قصہ کروڑ پتی ڈرائیور کا

قصہ کروڑ پتی ڈرائیور کا
قصہ کروڑ پتی ڈرائیور کا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حیران کن خبر ہے کہ سابق صدر پاکستان و چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور کے ایک ڈرائیور حمید سموں نے حکومت پاکستان کی نافذ کردہ ٹیکس ایمنسٹی کے تحت 65 کروڑ روپے کی مالیت کی دبئی میں موجود جائیدادیں اور نقد رقم ظاہر کی ہے۔

حمید نے اس سلسلے میں ایف بی آر میں ایک کروڑ تیس لاکھ روپے ٹیکس اور جرمانہ کی مد میں بھی جمع کرائے تھے۔ ایک ڈرائیور کیوں کر اس قدر مالیت کی جائیداد اور نقد رقم رکھ سکتا ہے۔ یہ تو اسی وقت ممکن ہے جب اسے مالکن کی آشیر بار حاصل ہو یا وہ ملازمت چھوڑ کر کچھ اور کررہا ہو۔

یہ ڈرائیور حمید وہ ہی شخص ہے، جس کے بارے میں کئی ماہ قبل تماش گاہ کے ایک کالم میں بتایا گیا تھا کہ فریال تالپور کا ڈرائیور بڑی رقم لے کر غائب ہو گیا تھا۔ فریال نے اپنے با اعتماد لوگوں سے مشورہ کیا کہ حمید کے خلاف پولیس میں مقدمہ درج کرا دیا جائے ۔ لوگوں نے مشورہ دیا تھا کہ ایسا نہ کیا جائے، کیونکہ یہ بھی تو بتانا پڑے گا کہ اتنی بڑی رقم حمید کے پاس کہا ں سے آئی۔ حمید نے اگر منہ کھول دیا تو راز راز نہیں رہے گا۔ اس کی ڈھونڈ پڑی اور پکڑا گیا تو اس نے چار کروڑ روپے کا حساب اس طرح دیا تھا کہ تین کروڑ تو خرچ ہو گئے ہیں، بقایا ایک کروڑ اس نے پیش کر دیئے تھے۔

فریال تالپور نے بے بسی سے کڑوا گھونٹ پی لیا تھا اور رازداں ڈارئیور کو دوبارہ رکھ لیا تھا کہ وہ ان کے رازوں کے علاوہ ہر قسم کی لین دین کے بارے میں جانتا تھا کہ کس رکن اسمبلی اور کس وزیر نے کتنی رقم ادا کی تھی، لیکن فریال کو کہاں علم تھا کہ ان کے بارے میں جب ایف آئی اے تحقیقات کرے گی تو گرہ در گرہ کھلنے والے ان کے کارنامے سامنے آجائیں گے ۔ وہ ہی ہوا جس کا ان کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا۔ اپنے ہی ہاتھوں بنے ہوئے جال میں وہ خود پھنس گئی ہیں۔

اپنے عروج کے زمانے میں وہ ہر ہر کام کے پیسے وصول کرتی تھیں اور ہر وزیر پر لازم تھا کہ انہیں ماہانہ مقرر کردہ رقم پہنچائے گا۔ کوئی فریال سے پوچھے کہ ان کے ایک ہی بیٹے نے نوجوانی میں خود کشی کرلی، ایک بیٹی ہے،جو ذہنی مریض ہے۔ جتنا پیسہ انہوں نے کمایا ، کہاں لے جائیں گی اور کیسے خرچ کریں گی۔ کئی سابق وزراء عدالتوں سے اپنی اپنی ضمانتیں قبل از گرفتاری کرانے میں مصروف ہیں، لیکن کب تک خیر منائیں گے۔ فریال خود آج کل اپنے بھائی آصف علی زرداری کے ہمراہ ایف آئی اے کی پیشیاں بھگتا رہی ہیں۔

ان کے خلاف بھی منی لانڈرنگ کے معاملات میں تحقیقات ہو رہی ہیں۔ حمید نے جب اتنی بھاری رقم کی ایمنیسٹی حاصل کی تو ایف آئی اے نے اس کی تلاش کی اور کھوج لگانا شروع کیا۔ ان کے شناختی کارڈ پر درج فریال تالپور کے کراچی والے گھر کا پتہ درج تھا جو مزید تفتیش کا سبب بنا۔ ایف آئی اے نے اس کے عمرکوٹ ضلع میں موجود مکان کا کھوج لگایا تو معلوم ہوا کہ وہ تو ’ادی‘ کا ڈرائیور ہے۔

اسے پاکستان سے اپریل 2017ء میں فرار کرایا گیا۔ وہ دبئی میں مقیم ہے اور ایف آئی اے کا اس سے کسی صورت رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔دبئی میں اس کے نام پر کئی جائیدادیں موجود ہیں، جس کا اس نے ایمنسٹی کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔یہ جائیدادیں ایسے علاقوں میں ہیں جہاں کروڑ پتی پاکستانیوں کی جائیدادیں موجود ہیں۔

