ننھے منے نجومی

ننھے منے نجومی
 ننھے منے نجومی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پیہم پسپائی سے پیدا ہونے والی نفسیات مصالحت کے دامن میں پناہ نہ پائے تو اور کیا کرے!پیش قدمی میں ہوتے ہوں تو ہوتے ہوں،پسپائی کے راستے میں پڑاؤ نہیں ہوتے۔

شہباز شریف اوردیگر کے لئے تو ممکن ہے کہ وہ انحراف کی روایت کو صحت کے طور پر تسلیم کرلیں مگر نواز شریف ؟نواز شریف کے لئے اب ممکن کہاں کہ وہ آئین سے انحراف کی ریت کوقبولیت عنایت کریں۔

شہباز شریف کا مقام اور احترام تسلیم،ان کی منتظم کی صلاحیت کا بھی اعتراف کہ پنجاب بھر میں اس کے ثبوت بکھرے پڑے ہیں۔البتہ وہ مروج سیاست میں مداخلت کے اثرات اوراس کی سنگینی کااحساس کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔

نواز شریف کی سیاسی جدو جہد اور شخصی سعی اس کا درست ادراک کرنے میں کامیاب رہی۔اصل مسئلہ تصادم یا تعاون کا نہیں،قضیہ کبریٰ اقتدار کے مراکز کے مابین اختیارات کی آئینی تقسیم کارہا۔یہ خیال کہ یہ حل ہو تو کیسے اور کیونکر؟ تاایں دم ایک خیال ہی رہا۔

میثاق جمہوریت کے بعد بظاہر تو ایسا لگتا تھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے آئین سے انحراف کی روایت کو منہدم کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہو۔محترمہ کی شہادت کے بعد حالات کچھ اس رخ پرآگے بڑھے کہ دونوں جماعتوں کا ہاتھ باگ پر رہا نہ پا رکاب میں۔

زرداری صاحب نے سیاسی نظام کی مضبوطی اور پختگی کا ایک وعدہ کیا تھا خواب میں۔حالات کی ستم ظریفی کہ نواز شریف کو آصف زرداری اورزرداری صاحب کومیاں صاحب کی ’’کچھ‘‘سیاست پسند نہ آئی اس جہان خراب میں۔کون جانے کس کوملی راحت عذاب میں،یہ الگ بات کہ جمہوریت پر کاری ضرب لگے گی اس حساب میں۔

راوی روایت کرتا ہے کہ آج کل زرداری صاحب رات کے آخری پہر احمد فراز کو بڑے خشوع و خضوع سے سنا کئے۔بتلانے والے یہ نہیں بتاتے کہ میاں صاحب کس کو سنا کئے؟کوئی جائے اور دونوں کو غالب کا شعر تو سنائے۔۔۔پر جائے کون اور سنائے کون:
جو منکر وفا ہو،فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بدگماں ہوں دوست سے، دشمن کے باب میں
سیاست کے سنجیدہ شائقین کیلئے موجودہ منظر نامہ اپنے اندر بہت سے امکاں و ساماں رکھتا ہے۔

یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ نواز شریف کو کٹھن او رکڑے مسائل سے پالا پڑا ہو۔ وہ سیاسی سفر میں مدو جزر،نشیب و فراز اورادبار و اقبال ایسے گنجلک اور گھمبیروقت سے لڑتے اور گزرتے آئے ہیں۔دھوپ چھاؤں کے اس سارے کھیل میں کبھی ان پر جیت کا گماں اور کبھی شکست کا امکاں ہوتا آیا ہے۔یگانے وبیگانے اوراپنے و پرائے مل جل کر تاثر تخلیق کیا کئے کہ ن لیگ کی قیادت اب بس شہباز شریف کو منتقل ہوا چاہتی ہے۔

کیا واقعی؟سیاسی وصحافتی نجومیوں کو چھوڑیئے،بعض دیگر قیافہ شناس اور زمانہ آشنا بھی طوطے کی طرح بولتے سنائی دیتے ہیں کہ اگر قیادت بڑے بھائی کے پاس رہی تواب بہت نقصان ہو گا۔کئی نجومی تو خیر خواہی کے پردے میں اتنا آگے گئے کہ چیخ اٹھے۔۔۔تصادم کی سیاست سے پارٹی بکھر جائے گی اور آئندہ الیکشن میں اسے شکست کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ننھے منھے نجومیوں پر ہی کیا موقوف کہ چوٹی کے اور منجھے ہوئے کاہنوں کے بھی کیا کہنے!


