اس نے آنسو نہیں بہائے اور نہ شرم کے مارے کوئی آواز نکالی بس دکھ کی شدت سے کانپتا رہا

اس نے آنسو نہیں بہائے اور نہ شرم کے مارے کوئی آواز نکالی بس دکھ کی شدت سے ...
اس نے آنسو نہیں بہائے اور نہ شرم کے مارے کوئی آواز نکالی بس دکھ کی شدت سے کانپتا رہا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان 
 قسط:91
اتنے بڑے جثے کا آدمی3 ڈالر میں آخر کتنی دیر مدہوش رہ سکتا ہے ! وہ اتوار کی صبح تھی اور سوموار کی رات وہ گھر لوٹ آیا، متین اور شکستہ۔ اس احساس کے ساتھ کہ وہ گھر والوں کا سارا جمع جتھا اجاڑ کر بھی خود فراموشی حاصل نہیں کر سکا تھا۔
اونا کی تدفین ابھی نہیں ہوئی تھی لیکن پولیس کو اطلاع کر دی گئی تھی اور آنے والے کل اسے چیڑھ کے تابوت میں ڈال کر پاٹرز فیلڈ میں دفن کیا جانا تھا۔الزبیٹا پھر اوس پڑوس کے لوگوں سے پیسے مانگنے نکلی ہوئی تھی تاکہ پادری سے ختم پڑھوایا جا سکے۔ بچے بھوک سے مر رہے تھے اور یورگس بدبخت سارے پیسے شراب پر اُڑا آیا تھا۔ یہ آنئیل کے خیالا ت تھے۔ وہ چولھے کی طرف بڑھا تو اس نے پھر کہا کہ یورگس باورچی خانے کو اپنی بدبو سے دور رکھے۔ آنئیل نے صاف صاف کہَہ دیا کہ اگر وہ اپنی رہائش کا کرایہ ادا نہیں کر سکتا تو کہیں اور ٹھکا نا دیکھ لے۔ 
یورگس ایک لفظ بھی بولے بغیر باورچی خانے سے باہر نکلا اور دوسرے کمرے میں سوئے ہوئے کئی کرائے داروں کو روندتا ہوا اوپر چلا گیا۔ اوپر گھپ اندھیرا تھا کیوں کہ وہ موم بتی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ وہاں بھی اتنی ہی سردی تھی جتنی گھر سے باہر تھی۔ میت سے دور ایک کونے میں ماریا بیٹھی تھی۔ اس نے اپنے اکلوتے بازو سے ننھے آنٹاناس کو سنبھالا ہوا تھا اور اسے سلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ دوسرے کونے میں چھوٹا یوزاپس رورہا تھا کیوں کہ اس نے سارے دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ماریا یورگس کو دیکھ کر خاموش رہی اور وہ کسی مار کھائے کتے کی طرح میت کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ 
شاید اسے بچوں کی بھوک کے متعلق اور اپنی پستی کے متعلق سوچنا چاہیے تھا لیکن وہ صرف اونا کے متعلق سوچ رہا تھا۔ اس نے خود کو درد کی دولت کی آسائش کے حوالے کر دیا تھا۔اس نے آنسو نہیں بہائے اور نہ شرم کے مارے کوئی آواز نکالی بس دکھ کی شدت سے کانپتا رہا۔ اسے اونا کی موت تک احساس ہی نہیں ہوا تھا کہ وہ اس سے کتنی محبت کرتا ہے، اب جہاں وہ بیٹھا تھا وہاں بیٹھنے سے پہلے، اس علم سے پہلے کہ کل وہ اسے لے جائیں گے اور وہ پھر کبھی اسے نہ دیکھ سکے گا، زندگی بھر۔فاقوں سے موت کی نیند سوئی اس کی محبت ایک بار پھر ا س کے دل میں جاگ اٹھی۔ یادوں کے طغیان کا بند ٹوٹ گیا۔ اکٹھی گزری زندگی کے دن اس کی آنکھوں کے سامنے پھرنے لگے۔ اس نے اسے اسی روپ میں دیکھا جیسی وہ لیتھواینیا میں تھی۔ میلے کے پہلے دن، ایک پھول کی سی تروتازہ، پرندے کی طرح چہچہاتی ہوئی۔ پھر اس نے اسے دلہن کے روپ میں دیکھا۔ نازک سی،سادہ اور معصوم۔ اس کی کہی باتیں اس کے کانوں میں گونجتی تھیں۔ بھوک اور غربت سے جاری طویل جنگ نے اس کے دل کو تلخ اورپتھر کا کردیا تھالیکن اونا کا دل نہیں بدلا تھا۔ وہ آخر تک ویسی ہی رہی۔ محبت کی بھوکی۔۔۔ اور اسی کو سب کچھ سہنا پڑا، یہ سب کچھ سہنا پڑا، اذیتیں، ذلتیں۔۔۔ اوہ خدایا ! ان یادوں کا بوجھ ڈھونا بہت مشکل ہے۔ وہ کتنا بے رحم اور سنگ دل تھا۔ اپنا کہا ہر سخت جملہ اور لفظ یاد آکر اس کے دل کو چھری کی طرح کاٹ رہا تھا۔ وہ اپنی ہر خود غرضی کی قیمت اب خود اذیتی سے ادا کر رہا تھا۔اب وہ اس اذیت اور دکھ سے سے کبھی آزاد نہیں ہو سکے گا، کبھی بھی نہیں ! اس کا سینہ پھٹنے کو تھا۔ وہ اس کے پہلو میں بازو ڈھلکائے سمٹا بیٹھا تھا اور وہ ہمیشہ کے لیے کہیں دور جا چکی تھی۔ ضبط سے اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے تھے لیکن پھر بھی اس نے کوئی آواز نہیں نکالی۔ اپنی ذات سے شرم اور نفرت کے باعث اسے سانس لینا محال ہو گیا تھا۔
رات گئے الزبیٹا آئی۔ اس نے ختم کے لیے پیسے اکٹھے کر لیے تھے اور اس خیال سے پیشگی ادا کر دئیے تھے کہ کہیں گھر پہنچ کر وہ پیسے خرچ نہ ہو جائیں۔ وہ کسی سے ملی ہوئی باسی روٹی بھی لے آئی تھی جو بھوک سے بلکتے بچوں کا کھلا کر سلا دیا گیا۔ پھر وہ اوپر یورگس کے پاس آئی اور بیٹھ گئی۔
اس نے ملامت کا ایک لفظ بھی نہیں کہا۔اس نے اور ماریا نے یہ پہلے ہی سوچ لیا تھا کہ وہ اس کی مرحوم بیوی کے پاس اس سے کچھ نہیں کہیں گی۔ اس نے اپنے آنسوؤں کو ضبط کیا ہوا تھا۔ اس نے اپنی بیٹی کا جنازہ اٹھانا تھا لیکن وہ پہلے بھی 3 بار یہ دکھ اٹھا چکی تھی۔ وہ ایک قدیم مخلوق تھی جو گرنے کے بعد ہر بار اٹھ کھڑی ہوتی اور باقیوں کے تحفظ کے لیے جنگ لڑتی رہتی۔ وہ کینچوے کی طرح تھی جس کے2حصے بھی کردیں تو زندہ رہتا ہے۔ وہ مرغی کی طرح تھی جو اپنے چوزوں کو ایک ایک کرکے مرتا دیکھتی ہے اور زندہ رہ جانے والے کو پالتی رہتی ہے۔ یہ الز بیٹا کی فطرت میں تھا۔ وہ کسی سے انصاف کی طالب نہیں تھی۔ نہ وہ اس زندگی کا مقصد پوچھتی تھی جس میں موت اور بربادی نے اندھیر مچا رکھا تھا۔ 
اس نے آنسو روکتے ہوئے یورگس کو یہی قدیم فلسفہ سمجھانے کی کوشش کی۔ اونا نہیں رہی تھی لیکن دوسرے تو تھے انہیں بچانا ضروری تھا۔ وہ اپنے بچوں کے لیے کچھ نہیں چاہتی تھی۔ وہ اور ماریا جیسے تیسے خود کو سنبھال سکتی تھیں لیکن ننھا آنٹاناس بھی تو تھا، اس کا اپنا بیٹا۔ اونا نے آنٹاناس پیچھے چھوڑا تھا، اس کی اکلوتی یاد۔ اب یورگس کو اسے بچانا اورسنبھالنا تھا۔اسے مرد بن کر ان حالات کا سامنا کرنا تھا۔ اسے علم تھا کہ اونا ان حالات میں اس سے کیا توقع رکھتی، اگر وہ اس وقت کچھ کَہ سکتی تو کیا کہتی،لیکن اسے مہلت ہی نہیں ملی۔ مقدر نے ان کے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا۔ ان کے پاس ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔ ایسے میں بچوں کی زندگی بچانے کے لیے کہیں نا کہیں سے پیسوں کا بندوبست کرنا ضروری تھا۔ کیا وہ اونا کی خاطر اتنا حوصلہ بھی مجتمع نہیں کر سکتا تھا ! گھر چھن جانے کے بعد وہ زیادہ بچت کر سکتے تھے اور پھر سب بچے بھی تو کام کرتے تھے۔ اس سے زندگی کی گاڑی کھینچی جا سکتی تھی، صرف اسے ہمت کرنا ہوگی۔ الزبیٹا اسے کافی دیر تک سمجھاتی رہی۔ اسے یہ ڈر نہیں تھا کہ یورگس شراب پر لگ جائے گا کیوں کہ اس کے لیے اس کے پاس پیسے ہی نہیں تھے لیکن اسے یہ ڈر تھا کہ کہیں یورگس انھیں چھوڑ کر نہ چلا جائے۔ کہیں وہ یونس کی طرح آوارہ نہ ہوجائے۔ ( جاری ہے ) 
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -