پرویز رشید ایک سیاسی درویش؟

محترم پرویز رشید صاحب سے شناسائی 1993 میں شروع ہوئی۔ وہ نہ تو کوئی روایتی سیاستدان ہیں۔ اور نہ ہی کوئی روا یتی سیاسی ورکر۔ میں اس لئے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ میں نے روایتی سیاستدانوں کو بھی بہت قریب ے دیکھا ہے۔ او رروا یتی سیاسی ورکروں کو بھی بہت قریب سے دیکھا ہے۔ وہ ایک مکمل نظریاتی آدمی ہیں۔ اور نظریات کی سودے بازی میں یقین نہیں رکھتے۔ انہیں فخر ہے کہ وہ ایک غریب آدمی ہیں۔ پرانی گاڑی۔ کرائے کا گھر۔ نہ کوئی جائیداد نہ کوئی دولت۔ نہ کوئی کرپشن کا داغ۔ نہ کوئی دولت کی ہوس۔ نہ کوئی قرضہ۔ نہ کوئی پرمٹ۔ نہ کوئی فیکٹری۔ ایک درویش۔ ایک سیاسی درویش۔
متنازعہ خبر پر انہیں وزارت سے علیحدہ کر دیا گیا۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان سے وزارت سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ کچھ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ میرے نزدیک دونوں ایک ہی بات ہیں۔ میاں نواز شریف اور پرویز رشید کا تعلق ایسا نہیں ہے کہ ان سے استعفیٰ لینا پڑے۔ یا انہیں دینا پڑے۔ جہاں تک مجھے علم ہے میاں نواز شریف کے کچھ کہنے سے پہلے پرویز رشید نے خود ہی حالات کو بھانپ لیا ہو گا۔ لیکن میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ پرویز رشید کو نہ کبھی وزارت سے محبت تھی۔ اور نہ ہو سکتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پرویز رشید کبھی اسٹیبلمشنٹ کے نہ تو قریبی تھے ۔ اور نہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر سیاست کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ سیاست میں اسٹیبلمشنٹ کی کسی بھی قسم کی مداخلت کے خلاف ہیں۔ وہ سیاست کو اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے پاک کرنے کا خواب رکھتے ہیں۔اس لئے ان کی وزارت سے علیحدگی کی خبریں کوئی نئی نہیں تھیں۔ 2014 کے دھرنے سے ان کو و زارت سے علیحدہ کرنے کی خبریں گردش کر رہی تھیں۔
پرویز رشید کی وزارت سے واپسی کی خبرنے ملک کے منظر نامہ میں غیر معمولی توجہ حاصل کی ہے۔ لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں پرویزرشید کی وزارت سے علیحدگی سے ان کی سیاست کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان کی مسلم لیگ (ن) میں حیثیت کوئی کم نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کی سیاسی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ لیکن جناب پرویز رشید کوئی پہلے وزیر نہیں ہیں جن سے اسٹبلشمنٹ کے دباؤ میں استعفیٰ لیا گیا ہے۔ اس سے قبل مشاہد اللہ سے بھی اسی وجہ سے استعفیٰ لیا گیا۔ رانا ثناء اللہ کا استعفیٰ بھی اسی دباؤ کی وجہ سے تھا۔ لیکن ان کی بعد میں واپسی ہو گئی۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ متنازعہ خبر کا معاملہ بہت حساس ہے۔ فوج اس معاملہ پر کوئی نرمی دکھانے کے لئے تیار نہیں۔ وہ ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے پر عزم ہے۔ پرویز رشید صاحب ان کے اسی عزم کا پہلا شکار ہیں۔ میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ پرویز رشید اس خبر کی اشاعت میں کس قدر ذمہ دار ہیں۔ لیکن میں یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ پرویز رشید کی وزارت سے علیحدگی کسی کی بھی کوئی بڑی جیت نہیں ہے۔ اس سے نہ تو اسٹبلشمنٹ کی کوئی فتح ہو گی اور نہ حکومت کو کوئی بڑا نقصان ہو گا۔ صرف میڈیا کا شور ہے۔
