اگلی صبح دن نکلنے سے پہلے ہی وہ سر کے درد، دل کے درد اور باقی سارے دردوں کے ساتھ گھر سے نکل پڑا

 اگلی صبح دن نکلنے سے پہلے ہی وہ سر کے درد، دل کے درد اور باقی سارے دردوں کے ...
 اگلی صبح دن نکلنے سے پہلے ہی وہ سر کے درد، دل کے درد اور باقی سارے دردوں کے ساتھ گھر سے نکل پڑا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان 
 قسط:92
اونا کا مردہ جسم آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے یورگس اپنے بچے کو چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس نے کوشش کرنے کا وعدہ کرلیا، صرف ننھے آنٹاناس کی خاطر۔ اس بچے کو ایک موقع تو ملنا چاہیے۔ وہ ابھی۔۔۔ اونا کی تدفین کا انتظار کیے بغیر کل ہی سے کام پر جانا شروع کردے گا۔ شاید وہ اس پر اعتبار کرلیں، وہ اپنی بات پر قائم رہے گا چاہے کچھ بھی ہوجائے۔
اگلی صبح دن نکلنے سے پہلے ہی وہ سر کے درد، دل کے درد اور باقی سارے دردوں کے ساتھ گھر سے نکل پڑا۔ سب سے پہلے وہ گراہم کی کھاد مل میں گیا کہ شاید وہاں کام مل جائے لیکن باس نے اسے دیکھتے ہی انکار میں سر ہلا دیا۔ اس کی چھوڑی ہوئی جگہ مدت ہوئی بھر چکی تھی اور اب کوئی جگہ نہیں تھی۔
” اگر میں انتظار کرلوں تو۔۔۔ “ یورگس نے پوچھا ” کیا کوئی گنجائش نکل سکتی ہے ؟ “
” نہیں انتظار کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہاں تمھیں کام نہیں ملے گا۔“ باس نے جواب دیا۔
یورگس مشوّش ہو کر اسے دیکھتا رہا، پھر پوچھا ” مسئلہ کیا ہے ؟ کیا میں اپنا کام ٹھیک نہیں کرتا تھا ؟“
باس نے سرد لاتعلقی سے اسے دیکھا اور کہا ” میں نے کہا نا، اب تمھیں یہاں کوئی کام نہیں ملے گا۔“
یورگس کو اپنی حرکت کے تباہ کن نتائج کا اندازہ ہو چلا تھا۔ وہ ڈوبتے دل کے ساتھ وہاں سے چلا آیا۔ وہ ٹائم اسٹیشن کے باہر برف میں کھڑے مفلوک الحال اور بھوکے لوگوں کے گروہ کے ساتھ آکر کھڑا ہو گیا۔ وہ 2گھنٹے تک وہاں بھوکا پیاسا کھڑا رہا پھر پولیس والوں نے انھیں بیلچے مار مار کر وہاں سے کھدیڑ دیا۔ آج اس کے لیے کوئی کام نہیں تھا۔
یورگس نے یارڈز میں کام کے دوران کئی واقف بنائے تھے، سیلون کے مالک تھے جو اس پر اتنا بھروسا کرتے تھے کہ اسے ایک گلاس شراب اور ایک سینڈوچ ادھار دے دیتے تھے۔ یونیئن کے پرانے کارکن جو اسے پیسے بھی ادھار دے دیتے تھے۔ یہ صورت ِ حال اس کےلئے زندگی موت کا سوال نہیں تھی۔ وہ سارا دن کام ڈھونڈ سکتا تھا اور کل دوبارہ بھی آسکتا تھا بل کہ دوسرے سیکڑوں، ہزاروں بے روز گاروں کی طرح کئی ہفتوں تک انتظار کر سکتا تھا۔ اس دوران آنٹ الزبیٹا ہائڈ پارک ڈسٹرکٹ میں مانگ تانگ کر کام چلا سکتی تھی۔ بچے بھی اتنا تو کما کر لا سکتے تھے کہ آنئیل کے واجبات ادا کر کے سب کو زندہ رکھ سکیں۔
اس سخت سرد موسم میں اسی طرح نوکری ڈھونڈتے اور شراب خانوں میں گھومتے اسے جونز کے بڑے پیکنگ پلانٹ کے تہہ خانے میں کام کا ایک امکان دکھائی دیا۔ اسے ایک فور مین دروازے سے نکلتا نظر آیا تو اس نے اونچی آواز میں کام کا پوچھا۔
