انسانیت کو ایک اور وبا کا سامنا

 انسانیت کو ایک اور وبا کا سامنا
 انسانیت کو ایک اور وبا کا سامنا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ابھی ایک مصیبت، ایک آفت، ایک آزمائش سے عالمِ انسانیت کی جان پوری طرح نہیں چھوٹی تھی کہ اس سے بڑھ کر خوفناک وباء وارد ہو گئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ نئی وبا کورونا کی ہی ایک قسم (دیرنیٹ) ہے مگر زیادہ خطرناک ہے۔ اس کا نام یونانی زبان سے ”اومیکرون“ لیا گیا ہے۔ فوری ملنے والی اطلاعات کے مطابق جن لوگوں نے کورونا کی ویکسین کرا رکھی ہے اگر وہ بوسٹر ڈوز لگوا لیں تو بچے رہنے کا امکان موجود ہے۔ ابھی تک کے اعداد و شمار کے مطابق ویکسین کرانے والوں کو اس وائرس نے اس طرح متاثر نہیں کیا جس طرح غیر ویکسین والوں کو کیا ہے۔ اس کے باوجود دنیا ایک خوف کی لپیٹ میں آ گئی ہے۔ کورونا کا زور کم ہونے پر جو پابندیاں اٹھائی گئی تھیں وہ اب دوبارہ لگائی جا رہی ہیں۔ اس وائرس کا پھیلاؤ جنوبی افریقہ کے ممالک سے ہونے کی اطلاعات کے باعث سب سے پہلی پابندیاں جنوبی افریقی ممالک پر ہی لگائی گئی ہیں۔ جنوبی افریقہ، موزمبیق، نمبیبا، لیسوتھو، لوسوانیہ، ایستوانیا کے علاوہ ہانگ کانگ پر سفری پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ برطانیہ میں پھر سے پبلک مقامات پر ماسک لگانے کی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ پابندی والے ممالک سے صرف ایمرجنسی کی صورت میں پاکستانیوں کو پاکستان آنے کی اجازت دی جائے گی۔ یورپی یونین کے علاوہ امریکہ میں بھی اس خطرے کے تدارک کے لئے ایمر جنسی اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ سعودی عرب، بحرین، کینڈا نے بھی افریقی ممالک کی پروازیں بند کر دی ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ جنوبی افریقہ سے یورپ آنے والی پروازوں کے مسافروں کے ٹیسٹ پازیٹو آنا ہے۔

اگر یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا اور وبائی صورتحال خراب ہونے لگی تو پابندیوں میں بھی یقیناً اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ حال ہی میں کورونا کے تجربے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس سے انسانی جانوں کے لئے جو خطرات پیدا ہوئے ہیں اس سے کہیں بڑھ کر اقتصادی مسائل پیدا ہوتے ہیں جو وائرس سے بچ جانے والوں کی زندگی  اجیرن کر دیتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری اور مہنگائی کا ہوتا ہے۔ کاروبار تباہ ہو جاتے ہیں، صنعت کا پہیہ جام ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ جان لیوا وائرس سے متاثر ہونے والے بہت سے لوگ راہی ملک عدم ہو جاتے ہیں جو مرنے سے محفوظ رہتے ہیں وہ غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ وطن عزیز میں حکومت نے بڑی دانشمندی سے مکمل لاک ڈاؤن سے پرہیز کرتے ہوئے سمارٹ لاک ڈاؤن کا طریقہ اپنایا اور معیشت کو حتی الامکان کم سے کم بریکیں لگائیں۔ اس کے باوجود جب پابندیاں ختم ہوئیں تو مہنگائی کے عفریت نے شہریوں کو جکڑ لیا اور الزام سارے کا سارا حکومت پر آ گیا۔ اب اگر ایک بار پھر پابندیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تو بہت سے لوگ جیتے جی مر جائیں گے۔ تعمیرات اور ٹریولنگ کا شعبہ پہلے بھی بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ پابندیوں میں نرمی کے بعد تعمیرات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں اس سے وابستہ پچیس تیس صنعتیں بھی بحال ہو گئی تھیں۔ تاہم ٹریولنگ کا کاروبار پوری طرح بحال نہ ہو سکا تھا توقع تھی کہ ایک آدھ ماہ میں عمرہ اور حج کھل جائیں گے تو معیشت کا یہ شعبہ بھی رواں دواں ہو جائے گا۔

