ضمنی الیکشن حکومت کی مقبولیت کا ریفرنڈم
ضمنی الیکشن کے نتائج حکومت سازی کے حوالے سے تو کوئی خاص اہمیت کے حامل نہیں یعنی اِن نتائج کی بنا پر حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ ایک بات ظاہری طور پر خوش آئند ہے کہ جیسی بھی لنگڑی لولی جمہوریت پاکستان میں ہے اِس کو استحکام ملا ہے۔ وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ بہرحال آمریت سے جمہوریت بہتر ہی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو جن مشکلات کا سامنا ہے اور جن مسائل میں گھری ہوئی ہے اُس کا اندازہ ضمنی الیکشن میں بھی ہوا کہ سعد رفیق اور خاقان عباسی بھی قومی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کو استحکام دئیے جانے کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کا کردار اہم ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار نے بھی چودھری سالک حسین کے مقابلے میں 34ہزار ووٹ لئے۔ عام انتخابات میں بھی تحریک لبیک نے بائیس لاکھ ووٹ لئے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہر طبقہ فکر کو قومی دھارئے میں لایا جائے،لیکن تحریک لبیک کے معاملے پر اربابِ اختیارکا انداز مختلف ہی ہے۔ جماعت اسلامی جے یو پی کی سیاست سب کے سامنے ہے اور اِس وقت اُن کی اسمبلی میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جے یو آئی پھر بھی فعال ہے۔ اِن حالات میں تحریک لبیک کے ساتھ سوتیلا سلوک نہیں کیا جانا چاہئے۔ شہباز شریف گرفتار ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز بھی زیر عتاب ہیں اِن حالات میں مسلم لیگ (ن) کی کارگردگی بہتر ہے۔
لاہور میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی چاروں نشستوں پر مسلم لیگ (ن) نے کامیابی حاصل کر لی ہے، لاہور میں ’’شیر کی دھاڑ‘‘ نے کھلاڑیوں کے چھکے چھڑا دیئے ہیں۔ این اے 131 کے بڑے معرکے میں خواجہ سعد رفیق نے ہمایوں اختر خان کو دس ہزار ووٹوں سے شکست دے کر حکمران جماعت کو حیرت زدہ کر دیا ہے، جبکہ این اے 124 لاہور میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تحریک انصاف کے امیدوار غلام محی الدین دیوان کو واضح اور بھاری اکثریت سے شکست سے دو چار کر دیا ہے، لاہور کی صوبائی اسمبلی کی 2نشستوں پی پی 164 اور پی پی 156 سے بھی ن لیگ کے امیدوار سہیل شوکت بٹ اور ملک سیف الملوک کھوکھر نے تحریک انصاف کے امیدواروں کو چاروں شانے چت کرتے ہوئے فتح حاصل کر کے پی ٹی آئی کو بڑا جھٹکا دے دیا ہے۔
ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کو بنوں میں بھی بڑا جھٹکا لگا ہے،این اے 35 بنوں سے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی چھوڑی ہوئی نشست پر متحدہ مجلس عمل کے امیدوار اور سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی کے بیٹے زاہد خان درانی نے بڑے مارجن سے تحریک انصاف کے امیدوار مولانا سید نسیم علی شاہ کو شکست سے دو چار کر دیا ہے۔
عمران خان کی حکومت کا آغاز بہت سی توقعات سے ہوا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ عمران نے گذشتہ پانچ سالوں سے اِسی طرح کی سیاست کی ہے کہ بہت زیادہ سنسنی پیدا کی گئی ۔ شائد عمران کی کامیابی کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ عوام کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگئے کہ اسٹیٹس کو کو ختم کئے بغیر عام پاکستانی کی حالت نہیں سُدھرئے گی۔ عوام کی طاقت، اسٹیبلشمنٹ کی نوازشات اور نواز شریف کی محاذآرائی عمران خان کے لئے اقتدار میں آنے کا سبب بنیں۔ نواز شریف کا سیاسی زوال اُن کے ذاتی رویئے کا نتیجہ ہے کہ اُن کے اندر کی خود پسندی نے اُن کو جس طرح اپنے حصار میں لے رکھا ہے اُس کی وجہ سے کسی بھی دوسرے ریاستی ادارے کو خاطر میں نہیں لاتے رہے۔
عمران خان کی حکومت کے دو رہنماؤں جناب فواد چودھری اور فیاض الحسن چوہان کا رویہ ایسا ہے کہ جیسے وہ اپوزیشن میں ہیں اور وہ ہر وقت لڑنے مرنے کے تیار رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اسٹیٹس کو کو توڑنے کے لئے اِسی طرح کا جارحانہ رویہ ہی اُن کے لئے کار گر ثابت ہو۔دوسری طرف پی ٹی آئی کی حکومت نے جو بیانیہ اپنایا ہے کہ اُن کے پاس جادو کی چھڑی نہیں کہ وہ ستر سال کے مسائل ستر دِنوں میں حل کریں۔اِس بیانیے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا نابالغ پن دکھائی دیتا ہے اور اِس طرح کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے کے لئے جس طرح کے بلند بانگ دعوے کئے تھے وہ سارے کے سارے جذبات پر مبنی تھے اور عقل سے عاری تھے۔ اِس لئے تحریک انصاف کی حکومت کو اِس انداز کو بدلنا ہوگا کہ ہم اتنی جلدی کچھ نہیں کر سکتے۔
گویا عوام اُن کے اِس بیانیے سے مایوس ہورہے ہیں رہی سہی کسر سوئی گیس اور سی این جی کی قیمتوں میں ہوشروبا اضافہ کرکے نکل گئی ہے۔ عمران خان صاحب کے مشیروں خاص طور اسد عمر کی جانب سے معیشت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جا ر ہا ہے۔ وہ سب کے سامنے ہے۔اب لاہور میٹرو کے کرایوں پر سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا۔ اُس نے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے مہنگائی کی چکی میں ڈال دیا گیا ہے۔ عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی میں کوئی فرق نہیں رہا۔ضمنی الیکشن نے ایک بات واضح کردی ہے کہ مسلم لیگ(ن) باجود تمام ہتھکنڈوں کے، میدان میں موجود ہے، بلکہ قائم دائم ہے۔ کرپشن کے خلاف تجاوزات کے خلاف عمران خان کو اپنی کوششوں کو جاری رکھنا چاہئے، لیکن عوام پر مہنگائی کے پہاڑ توڑنے کی بجائے اشرافیہ سے پیسے نکلوائے جانے چاہئیں۔