” ٹرک کو دھکا لگا لو گے ؟ “ اس آدمی نے پوچھا تو یورگس نے اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے جواب دیا، ” جی جناب ! “
” کیا نام ہے تمھارا ؟ “ دوسرے نے پھر پوچھا۔
” یورگس رڈکس۔“
” پہلے کبھی یارڈز میں کام کیا ہے ؟ “
” جی۔“
” کہاں کہاں ؟ “
” دو جگہ پر۔۔۔ براؤن کے بوچڑ خانے میں۔۔۔ اور ڈرہم کے کھاد کے کارخانے میں۔“
” وہاں سے کام کیوں چھوڑا تھا ؟ “
”پہلے میرے ساتھ ایک حادثہ ہو گیا تھا، دوسری بار مجھے ایک مہینے کی جیل ہو گئی تھی۔ “
” ہوں سمجھا۔ خیر میں تمھیں ایک موقع دوں گا۔ کل تڑکے ہی آجانا اور آکر مسٹر ٹامس کا پوچھ لینا۔“
یورگس گھر تک خوشی سے دوڑتا گیا۔ بالآخر اسے کام مل گیا تھا، برا وقت ختم ہو گیا تھا۔ گھر والے اس خبر سے بہت خوش ہوئے۔ اگلی صبح یورگس کام شروع ہونے سے بھی آدھ گھنٹا پہلے وہاں پہنچ گیا۔ کچھ ہی دیر میں فورمین بھی آگیا۔ یورگس کو دیکھ کر اس کے ماتھے پر شکنیں پڑ گئیں۔ 
” ہوں، تم سے میں نے وعدہ کیا تھا نا کام کا ؟ “ 
” جی جناب۔ “
 ” ہوں۔۔۔ معذرت بھئی، مجھ سے غلطی ہوگئی۔ مجھے تمھاری ضرورت نہیں ہے۔ “ 
یورگس ہکّا بکّا اسے دیکھتا رہ گیا، ” کیا ہوا ہے ؟ “ اس نے سوال کیا۔ 
” کچھ بھی نہیں، بس مجھے تمھاری ضرورت نہیں ہے۔“
فورمین کے چہرے پر وہی سرداور بے رحم تاثر تھا جو کھاد مل کے باس کے چہرے پر اس نے دیکھا تھا۔ اسے علم تھا کہ کچھ کہنے سے کوئی فائدہ نہیں اس لیے وہ مڑ ا اور خاموشی سے چل دیا۔
سیلون میں لوگ اس بات کا مطلب اسے اچھی طرح سمجھا سکتے تھے۔ وہ اسے ترحم والی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔بے چارہ۔۔۔ وہ بلیک لِسٹ ہو چکا تھا! انھوں نے پوچھا کہ اس نے کِیا کیا تھا ؟۔۔۔ ہیں ؟۔۔۔ باس کو مارا تھا ؟ خدا کی پناہ، اسے نتیجے کا پتا ہونا چاہیے تھا! اب پیکنگ ٹاؤن میں اسے نوکری ملنے کا امکان اتنا ہی تھا جتنا شکاگو کا مئیر منتخب ہونے کا۔ وہ کیوں نوکری کی تلاش میں اپنا وقت ضائع کر رہا ہے ؟ اب تک اس کا نام علاقے کے ہر چھوٹے بڑے دفتر کی خفیہ فہرست میں آچکا ہوگا۔ ہو سکتا ہے اس کا نام سینٹ لوئیس اور نیویارک اور اوماھا اور بوسٹن تک پہنچ گیا ہو۔ اور کینسس سٹی اور سینٹ جوزف تک بھی۔ کسی مقدمے یا اپیل کے بغیر ہی اس پر فرد ِ جرم عائد کر کے سزا دےدی گئی تھی۔ اب وہ کبھی پیکرز کے لیے کام نہیں کر سکے گا، کوئی اسے اصطبل صاف کرنے یا ان کے علاقے میں ٹرک ڈرائیوری کرنے کی اجازت بھی نہیں دے گا۔ وہ چاہتا تو کوشش کر کے دیکھ سکتا تھا جیسا کہ سیکڑوں نے یہ کوشش کر کے دیکھا تھا۔ وہ جتنی بھی کوشش کر لے اب اس کی کسی کو ضرورت نہیں تھی۔ نام بدلنے سے بھی کچھ فرق نہیں پڑنا تھا کیوں کہ کمپنی کے مخبر ہر وقت اور ہر جگہ متحرک رہتے تھے۔ پیکرز کو اپنی بلیک لِسٹ مؤثر رکھنے کے لیے خطیر رقم خرچ کرنا پڑتی تھی تاکہ یونئین کے احتجاج اور سیاسی بے چینی کو قابو رکھا جا سکے۔ ( جاری ہے ) 
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -