہ علم میشی اسے مقام ایاز تک ہی رہنے دیتا ہے۔
مندرجہ بالا اشعار میں اقبالؒ دور حاضر کے نوجوان پر تبصرہ کررہے ہیں کہ اس کی شکل و صورت نہایت حسین و جمیل ہے، یہ دیکھنے میں بڑا دلکش نظر آتا ہے، قدرت نے اس میں بہت اعلیٰ خوبیاں رکھ دی ہیں، اسے شیر جیسا دل اور مضبوط بازو دیئے ہیں، چیتے جیسی تیز نظر عطا کی ہے، اس کے اندر ہر وہ طاقت پیدا کی ہے جس کی اسے زندگی گزارنے کے لئے ضرورت ہے، لیکن یہ سب خوبیاں اور یہ ساری قوتیں اس میں مخفی ہیں، خود بخود کام نہیں کرتیں، انسان اگر ان قوتوں سے کام لینا چاہے تو اسے پہلے ان صلاحیتوں کو اپنے لئے فعال بنانا پڑتا ہے، کیونکہ یہ طاقتیں پوشیدہ ہیں اور خود بخود کام نہیں کرتیں، اس لئے ان کو اُجاگر کرنے کے لئے انسان کو پہلے کچھ کرنا پڑتا ہے۔اب یہ بے حد قوتوں اور صلاحیتوں والا نوجوان مدرسے میں چلا جاتا ہے، جہاں اسے علم سکھایا جاتا ہے، اس علم کو اقبال بھیڑ اور بکری کے علم سے مماثل قرار دیتے ہیں، یہاں یہ اپنے قیمتی اوصاف جو خدا نے اس میں مخفی رکھے ہیں ضائع کرنا شروع کردیتا ہے۔ علم میشی اسے بزدل بنا دیتا ہے، اس میں کوئی قابل قدر خوبی پیدا نہیں ہوتی۔ یہ زندگی کے راز نہیں سیکھ پاتا، یہ علم اسے شکم پرستی سکھاتا ہے۔ ڈگری لینے کے بعد یہ حصول رزق کو ہی اپنا مقصد حیات سمجھ لیتا ہے۔ اگر اسے سرکاری یا غیر سرکاری ملازمت مل جائے تو جائز و نا جائز ہر طریقے سے شکم پرستی ہی کرے گا۔ اگر یہ کسی جگہ اپنی کوئی خوبی دکھانا بھی چاہے تو حکام بالا جن کو خوش کرنے کے لئے یہ دن رات کام میں لگا رہتا ہے، ان کی ناراضگی کو مدِ نظر رکھ کر باز آجاتا ہے۔ چونکہ یہ اپنی نوکری کھونا نہیں چاہتا، مکمل پیٹ پرست بن چکا ہوتا ہے، اس لئے محکومی میں ہی ساری زندگی بسر کردیتا ہے:۔
اے پیٹ تیرے واسطے ہم کیا کیا بنے
مہدی بنے مسیح بنے اور مقتدا بنے
بے شرم تو پھر بھی بھرا نہیں گو ہم خیال میں
مہدی بنے مسیح بنے اور خدا بنے
الغرض انسان اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو بھی کھودیتا ہے اور اس سے ہاتھ بھی کچھ نہیں آتا، اب اقبالؒ کے اردو کلام سے بھی کچھ اشعار دیکھ لیجئے:
یہ مدرسہ یہ کھیل یہ غوغائے روا رؤ
اس عیش فراواں میں ہے ہر لحظہ غم نو
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دوکف جو
ناداں! ادب و فلسفہ کچھ چیز نہیں ہے
اسباب ہنر کے لئے لازم ہے تگ و دو
فطرت کے نوامیس پہ غالب ہے ہنر مند
شام اس کی ہے مانندِ سحر صاحب پر تو
وہ صاحب فن چاہے تو فن کی برکت سے
ٹپکے بدنِ مہر سے شبنم کی طرح ضو

مزید :

رائے -کالم -