صفین کی جنگ کے وقت ایک نجومی نے حضرت علیؓکو تنبیہ کی تھی کہ اس جنگ میں ان کی شکست کے آثار نمایاں ہیں،کیونکہ قمر عقرب کے ہالے میں ہے۔کہا جاتا ہے حضرت علیؓنے نجومی کی بات پر دھیان نہ دیا اور بالآخر جنگ میں فاتح ٹھہرے۔

مختار ثقفی جب عبیداللہ ابن زیاد کے مقابل آیا تو ا س کی 7ہزار سپاہ کو 80ہزار کے لشکر جرار سے لڑنا تھا۔بھائی نجومی ہی کیا عام عقل کا آدمی بھی پیش گوئی کر سکتا تھا کہ مختار کو مات یقینی ہے۔مختار مگر نجومیوں کے ڈرانے کے باوجود اس معرکہ میں سرفراز ہوا۔

عباسی خلیفہ متوکل بااللہ کو قرامطیوں کے مقابل مسلسل شکست کا سامنا رہتا تھا۔وہ اپنے معتمد نجومیوں کے متنبہ کرنے کے باوجود ان کی بات پرایمان نہ لایا ۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر قرامطیوں کے ساتھ مزید معرکہ کیا تو بادشاہ اقتدار سے ہاتھ دھو سکتا ہے بلکہ عباسی خلافت کا چراغ بھی بجھ سکتا ہے۔وقت نے یہاں بھی نجومیوں کی بات کے خلاف فیصلہ صادر کیا۔کہا جاتا ہے منصور بااللہ نے بغداد کا سنگ بنیاد رکھتے وقت نجومیوں کی ہدایت پر ہی عمل کیا تھا ۔

انہوں نے باور کرایا کہ اگر بغداد کو دارالحکومت کے لئے چن لیا جائے تو خلفا اوراس کی آنے والی نسلوں کے لئے یہ جگہ محفوظ و مامون اور مسعود و مبارک ثابت ہو گی۔بدنصیبی دیکھئے کہ امین الرشید اپنے بھائی مامون الرشید کے ہاتھوں اسی بغداد میں مارا گیا۔اور تو اور خلیفہ واثق،متوکل،مکتفی اور معتضدکاخون بھی اسی شہر میں بہتا دیکھا گیا۔


پچھلی پی پی کی حکومت میں زرداری صاحب نے مفاہمت کی سیاست کا بھاری علم اٹھائے رکھا۔گزشتہ سے پیوستہ عام انتخابات سے قبل وہ جن لوگوں پر قاتل لیگ کی پھبتی کستے نہ تھکتے تھے،انہیں مسکرا کر گلے لگانا اور برابر بٹھانا پڑا۔

مفاہمت کی سیاست کے نقیب نے گام گام پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر سمجھوتہ کیا اور قدم قدم پر انہیں مصالحتی فکری فارمولا ہزار دشواریوں سے بھی دوچار کرتا گیا۔

تاریخ شاہد ہے کہ پھر عوامی فوز وفلاح اور قومی ترقی و ارتقا کے حوالے سے ان کی حکومت کی جیب او رجھولی خالی رہی۔بھائی جب پاؤں میں مفاہمت کی بیڑیاں اورہاتھوں میں مصالحت کی ہتھکڑیاں پڑی ہوں تو پھر تمام تگ و دو اور دوڑ دھوپ حکومت کوبچانا ہوتا ہے بس۔

مفاہمت یا مصالحت کی بدولت حکومتیں بن تو سکتی ہیں مگر چل نہیں سکتیں۔گردش ایام کے شام وسحر کے کھلے اشارے ملتے ہیں کہ شہباز شریف بھی سہل اور سادے راستے پر چلنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ظاہر و باہر ہے کہ پر خطر راستوں کا انتخاب کون کرتا ہے کہ جرات وفراست دکھانے کی بجائے مصالحت و مفاہمت میں ہی عافیت ہوا کئے۔

مزید :

کالم -