اب قیاس آرائیاں ہیں کہ قربانیوں کا سلسلہ یہاں نہیں رکے گا۔ مزید قربانیاں بھی ہو نگی۔ یقیناًاس وقت پاکستان کی سیاست ایک نازک موڑ پر ہے ۔ کبھی لگتا ہے کہ حکومت طاقتور ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ حکومت مخالف طاقتور ہو گئے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پرویز رشید کے استعفیٰ نے عمران خان کے کیمپ میں حوصلہ بلند کئے ہیں۔ عمران خان کا کیمپ دو دن سے جس قدر پریشان تھا۔ انہیں حوصلہ ملا ہے۔ وہ اس استعفیٰ کو اپنے سیاسی فائدہ کے لئے بھر پور استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن شاید معاملہ الٹا ہو۔ پرویز رشید کا یہ استعفیٰ عمران خان کی موجودہ سیاسی مہم جوئی کو ہرانے کے لئے حکومت کی ایک چال ہے۔ حکومت نے عمران خان سے نبٹنے کے لئے پرویز رشید کا استعفیٰ لیا ہے۔ تا کہ سول ملٹری تعلقات کو ٹھیک رکھا جائے۔ اور عمران خان سے نبٹا جائے۔
جہاں تک مزید قربانیوں کا تعلق ہے۔ تو سیاسی عقل سمجھ بوجھ تو یہی کہتی ہے کہ اگر معاملہ سیاسی طور پر یہاں نہیں رکنا تھا تو پرویز رشید کو استعفیٰ دینے کی کیا ضرورت تھی۔ سیاست میں بے لذت گناہ کی کوئی گنجائش نہیں ہو تی۔ اس ضمن میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد جب دھرنے عروج پر تھے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر کے حوالہ سے آرمی چیف بھی مداخلت کر رہے تھے تب ذمہ دار دوست بتاتے ہیں کہ میاں شہباز شریف وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دینے کے لئے تیار تھے۔ لیکن میاں نواز شریف کا موقف تھا کہ اگر بات میاں شہباز شریف کے استعفیٰ پر ختم ہوتی تو ٹھیک ہے لیکن وہ تو میرا استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔ اس لئے شہباز شریف کے استعفیٰ دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لہذا میاں نواز شریف سیاسی طور پر بے لذت گناہوں پر یقین نہیں رکھتے۔ میرے خیال میں سیاسی طور پر یہی قربانی تھی۔ باقی انتظامی قربانیاں ہو سکتی ہیں۔ جیسے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ڈاکٹر توقیر اور ایک ایس پی کی قربانی دی گئی تھی۔ اس لئے اب بھی انتظامی قربانی دی جا سکتی ہے۔ وہ کوئی مسئلہ نہیں۔ مسئلہ سیاسی قربانیوں کا ہی ہو گا۔
عمران خان اس معاملہ سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ یہ فائدہ اٹھا سکیں گے۔ حکومت کی طرف سے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے آرمی چیف سے آرمی ہاؤس میں ملاقات کی ہے۔ کہا جا رہا ہے۔ تاثر ہے کہ پرویز رشید کا استعفیٰ بھی اسی ملاقات کا نتیجہ ہے۔ لیکن کیا اس ملاقات میں حکومتی وفد بڑی بڑی سیاسی قربانیاں طے کر آیا ہے۔ یا بات یہیں تک ہے۔ بہر حال رپورٹر امریکہ جا چکا ہے۔ اب شواہد کے فرانزک ٹیسٹ کی بات کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا میں بہت شور ہے۔پیپلز پارٹی کی جانب سے چودھری نثار علی خان کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کو جواب ہے۔ شائد وہ جواب جو اس وقت میاں نواز شریف نہیں دے سکتے۔