کیا بھگت سنگھ دہشت گرد تھا؟

کیا بھگت سنگھ دہشت گرد تھا؟
کیا بھگت سنگھ دہشت گرد تھا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: پروفیسر عزیز الدین احمد
قسط:119
بھگت سنگھ کے سانڈرس کے قتل میں ملوث ہو نے کی بنا ءپر اسے برطانوی حکومت نے دہشت گرد قرار دیا۔ تاہم وہ اس الزام کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا تھا۔ بھگت سنگھ جب پھانسی چڑھا تو وہ 24 سال کا تھا۔1921 ءمیں نیشنل کالج میں داخلے کے بعد اس نے آزادی ہند کی جدو جہد میں حصہ لینا شروع کیا۔ اس لحاظ سے اس کی سیاسی زندگی10 سال کے مختصر عرصے پر محیط تھی۔ وہ سیاست کے افق پر شہاب ثاقب کی طرح ابھرا ، اور ملک بھر میں روشنی پھیلا کر خاکستر میں تبدیل ہو گیا۔ اس نے سیاسی پسپائی کے دور میں جب عوام مایوسی کا شکار ہونے لگے تھے ان کے حوصلے بلند کیے۔ اور اپنی قربانی سے جدو جہد کی ایسی مثال قائم کی جس نے نوجوانوں سے لے کر بوڑھے سیاستدانوں تک کا خون گرما دیا۔اس کی اس خدمت کا اعتراف کرنے والوں میں ہر طبقہ فکر کے سیاستدان شامل تھے جن میں ایک طرف پنڈت نہرو تو دوسری طرف محمد علی جناح بھی تھے۔
ان10 برسوں کے دوران بھگت سنگھ کی سوچ میں ایک واضح ارتقاءنظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے عملی سیاست میںقدم رکھنے کے سا تھ ساتھ سیاسی نظریات کا بھی بغور مطالعہ بھی جاری رکھا۔ ابتدا ءمیں وہ محض قوم پرست تھا اور ا س کے سامنے آزادی ہند کے علاوہ اور کو ئی واضح منزل نہ تھی۔ نیشنل کالج کے ابتدائی دور میں اس نے طالبعلموں میں آزادی کے جذبے کو مہمیز دینے کے لیے سٹیج ڈراموں کا سہارا لیا۔اسی دوران وہ سوشلسٹ نظریات سے بھی متعارف ہوا اوراس کے ایجنڈے میں جدو جہد آزادی کے ساتھ ساتھ عوام کے معاشی حقوق کے حصول کی جدو جہد بھی شامل ہو گئی۔ پھر اس نے طالبعلموں کو منظم کرنے کے لیے لاہورسٹوڈنٹس کانفرنس قائم کی اور نوجوان بھارت سبھا کی بنیاد رکھی۔اس تنظیم کے مقاصد میںایک طرف ہندوستان کی تحریک آزادی کو پروان چڑھا نا اور دوسری جانب آزاد ی کے بعد ملک میں ایسا نظام قائم کرنا شامل تھا جس میں کسانوں اور محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت موجود ہو۔جدوجہد آزادی کے دوران نوجوان سبھا کا یہ بھی فریضہ تھا کہ وہ محنت کشوں میں شعور پھیلاتے ہوئے انہیں منظم کرے۔سو منجملہ دیگر سرگرمیاں کے اس نے ایک کمیٹی بھی قائم کی جس کے سپرد پمفلٹوں کے ذریعے عوام کی سیاسی تعلیم کرنا تھا۔
 یہ بحث کہ آیا جدو جہد آزادی میں تشدد کا کوئی کردار ہونا چاہئے یا نہیں بیسویں کی ساتویں دہائی تک یعنی نو آبادیاتی دور کے خاتمے تک جاری رہی۔ ان ملکوں میں جہاں آزادی وطن کے لیے کسی قسم کی تنظیم سازی کی اجازت نہیں تھی اور غیر ملکی حکمرانوں کے قبضے خلاف آواز بلند کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا اس سوال کا جواب دینا آسان تھا۔سو فرانس ، سپین اور اور پرتگال کی نوآبادیوں میں جدو جہد آزادی نے مسلح مزاحمت کی شکل اختیار کی کہ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ موجود نہیں تھا۔انڈونیشیا، الجیریا ، ویتنام اور کئی افریقی ملک اسی طرح آزاد ہوئے۔ قوموں کے حق خود اختیاری کے لیے جدو جہد کرنے والوں کو مجاہدین آزادی کا نام دیا گیا۔
تاہم برطانوی نو آبادیات میں صورت حال اتنی واضح نہیں تھی کیونکہ یہاں غیر ملکی حکمران اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ سیا سی اصلاحات کا سہارا بھی لیتے تھے۔تاہم ان اصلاحات کا دائرہ انتہائی محدود تھا۔مرکزی سطح پر تمام اختیارات انگریز گورنر جنرل کی ذات میں اور صوبائی سطح پر انگریز گورنر کی ذات میں مرکوز تھے۔ صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ارکان کی اکثریت تھی جبکہ سرکار کی طرف سے نامزد کیے جانے والے ارکان اقلیت میں تھے۔ تاہم آبادی کی بہت بڑی اکثریت کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں تھا۔ صرف وہی لوگ ووٹ ڈال سکتے تھے جو صاحب جائیداد تھے۔اس طرح سے عام آبادی کا صرف2.8 فیصد حصہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا اہل قرار دیا گیا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ گورنر کو اسمبلی کے پاس کردہ قانون کو مسترد کر نے کا اختیار تھا۔( جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔

مزید :

ادب وثقافت -