شرارتی مرغا
ابھی شہلا نے سونے کے لئے آنکھیں بند ہی کی تھیں کہ اچانک ایک آواز آئی شہلا نے آنکھیں کھولیں یہ کیسی آواز ہے؟ پڑ۔۔۔۔ پڑ پڑ۔ اسے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ پڑوس کی مرغیاں پھر لان میں گھس آئی ہیں۔ وہ جلدی سے اٹھی اور لان میں پہنچی۔ دو مرغیاں بڑی بے فکری سے کیاریوں میں گھوم پھر رہی تھیں۔ اس نے دیکھا کہ پھول والے پودوں کے سب پتے وہ کھا چکی ہیں۔ غصے کے مارے شہلا کا برا حال ہو گیا ان مرغیوں کی یہ جرات اتنے مہنگے پودوں کو ایسے مزے سے چٹ کر گئیں کہ جیسے ان کی دعوت کرنے کے لئے ہی تو نرسری سے خرید کر لایا گیا تھا اس کا جی چاہا کہ مرغیوں کو پکڑ کر ان کا ٹینٹوا ہی دبا دے مگر یہ کام خاصا مشکل تھا بھلا میں کیسے ان کو پکڑوں اور پھر ان کا گلہ دبا دوں نہ بابا۔ یہ کام میرے بس کا نہیں شہلا نے سوچا مرغیوں کو لان سے باہر نکالنے کے لئے قریب جا کر شی شی کی آواز نکالی تو وہ باہر جانے کی بجائے اور پیچھے کی طرف دوڑنے لگیں اس نے اب دوسری طرف کو گھوم کر انہیں بھگایا تھوڑی سی جدوجہد کے بعد وہ گیٹ سے نکل کر باہر چلی گئیں۔
شہلا نے سکھ کا سانس لیا توبہ میری نیند کا ستیاناس کر دیا بدتمیز مرغیوں نے! شہلا نے واپس کمرے کا رخ کیا ہی تھا کہ پھرکسی مرغے کی آواز کانوں سے ٹکرائی اچھا تو اب بھی کوئی مرغا موجود ہے اس نے لان کے ایک کونے کی طرف غور سے دیکھا تو سرخی مائل براؤن رنگ کا مرغا آرام سے کھڑا اسے دیکھ رہا ہے۔ کیوں مسٹر مرغے تمہیں ذرا بھی شرم نہیں آتی بلا اجازت کسی کے گھر میں گھس جاتے ہو شہلا نے جل کر کہا لیکن مرغے کو بھلا اس کے غصے کی کب پرواہ تھی وہ صاحب مزے سے بانگیں دینے میں مصروف ہو گئے۔ شہلا نے اسے بھگایا تو وہ آنکھ مچولی کھیلنے پر اتر آیا کبھی ایک جھاڑی کے پیچھے جا چھپتا کبھی دوڑ لگانے لگتا اتنی دیر میں سارہ بھی باہر نکل آئی۔ ہائے ہائے یہ کیا ہو رہا ہے باجی! شہلا زور سے ہنسی۔ ذرا اسے باہر بھگاؤ نا شہلا نے کہا۔ یہ بڑا بدتمیز مرغا ہے اس قدر تنگ کرتا ہے بار بار ہمارے گھر میں گھس آتا ہے اور پتہ ہے اس نے وہ ساری پنیری خراب کر دی جو مالی نے لگائی تھی سارہ بولی! یہ مرغیاں آخر ہیں کس کی؟ اس نے پوچھا اور یہاں آئی کیوں ہیں۔ یہ رانی کے گھر والوں کی ہیں جو کالے گیٹ والے گھر میں رہتے ہیں سارہ نے کہا۔ امی نے ارم کو اس کے گھر بھیجا تھا کہ اپنے مرغے مرغیوں کو اپنے گھر کے اندر رکھیں مگر وہ لوگ کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور ہمارے گھر میں گھس کر یہ پھول پودے خراب کر دیتی ہیں۔ سارہ بولی، اب تو اس شرارتی مرغے کا کوئی علاج کرنا پڑے گا کہ یہ دوبارہ کبھی ہمارے گھر نہ آئے شہلا بولی۔ ہاں بالکل سارہ نے بھی ہاں میں ہاں ملائی، ٹھیک ہے۔ ارم کو بلاؤ شہلا نے کہا۔ سارہ اسے بلا کے لے آئی۔ ارم یہ مرغا ہے اسے پکڑ کے اندر بند کرنا ہے۔ شہلا نے کہا، بند کرنا ہے؟ وہ حیرت سے بولی، یہ ہر روز گھر میں آ جاتا ہے اور پودے خراب کرتا ہے ان کے گھر والوں کو امی نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ انہیں آپ سنبھال رک رکھیں مگر یہ باز نہیں آتے سارہ بولی۔ ہاں اب لگے گا پتہ ادھر سے تم دروازہ بند کرو اور اندر لے جا کر اسے باندھ دو یا بند کر دو۔ جی باجی ٹھیک ہے ارم خوش ہو کر بولی۔ باجی اسے ذبح کر لیں پھر اس کا قورمہ بنا لیں گے۔ ارے پاگل ہے تو! شہلا نے اس کے منصوبے پر پانی پھیر دیا اسے بند کرو جب شام ہو گی اور گھر والے اسے ڈھونڈنے آئیں گے تو مزہ آئے گا سارہ بولی۔ جی ٹھیک ہے پھر شام کو واپس کر دیں گے۔ ارم نے پوچھا ہاں اور کیا۔ شہلا نے آرام سے کہا۔ ارم مرغے کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگی کیونکہ اب وہ زور زور سے شور مچا رہا تھا اور دائیں بائیں دوڑیں بھی لگا رہا تھا۔ ا رم کی بہن گڑیا اور بھائی نثار بھی مرغے کو قابو کرنے کی کوشش میں شامل ہو گئے۔ شہلا اور سارہ اندر آ گئیں۔
پرسوں بھی میں اور ارم مرغیوں کی شکایت کرنے رانی کے گھر گئے تو ان کی امی بولیں دیکھیں ہم نے مرغیوں کے لئے اتنا اچھا ڈربہ بنایا ہے۔ اتنا اچھا اس کے اوپر پینٹ کرایا ہے۔ اس کی چھت بھی اتنی اچھی ہے۔ آپ بے شک اندر آئیں اور گھر دیکھیں۔ انہوں نے بچیوں کو گھر کے معائنے کی دعوت دی آپ نے ان کے گھر میں قالین بھی ڈالا ہو گا آنٹی۔ سارہ نے پوچھا اور شرارت سے مسکرائی۔ نہیں بیٹا قالین تو نہیں ڈالا مگر اس میں اے سی لگانے کا سوچ رہی ہوں۔ وہ بھی مسکرائیں۔ آپ آئیں نا اندر آ کر ان کا گھر دیکھیں انہوں نے پھر دعوت دی نہیں جی بس شکریہ! آنٹی اتنے اچھے گھر میں یہ مرغے مرغیاں رہتے کیوں نہیں ارم نے پوچھا۔ پرندے ہی تو ہیں نا یہ، گیٹ کھلا دیکھ کر باہر نکل جاتے ہیں یہ باہر خوش رہتے ہیں۔ آنٹی یہ ہمارے پودے خراب کرتے ہیں۔ آپ انہیں روکیں۔ نہیں نہیں یہ ذرا نا سمجھ ہیں آپ لوگ ناراض نہ ہوا کریں انہوں نے کہا۔ آپ اپنے گھر کا گیٹ بند رکھا کریں نا! ارم نے کہا۔ اچھا بیٹے ٹھیک ہے انہوں نے جواب دیا۔ بچیاں واپس آ گئیں۔ لیکن مرغیوں کا گھر میں آنا جانا بند نہ ہوا۔ باجی مرغے کو میں نے باندھ دیا ہے درخت کے ساتھ بڑی مشکل سے قابو آیا ہے۔ ارم نے اندر آ کر بتایا چلو ٹھیک ہے شہلا نے ارم سے کہا اس کو ذرا پانی ڈال دینا اور دانہ بھی۔ ہاں میں ابھی ڈالتی ہوں ارم نے جواب دیا۔ نثار اس کے آگے گھاس ڈال رہا ہے ارم نے بتایا”یہ کوئی بکرا ہے جو گھاس کھائے گا اس کو روٹی کے چھوٹے ٹکڑے کر کے دو شہلا نے کہا۔ سارہ کو زور سے ہنسی آئی۔ باجی پچھلے ہفتے مالی نے بتایا کہ مرغیاں سب پنیری کھا گئی ہیں تو امی نے مالی کو ان کے گھر بھیجا کہ جا کر انہیں بتا کر آؤ۔ مالی ان کے گھر گیا تو رانی کے ابو کہنے لگے یہ تو جانور ہیں ان کی مرضی جہاں چاہے جائیں ہم ان کو بھلا کیسے روکیں۔ مالی کو غصہ آیا کہنے لگا اب اگر یہ ہمارے لان میں آئیں تو ہم ان کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ وہ پھر بولا مرغیوں کو ایسی دوا ڈالوں گا کہ یہ مر جائیں گی۔ سب کا ہنس ہنس کے برا حال ہو گیا ذرا دیر بعد شہلا کتاب پڑھنے لگی پھر اسے نیند آ گئی وہ سو گئی۔
مغرب کے وقت آنکھ کھلی امی نے مرغے کو گھر میں دیکھا تو حیران ہوئیں۔ ارم نے ساری بات بتا دی ارے چھوڑ دو مرغا، دیکھو یہ پرایا جانور ہے۔ وہ لوگ پریشان ہوں گے۔ اچھا ہے نا ذرا وہ بھی تو پریشان ہوں۔ ہمارے پودوں کا خیال کرتے نہیں شہلا بولی۔ اب سب لوگ انتظار کرنے لگے کہ وہ مرغے کو تلاش کرنے آئیں گے وقت گزرتا جا رہا تھا کوئی بھی نہ آیا شام کے چھ بج گئے سردیوں میں تو دن چھوٹے ہوتے ہیں اندھیرا جلدی ہو جاتا ہے سات بج گئے کوئی مرغے کو ڈھونڈنے نہیں آیا۔ ہو سکتا ہے ان کا نوکر مرغیوں کو ڈربے میں بند کرتا ہو وہ کام چور آدمی ہو اور اس نے یہ دیکھا ہی نہ ہو کہ مرغا غائب ہے اور بے فکری سے اپنے کام میں لگ گیا ہو سارہ نے اندازہ لگایا۔ مگر انہوں نے مرغے کی گمشدگی کا نوٹس ہی نہ لیا تو ہم اس مرغے کا کیا کریں گے کہیں رات کو یہ سردی سے مر ہی نہ جائے ہم پر تو مرغے کو مارنے کا الزام لگ جائیگا شہلا نے کہا۔ وہ فکرمند ہو گئی۔ پھر کیا کریں۔ سارہ نے کہا ارے مرغے کو ان کے گھر دے آؤ جا کر۔ امی جی نے کہا نہیں نہیں ایسے مفت میں مرغا نہیں دیتے سارہ بولی۔ اتنی دیر میں نثار اندر آیا۔ باجی رانی کیا بو اور اس کے بھائی مرغا ڈھونڈتے پھر رہے ہیں گلی میں۔ اچھا یہ ہوئی نا بات ذرا پریشان تو ہوں! شہلا خوش ہو کے بولی اب آئے گا مزہ! پڑوس سے خالہ جی آ گئیں خالہ جی محلے کی خبریں پہنچانے میں بڑی ماہر ہیں انہوں نے بتایا کہ پچھلے ہفتے بلو کی مرغیاں تارہ کے گھر جا گھسیں تو تارہ کی امی نے پولیس والوں کو فون کر دیا پولیس والے فوراً بلو کی امی کے گھر جا پہنچے اور انہیں ڈرایا دھمکایا آئندہ آپ کی مرغیاں ان کے گھر نہ جائیں انہیں روک کے رکھیں۔ خالہ جی تو چائے پی کر چلی گئیں شہلا نے ان کے جاتے ہی پولیس کو احتیاطاً فون کر دیا۔ باجی کتنا مزہ آئے گا رانی لوگ مرغے کو ڈھونڈنے ہمارے گھر آئیں۔ ارم نے کہا۔ ہاں آنا تو چاہیے۔ انہیں اپنے مرغے سے بہت پیار ہو گا۔ شہلا بولی۔ اگر وہ نہ آئے تو سارہ بولی۔ ایسا کرو کہ اگر وہ لوگ تھوڑی دیر تک اپنا مرغا نہ لینے آئے تو تم انہیں جا کر بتا آنا کہ مرغا ہمارے گھر میں ہے اور آ کر لے جائیں۔ امی نے رائے دی۔ اس طرح تو مزہ نہیں آئے گا۔ شہلا بولی ابھی مت جانا اچانک دروازے کی گھنٹی زور زور سے بجی ارم نے جا کر دیکھا تو رانی، اس کی امی، اس کا نوکر اور بھائی چار پانچ لوگ کھڑے تھے۔ کہاں ہے تمہاری بیگم صاحبہ تم لوگوں نے ہمارا مرغا چرایا ہے ارم ان کا غصہ دیکھ کر ڈر گئی وہ بھاگی ہوئی اندر آئی۔ باجی باجی وہ لوگ لڑنے کے لئے آ گئے ہیں وہ سب بہت غصے میں ہیں انہیں اندر بلاؤ۔ ہم بھی دیکھتے ہیں۔ آئیے آنٹی اندر آئیے شہلا نے مسکرا کر کہا”آپ لوگوں نے ہمارا مرغا پکڑا ہے“ رانی بولی۔ وہ بڑے غصے میں تھی مرغا چرانا کوئی اچھی بات نہیں ہم دو گھنٹے سے مرغا ڈھونڈ رہے ہیں آپ لوگ چور ہیں۔ رانی کے نوکر نے کہا۔ ان کا غصہ دیکھ کر شہلا کو بھی غصہ آ گیا۔ ہم چور نہیں ہیں مگر ہم نے مرغا ضرور پکڑا ہے۔ یہ بتائیے کہ اگر یہ آپ کا مرغا ہے تو یہ ہمارے گھر کیا کرنے آتا ہے شہلا نے پوچھا۔ واہ یہ کیا بات ہے۔ مرغا چلنے پھرنے والا جانور ہے اس کو اب رسی سے باندھ کر تو نہیں رکھا جا سکتا۔ رانی کی امی بولیں۔ آپ نے مرغا پکڑا کیوں۔ کس کی اجازت سے پکڑا یہ تو چوری ہوئی۔ جی یہ کوئی ان کی خالہ جی کا گھر تو نہیں ہے نا کہ جہاں جی چاہے مرغے جا گھسیں وہ تو شکر کریں کہ ہم نے ابھی اس کی ٹانگیں نہیں توڑیں آپ کو کئی دفعہ بتایا کہ مرغے کو روکیں سارے پودے خراب کر دیئے آپ نے کوئی پرواہ نہ کی آپ کی بلا سے کسی کے پودے خراب ہوں تو ہو جائیں کیوں جی! ہمارے گھر کے اندر ہمارے پودے محفوظ نہ ہوں باہر سے آ کر جانور انہیں خراب کریں جی نہیں ایسا نہیں ہو گا سارہ بولی۔ رانی بولی آپ ہمارا مرغا دیں ورنہ ہم پولیس کو بلا لیں گے۔ اچھا الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے! رانی کی امی نے کہا ہم انہیں مزہ چکھائیں گے انہوں نے ہمارا مرغا پکڑا ہے۔ اتنے میں پولیس آ گئی اور سب چپ ہو گئے۔ ہاں جی یہ کس کی مرغیاں ہیں جو پڑوس کی فصلیں خراب کرتی ہیں یہ سنتے ہی ان لوگوں کے چہرے فق ہو گئے۔ جی ان لوگوں کی مرغیاں ہیں اور الٹا یہ ہمیں الزام دے رہے ہیں سارہ بولی۔ رانی اور اس کی امی گھبرا گئیں۔ نہیں ہم لڑنے نہیں آئے ہم تو دعا سلام کرنے آئے تھے پڑوس میں یہ تو بہت ہی اچھے ہیں۔ پولیس والے نے کہا چلیں جی چلیں۔ آپ لوگوں کو تھانے چلنا پڑے گا وہیں سب تفتیش ہو گی۔ پولیس والے نے کہا کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے جانوروں کو کسی اور کے گھر جانے دے اور ان کا نقصان ہو۔ رانی کی امی بولیں ہمیں معاف کر دیں مرغا اب ادھر کبھی نہیں آئے گا۔ نہیں نہیں آپ لوگ بیٹھیں تشریف رکھیں۔ شہلا بولی نہیں نہیں بس ہمیں جانا ہے چلو چلو۔ ارے آنٹی مرغا تو لیتی جائیں۔ ارم نے ہنس کر کہا وہ تو مرغا چھوڑ چھاڑ کے بھاگ گئے۔ شہلا اور سارہ کو زور کی ہنسی آئی انکل آپ کا بہت شکریہ یہ لوگ تو ہم سے لڑنے آ گئے تھے۔ پولیس کانسٹیبل بولا ہم تو جی انصاف کی بات کرتے ہیں پولیس جانے کے بعد شہلا نے ارم کے ہاتھ مرغا بھجوا دیا اور پھر مرغا کبھی ادھر نہ آیا۔