ایمنیسٹی سکیم کے نفاذ کے وقت ناقدین نے سوالات اٹھائے تھا اور کہا تھا کہ اس اسکیم کے تحت ملک سے جانے والا دھن واپس لیا جائے گا جو واپسی پر سفید ہو جائے گا۔ حمید بھی کسی کی ہدایت کی روشنی میں یہ ہی کچھ کر رہا تھا ، تھر پارکر سے تعلق رکھنے والے کسی ڈرائیور کی کیا مجال کہ ہدایت کے بغیر کھانا بھی کھا سکے، لیکن ایف آئی اے نے کھوج لگا ہی لی۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بتائے کہ اس نے اس سکیم کے نفاذ سے پاکستان کی کیا خدمت کی؟ چوروں کو دانستہ تحفظ دینا مقصود تھا تاکہ ان کا سیاہ دھن سفید ہو جائے۔
آصف علی زرداری کی ہمشیرہ حالانکہ اچھے کھاتے پیتے زمیندار تالپور خاندان میں بیاہی گئی ہیں، بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندھ میں ان کی حیثیت سندھ کے ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ کی ہو گئی تھی، سید قائم علی شاہ تو ایک ایک ٹرانسفر اور تقرری کی ’’ادی‘ ‘ (سندھی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی بڑی بہن ہیں )سے اجازت لیتے تھے ۔ مراد علی شاہ پر انہوں نے ہاتھ ہلکا اس لئے رکھا ہوا ہے کہ وہ آصف علی کے ’’بلو آئی بوائے ‘‘ ہیں۔

کوئی بھی شخص خواہ ان سے عمر میں کتنا ہی بڑا ہو، انہیں ’’ادی‘‘ کہنے پر مجبور تھا۔ ان کے اختیارات ، اللہ کی پناہ، اتنے زیادہ تھے کہ وہ وزیراعلیٰ ، وزراء اور بڑے سرکاری افسران کو ڈکٹیٹ کیا کرتی تھیں۔ لوگ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہا کرتے تھے ۔ کیا اراکین قومی اسمبلی ، کیا صوبائی وزراء اور کیا صوبائی اراکین اسمبلی۔ پارٹی کے عہدیدار تو ویسے ہی بغرض ’’ ادی‘‘ پرفریفتہ تھے۔ ان کی حکمرانی کا حقیقی دور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد شروع ہوا۔ بے نظیر اپنے مزاج میں سخت گیر تھیں۔ وہ اپنی نندوں اور سسرالیوں کو ’منہ ‘ نہیں لگاتی تھیں ۔ بس اتنا ضرور کر دیتی تھیں کہ فریال کے شوہر منور علی تالپور کو اسمبلی کی رکنیت کا ٹکٹ دے دیا کرتی تھیں۔

اپنے دور میں انہوں نے ٹکٹوں کی آخری تقسیم کے موقع پر آصف علی زرداری کی سفارش پر منور کے بھائی انور کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ بادل نخواستہ دیا تھا۔ وہ تو ٹکٹ سید علی نواز شاہ کو دینا چاہتی تھیں، لیکن آصف کی سفارش آڑ ے آ گئی تھی، منور شریف النفس اور اپنے نظریہ پر مر مٹنے والے علی بخش تالپور کے بیٹے ہیں۔ علی بخش 1970ء کے انتخابات میں غلام محمد وسان جیسے اپنے سے بڑے زمیندار کو شکست دے کر کامیاب ہوئے تھے ۔

ان کی شرافت کاعالم یہ تھا کہ انتخابات کا نتیجہ آنے کے بعد دوسری صبح انہیں جتنے ہار پھول پڑے تھے ، بذات خود لے کر رئیس غلام محمد وسان کے گھر پہنچ گئے تھے ۔ جب بھٹو دور میں بلوچستان میں آپریشن کیا جارہا تھا تو یہ علی بخش ہی تھے جو مزاحمت کاروں کو باقاعدگی کے ساتھ کھانے پینے کا سامان خود پہنچاتے تھے ، اس ’’جرم‘‘ کی وجہ سے انہیں گرفتار کیا گیا اور اس قدر تشدد کیا گیا کہ ان کے سر میں ٹیومر ہو گیا اور اسی بیماری میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔
بے نظیر کی شہادت کے بعد فریال تالپور اس قدر با ہمت ہو گئی تھیں کہ وہ اپنے شوہر جنہیں وہ ’منو‘ پکارتی ہیں، منہ نہیں لگا تی ہیں۔ بھرے اجلاس میں وہ ’منو‘ کو جھڑک کر خاموش کردیا کرتی تھیں۔ ’منو‘ اپنے اکلوتے بیٹے کی خود کشی کے بعد دماغی طور پر اکثر غائب رہتے ہیں اور فریال کی حکمرانی میں زندہ رہتے ہیں۔سندھ کابینہ کا کونسا وزیر تھا جو ان کا مرہون منت نہیں تھا ۔

موجودہ کابینہ میں بلاول بھٹو زرداری نے ان کے سفارشی افراد میں سے ایک دو کو وزیر بنایا، لیکن بقایا کا انتخاب انہوں نے خود کیا تھا ۔ میر علی بخش تالپور کی بہو کے بارے میں کسی نے سوچا تک نہیں تھا کہ اس کا ایک ڈرایؤر اس حد تک امیر و کبیر ہوجائے گا کہ اسے ٹیکس ایمنیسٹی کو درخواست دینا پڑے گی اور ٹیکس اور جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔ وہ خود کس حد تک حقیقی دولت مند ہوں گی، اس کا اندازہ تو آنے والے دنوں میں ہی ہو سکے گا۔

مزید :

رائے -کالم -