تبلیغِ دین کی اہمیت و ضرورت
بانی تبلیغی جماعت مولانا محمد الیاس صاحبؒ کو اس کا پوری شدت سے احساس ہوا کہ اس وقت سب سے مقدم اور ضروری کام تبلیغ اور مسلمانوں میں مسلمان ہونے کا احساس پیدا کرنا ہے اور یہ کہ دین سیکھے بغیر نہیں آتا اور دنیاوی ہنروں سے زیادہ اس کے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ احساس اور طلب اگر پیدا ہوگئی تو باقی مراحل و منازل خود بخودطے ہو جائیں گے، اس وقت کے مسلمانوں کا عمومی مرض بے حسی اور بے طلبی ہے، لوگوں نے غلط فہمی سے سمجھ لیا ہے کہ ایمان تو موجود ہی ہے، اس لئے ایمان کے بعد جن چیزوں کا درجہ ہے ، ان میں مشغول ہوگئے، حالانکہ سرے سے ایمان پیدا کرنے ہی کی ضرورت باقی ہے۔
قرون اولیٰ کے مقابلہ میں تعلیم و تبلیغ ، ارشاد و اصلاح میں ایک عظیم تغیّر یہ ہوا کہ ان کا دائرہ طالبین کے لئے محدود ہو کر رہ گیا ، اہل طلب کے لئے تعلیم و اصلاح اور ہدایت و ارشاد کا پورا نظام اور اہتمام تھا ، لیکن جن کو اپنے مرض کا احساس ہی سرے سے نہیں اور جو طلب سے خالی ہیں، ان کی طرف سے توجہ بالکل ہٹ گئی ، حالانکہ ان میں طلب کی تبلیغ کی ضرورت تھی، انبیاءعلیہم السلام کی بعثت کے وقت سارا عالم مستغنی اور سود و زیاں سے بے پروا ہوتا ہے۔ یہ حضرات انہیں میں طالب علم پیدا کرتے ہیں اور کام کے آدمی حاصل کر لیتے ہیں، بے طلبوں اور بے حسّوں میں طلب و احساس پیدا کرنا ہی اصل تبلیغ ہے۔
اس احساس و طلب دین اور اسلام کے اصول و مبادی کی تلقین کا ذریعہ کیا ہے؟ اسلام کا کلمہ طیبہ ہی اللہ تعالیٰ کی رسی کا وہ سرا ہے ، جو ہر مسلمان کے ہاتھ میں ہے، اسی سرے کو پکڑ کر آپ اسے پورے دین کی طرف کھینچ سکتے ہیں، وہ کشمکش نہیں کر سکتا ، مسلمان جب تک اس کلمہ کا اقرار کرتا ہے، اس کو دین کی طرف لے آنے کا موقعہ باقی ہے۔ اس موقعہ کے (خدانخواستہ) نکل جانے سے پہلے اس سے فائدہ اٹھالینا چاہیے۔ اب مسلمانوں کی اس وسیع اور منتشر آبادی میں دین کا احساس و طلب پیدا کرنے کا ذریعہ یہی ہے کہ ان سے اس کلمہ ہی کے ذریعے تقریب پیدا کی جائے اور اسی کے ذریعہ خطاب کیا جائے، کلمہ یاد نہ ہو تو کلمہ یاد کرایا جائے ، غلط ہو تو اس کی تصیحح کی جائے ، کلمہ کے معنی و مفہوم بتائے جائیں اور سمجھایا جائے کہ خدا کی بندگی و غلامی اور رسول ﷺ کی تابعداری کا اقرار ان سے کیا مطالبہ کرتا ہے ، اس طرح ان کو اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کی پابندی پر لایا جائے، جن میں سے سب سے عمومی ، سب سے مقدّم اور سب سے اہم نماز ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ قابلیت رکھی ہے کہ وہ سارے دین کی استعداد و قوت پیدا کر دیتی ہے، جس بندگی کا کلمہ میں اقرار تھا ، اس کا یہ پہلا اور سب سے کھلا ثبوت ہے، پھر اس شخص کی مزید ترقی اور استحکام کے لئے اس کو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے اور اس تعلق کو بڑھانے کی طرف متوجہ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ یاد کرنے کی ترغیب دی جائے، نیز یہ بات اس کے ذہن نشین کی جائے کہ مسلمانوں کی طرح زندگی گزارنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا ءاور اس کے احکام و فرائض معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کا کوئی ہنر اور کوئی فن بے سیکھے اور کچھ وقت صرف کئے بغیر نہیں آتا ، دین بھی بے طلب کے نہیں آتا اور اس کو آیا ہوا سجھنا غلطی ہے، اس کے لئے اپنے مشاغل سے وقت نکالنا ضروری ہے۔ یہ کام اتنا بڑا اور اتنا پھیلا ہوا ہے کہ اس کے لئے چند افراد اور دچند جماعتیں کافی نہیں ، اس کے لئے عام مسلمانوں کی مسلمانو ں میں کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس لئے کہ بقول بانی تبلیغ مولانا محمد الیاس صاحب ؒ اگر کروڑوں کے واسطے لاکھوں نہیں اٹھیں گے تو کس طرح کام ہوگا، نہ جاننے والے جتنے کروڑ ہیں، جاننے والے اتنے لاکھ نہیں“۔ مولانا کے نزدیک اس کام کے لئے عالمِ اسلام میں ایک عمومی اور دائمی حرکت و جنبش کی ضرورت ہے اور یہ حرکت اور جنبش مسلمانوں کی زندگی میں اصل اور مستقل ہے۔ سکون و وقوف اور دنیا کا اشتغال عارضی ہے، دین کے لئے اس حرکت و جنبش پر مسلمانوں کی جماعت کی بنیاد رکھی گئی اور یہی ان کے ظہور کی غرض و غایت ہے۔ ورنہ دنیا کے سکون و دنیاوی انہماک ، کاروبار کی مصروفیت اور شہری زندگی کے کسی ضروری شعبہ میں کوئی ایسی کمی نہ تھی، جس کی تکمیل کے لئے ایک نئی امت کی ضرورت ہو۔
