نئے چیف سیکرٹری گڈ گورننس کو محور سمجھے جانے لگے!
تجزیہ؛۔جاوید قبال
پنجاب میں چوتھی مرتبہ۔ نیچے سے لے کر اوپر تک اور اوپر سے نیچے تک اکھاڑ بچھاڑ کے بعد کیا حقیقی تبدیلی آگئی ہے یا پکچر ابھی باقی ہے یاپھر بڑی قربانی بھی باقی ہے؟ سنا تو یہ جا رہا ہے کہ اس بار بھی وزیراعلی پنچاب عثمان بزدار صوبے میں عام آدمی تک حکومت کی گڈ گورننس کے اثرات نہ پہنچنے کا ذمہ دار پنجاب کی بیوروکریسی کو قرار دے کر خود بھی بچ گئے اور اپنی کابینہ کے 52 فیصد وزراء جن کی کارکردگی پر وزیراعظم سرخ نشان لگا چکے تھے انکو بھی بچا لیا مگر کیا ایسا مزید چل سکے گا؟خدانخواستہ صوبے میں حقیقی تبدیلی کے لیے لائے گئے میجر (ر) اعظم سلمان چیف سیکرٹری اور منہ زور پولیس کے سربراہ شعیب دستگیر بھی ٹاسک اچیوکرنے میں ناکام رہے تو پھر قربانی کس کی ہو گی؟یہ وہ سوال ہیں جو زبان عام ہیں اگرچہ چیف سیکرٹری پنجاب اعظم سلمان کے ماضی پر سوائے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری کے کسی نے انگلی نہیں اٹھائی وہ پنجاب کے سیکرٹری داخلہ کے بعد مرکز میں سیکرٹری داخلہ کے طور پر اپنی کارکردگی کے جھنڈے گاڑھ چکے ہیں دونوں اہم ترین عہدوں پر انہوں نے اپنی کارکردگی سے ثابت کیاکہ وہ ایک انتہائی محنتی اور فرض شناس آفیسر ہیں یہ بھی کہا جا رہاہے کہ وہ مرکز سے پنجاب میں بطور چیف سیکرٹری آتے وقت اختیارات لے کر آئے ہیں مگر آتے ہی انہوں نے صوبہ کے طول وارض میں افسر شاہی کو ہلا کر رکھ دیا ہے اپنی تعیناتی کے چوبیس گھنٹے کے اندر وہ اپنی ٹیم بنانے میں بڑی حد تک کامیاب تو ہو گئے ہیں مگر موجودہ حکومت کے پہلے اٹھارہ ماہ میں پانچ مرتبہ افسر شاہی کے تبادلوں نے افسروں کو ہلا ئے رکھا۔حقیقت یہ ہے کہ آئے روز تبادلوں نے ان کو جم کر کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔افسر شاہی میں اس طرح کے آئے روز کے تبادلوں سے بد دلی اور بے یقینی پائی جا رہی اور وہ اس حکومت کو ایک میچور حکومت قرار نہیں دیتے شاید یہی وجہ ہے کہ آئے روز کے تبادلوں کی زد میں رہنے کے باعث افسر شاہی دل جمی سے کام نہیں کر رہی ان کاکہنا ہے کہ اگر صوبے میں حکومت کی گڈ گورننس کے اثرات نہیں پہنچ رہے تو اس کے ذمے دار حکومت کے وزراء اور مشیر اور پی ٹی آئی میں وہ گروپ بندی ہے جو یکسو ئی سے کام کرنے والوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے صوبے میں ٹیم کے کیپٹن کے ویژن کیمطابق کام کیا جارہا ہے مگر جب کپتان کا ویژن ہی کلیر نا ہو اور اس کی سوچ پر بھی اوپر والوں کا قبضہ ہو تو ثمرات کیسے سامنے آسکتے ہیں باقی باتیں اپنی جگہ،ٹیم کی کامیابی اورناکامی کا سہرا کپتان کے سر ہوتا ہے کھلاڑیوں کے سر نہیں۔ہمارے ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ پکچر ابھی باقی ہے آج وزیر اعظم پاکستان عمران خان جب لاہور آئیں گے تو پنجاب کابینہ کا اجلاس بھی ہو گا جس کی وہ صدارت کریں گے جس میں اور جس کے بعد افسر شاہی کے ساتھ ساتھ سیاسی وزراء کا بھی یوم ِ حساب آئے گا اور یہی ہوگا جو آجکل افسروں کے ساتھ ہو رہا ہے چونکہ اگر نکمے محکموں کے تبدیل کیے گئے افسروں کے سربراہان وزراء سے حساب نہ لیا گیا تو پھر صوبے میں افسر شاہی میں مزید بددلی پھیلے گی اور جو نتائج حکومت افسر شاہی سے لینا چاہتی ہے پھر شاید ہی حاصل ہو سکیں۔
تجزیہ جاوید اقبال