مگر اب خطرات پھر سے منڈلانے لگے ہیں۔ گزشتہ ہفتے امریکہ، چین اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تیل کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کرنے کے لئے بعض اقدامات کا فیصلہ کیا تھا۔ ان میں ایک تیل کی پیداوار میں اضافہ اور دوسرا تیل کے اپنے محفوظ ذخائر میں سے تیل عالمی منڈی میں ڈالنے کے اعلانات ملے تھے اب ”اومیکرون“ کی خبریں پھیلتے ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں سات ڈالر فی بیرل سے بھی زیادہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اگر ان چار ممالک نے اپنے اعلانات پر عمل کیا تو توقع کی جا سکتی ہے کہ بگٹٹ بھاگتی مہنگائی کو کچھ نہ کچھ بریکیں لگائی جا سکیں گی۔ ہمارے ہمسایہ ممالک خصوصاً بھارت نے پٹرول پر ٹیکس کی شرح کم کر کے عوام کو ریلیف دینے اور مہنگائی کا جن قابو کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے ہاں بھی اس ضمن میں سوچا جانا چاہئے۔ مگر معاملہ کچھ یوں ہے کہ ہم عالمی منڈی کے نرخوں کو ہی بنیاد بنا کر اپنے ہاں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کرتے ہیں حکومتیں اپنی کمائی کم کرنے پر تیار نہیں ہوتیں۔ شاید ہماری معیشت کی موجودہ صورتحال میں حکومتوں کے پاس کمائی اور بجٹ پورا کرنے کے متبادل راستے محدود ہیں۔ اب عالمی منڈی میں یکدم قیمتیں کم ہونے اور چار ملکوں کی طرف سے اپنے ذخائر منڈی میں لانے کے باعث 15 دسمبر سے قیمتوں میں  قابل ذکر کمی کا امکان موجود ہے۔

خدا کرے کہ اس کا فائدہ عوام تک بھی پہنچے اور مہنگائی اگر کم نہیں کی جاتی تو کم از کم اس میں تیزی رفتار اضافے کو روک لیا جائے۔ یوں بھی بیماری اور وبا میں ایک طرف وسائل آمدنی کم ہوتے ہیں تو دوسری طرف اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس سے گھر گھر معاشی مسائل جنم لیتے ہیں۔ اچھی حکومتیں ایسے مواقع پر خود آگے بڑھ کر عوام کا بوجھ بٹاتی اور ریلیف کے مختلف اقدامات کرتی ہیں۔ پہلی دعا تو یہی ہونی چاہئے کہ پہلے سے دکھی انسانیت کسی بھی نئے بحران سے محفوظ رہے اور ”اومیکرون“ بے قابو نہ ہو۔ اس کے تدارک کے سامان ہو جائیں اور پھیلاؤ روک لیا جائے۔ دوسرے حکومتوں اور عالمی اداروں کو چوکس رہ کر عوام کی مشکلات کم کرنے کی مقامی اور عالمی پالیسیوں کا جلد از جلد انتظام کر لینا چاہئے۔ پاکستان جیسے کم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کو اس وقت عالمی اداروں اور خوشحال ممالک کے اقتصادی تعاون کی اشد ضرورت ہو گی۔ اگر اس موقع پر اس میں کوتاہی برتی گئی تو انسانی المیئے جنم لے سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قسم کی کسی بھی صورتحال سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

مزید :

رائے -کالم -