مسلمانوں نے جب سے اس جماعتی زندگی اور اصلی کام کو چھوڑ دیا یا ثانوی درجہ دے دیا، اس وقت سے ان کا انحطاط شروع ہوگیا اور جب سے ان کی زندگی میں سکون و استقرار اور پرسکون و مصروف شہری زندگی کی کیفیات و خصوصیات پیدا ہوگئیں، ان کاوہ روحانی زوال اور اندرونی ضعف شروع ہوگیا، جس کا عنوان خلافت راشدہ کا خاتمہ ہے۔ مولانا محمد الیاس صاحبؒ فرماتے ہیں اور تاریخ ان کی لفظ بلفظ تائید کرتی ہے اور ان کے ہر دعوے پر شہادتیں پیش کرتی ہے:
”ہم نے جماعتیں بنا کر دین کی باتوں کے لئے نکلنا چھوڑ دیا ، حالانکہ یہی بنیادی اصل تھی۔ حضور اکرم ﷺ خود پھرا کرتے تھے اور جس نے ہاتھ میں ہاتھ دیا، وہ بھی مجنونانہ پھرا کرتا تھا۔ مکہ کے زمانہ میں مسلمین کی تعداد افراد کے درجہ میں تھی تو ہر فرد مسلم ہونے کے بعد بطور فردیت و شخصیت کے منفرد اً دوسروں پر حق پیش کرنے کے لئے کوشش کرتا رہا۔ مدینہ میں اجتماعی اور متمدن زندگی تھی ، وہاں پہنچتے ہی آپ ﷺ نے چہار طرف جماعتیں روانہ کرنی شروع کر دیں اور جو بڑھتے گئے وہ عسکریت کی طرف بڑھتے گئے، پرسکون زندگی صرف انہیں کو حاصل تھی، جو پھرنے والوں کے لئے ”مرجع“ اور پھرتے رہنے کا ذریعہ بن سکیں ، غرض پھر اور دین کے لئے جدوجہد اور نقل و حرکت میں رہنا اصل تھا، جب یہ چھوٹ گیا، جب ہی خلافت ختم ہوگئی۔
نظام کار: اس کام کے لئے جب مسلمانوں کی جماعتیں نقل و حرکت میں آجائیں تو ان کے کام کا نظام کیا ہوگا اور ترتیب کیا ہوگی ؟ کس چیز کی اور کتنی چیزوں کی دعوت دی جائے گی؟ اس کا جواب مولانا الیاس صاحبؒ ہی کے الفاظ میں سنئے:
”اصل تبلیغ صرف دو امر کی ہے، باقی اس کی صورت گری اور تشکیل ہے، ان دو چیزوں میں ایک مادی ہے اور ایک روحانی ۔ مادی سے مراد جوارح سے تعلق رکھنے والی۔ سو وہ تو یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی لائی ہوئی باتوں کو پھیلانے کے لئے ملک بہ ملک اور اقلیم بہ اقلیم جماعتیں بنا کر پھرنے کی سنت کو زندہ کر کے فروغ دینا اور پائیدار کرنا ہے۔ روحانی سے مراد دجذبات کی تبلیغ ، یعنی حق تعالیٰ کے حکم پر جان دینے کا رواج ڈالنا ، جس کو اس آیت میں ارشاد فرمایا:
ترجمہ : ”قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایمان دار نہ ہوں گے، جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقع ہو اس میں آپ سے یہ لوگ تصفیہ کرادیں ، پھر آپ کے تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پاویں اور پورا پورا تسلیم کر لیں “ (النسائ) اور میں نے جن و انس کو اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔ اسی کی حیثیت سے کوشش کرنا ، اس وقت بدقسمتی سے ہم کلمہ تک سے نا آشنا ہو رہے ہیں، اس لئے سب سے پہلے اسی کلمہ طیبہ کی تبلیغ ہے ، جو کہ خدا کی خدائی کا اقرار نامہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم پر جان دینے کے علاوہ درحقیت ہمارا کوئی بھی مشغلہ نہیں ہوگا۔
2۔ کلمہ کے لفظوں کی تصحیح کرنے کے بعد نماز کے اندر کی چیزوں کی تصحیح کرنے اور نمازوں کو حضور اکرم ﷺ کی نماز جیسی نماز بنانے کی کوشش میں لگے رہنا ۔
3۔ تین وقتوں کو (صبح و شام اور کچھ حصہ شب کا ) اپنی حیثیت کے مناسب تحصیل علم و ذکر میں مشغول رکھنا۔
4۔ ان چیزوں کو پھیلانے کے لئے اصل فریضہ محمدی سمجھ کر وقت نکالنا، یعنی ملک بہ ملک رواج دینا۔
5۔ اس پھرنے میں خلق کی مشق کرنے کی نیت رکھنا، اپنے فرائص (خواہ خالق سے متعلق ہوں یا مخلوق کے ساتھ) کی ادائیگی کی سرگرمی ، کیونکہ ہر شخص سے اپنے ہی متعلق سوال ہوگا۔
6۔ تصحیح نیت ، یعنی عمل کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو وعدے وعید فرمائے ہیں ، ان کے موافق اس امر کی تعمیل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور موت کے بعد والی زندگی کی درستی کی کوشش کرنا۔ ٭