موجودہ پنجاب اسمبلی کے ہوتے ہوئے جنوبی پنجاب کا صوبہ نہیں بن سکتا
تجزیہ ؛۔قدرت اللہ چودھری
تحریک انصاف کی حکومت کے 100 دن اب 30 دن کے فاصلے پر ہیں، حکومت ان دنوں کے ایجنڈے پر نظر ڈال رہی ہوگی کہ ان میں سے کون سے کام ہوسکے، کن کی ابتدا ہوئی اور وہ کون سے ایسے وعدے یا دعوے ہیں جن پر کام کسی کمیٹی کی تشکیل یا کسی ٹاسک فورس کے قیام سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ بعض کام تو ایسے ہیں کہ تمام تر اخلاص کے باوجود اس امر کا امکان کم ہے کہ حکومت اس جانب کوئی ٹھوس اور نتیجہ خیز پیش رفت کرسکے گی۔ جنوبی پنجاب بھی ایک ایسا ہی بھاری پتھر ہے جو چومے بغیر ہی زمین پر پڑا ہے۔ کہا یہ گیا تھا کہ تحریک انصاف اگر برسر اقتدار آئی تو اپنے قیام کے پہلے سو دنوں کے اندر صوبہ پنجاب کے دو حصے کرکے اس میں سے جنوبی پنجاب کی تشکیل کر دی جائے گی، لیکن یہ وعدہ جتنا آسان ہے عملاً اتنا ہی مشکل ہے۔ جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کو جو کامیابی ملی وہ اس وعدے کا نتیجہ تھی یا اس کے کوئی اور بھی اسباب تھے۔ فی الحال اس بحث کو ایک جانب رکھتے ہوئے اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ سو دن تو رہے ایک طرف، کیا تحریک انصاف کی حکومت اپنے پورے پانچ سالہ دور میں جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے میں کامیاب ہوسکے گی۔ اگر کوئی بڑا سیاسی کرشمہ رونما نہیں ہوتا تو اس سوال کا جواب ایک بڑے ناں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت اپنا یہ وعدہ پورا نہیں کرنا چاہتی یا اس نے اسے طاقِ نسیاں کی نذر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی دونوں جگہ حکومت کو اتنی اکثریت حاصل نہیں کہ وہ اول تو آئینی ترمیم منظور کرا سکے اور دوم پنجاب اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے نئے صوبے کے حق میں قرارداد منظور کراسکے۔ وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت کا تمام تر انحصار دوسری جماعتوں کے تعاون پر ہے، جب تک وہ حکومت کا ساتھ دیتی ہیں، حکومت قائم ہے، اگر چند اینٹیں سرک گئیں یا سرکا دی گئیں تو پھر اپنی عددی اکثریت کے بل بوتے پر حکومت کا قائم رہنا ممکن نہیں، ایسے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت کوئی آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے منظور کراسکے۔ یہی حال سینیٹ کا ہے، سینیٹ میں تو مسلم لیگ (ن) اب بھی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ حکومت کے اتحادی سینیٹر مل کر بھی آئینی ترمیم منظور کرانے کی پوزیشن میں نہیں، ایک ہی صورت ہے کہ حکومت اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر آئینی ترمیم کے معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرے، اگرچہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے حق میں ہیں، لیکن کیا وہ اس معاملے میں حکومت کا ساتھ دینے کے لئے بھی تیار ہوں گی، یہ کہنا اس لئے مشکل ہے کہ وزیراعظم روزانہ احتساب کی خوش خبریاں سناتے رہتے ہیں اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ جب بھی احتساب کی بات کرتے ہیں، اپوزیشن کو جمہوریت خطرے میں نظر آتی ہے۔ جمہوریت خطرے میں ہو یا نہ ہو لیکن جب آپ کسی سیاست دان کو گرفتار کرنے کا اعلان کرینگے تو وہ اس پر کسی نہ کسی طرح کا ردعمل تو دے گا، یہ تو نہیں ہوسکتا کہ آپ گرفتاری کی بات کریں اور وہ اس کا خوش دلی سے استقبال کرے۔ ان حالات میں دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیاں نہ تو آئینی ترمیم میں تعاون کریں گی اور نہ ہی جنوبی پنجاب کے معاملے میں حکومت کو کوئی کریڈٹ لینے دیں گی۔
نئے صوبوں کے لئے ضروری ہے کہ اگر پارلیمنٹ آئینی ترمیم منظور بھی کرلے تو بھی صدر اس وقت تک ترمیم کے اس مسودے پر دستخط نہیں کرے گا، جب تک متعلقہ صوبے کی اسمبلی بھی نئے صوبے کے حق میں دو تہائی اکثریت سے قرارداد منظور نہ کرلے۔ پنجاب اسمبلی کی تو پوزیشن یہ ہے کہ یہاں عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) ہی سنگل لارجسٹ پارٹی تھی، بعد میں آزاد ارکان اگر جوق در جوق تحریک انصاف میں شامل نہ ہوتے تو صوبے میں اس کی حکومت ہی نہیں بن سکتی تھی، اب بھی بہت ہی کم اکثریت کے سہارے یہ حکومت کھڑی ہے۔ وزیراعلیٰ تو محض اکثریت سے ایک ووٹ زیادہ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ ان حالات میں یہ ناممکنات میں ہے کہ دو تہائی اکثریت سے قرارداد منظور ہو، اس کی ایک ہی صورت ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو ساتھ ملایا جائے، دوسری کسی جماعت کو ساتھ ملانے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی کے ارکان مل کر بھی مطلوبہ دو تہائی اکثریت پوری نہیں کرتے، لیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر جو اندھا دھند چاند ماری بیانات کی صورت میں جاری ہے، اس میں اسے کیا پڑی ہے کہ وہ ایک نیا صوبہ بنانے کے لئے اپنی سیاست کا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے وہ اضلاع جو متوقع طور پر نئے صوبے کا حصہ بن سکتے ہیں، ان میں تحریک انصاف کی اکثریت ہے، اگر یہ ارکان نئے صوبے میں چلے جائیں گے تو باقی ماندہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کے لئے کسی اپوزیشن کی ضرورت نہیں رہے گی اور عددی اکثریت کا پلڑا مسلم لیگ (ن) کے حق میں جھک جائے گا، ایسے میں نئے صوبے کی تشکیل کم از کم موجودہ دور میں ’’خیال است و محال است و جنوں‘‘ والا معاملہ ہے۔ شاہ محمود قریشی نے تو یہ بات کہہ بھی دی ہے کہ نئے صوبے کی تشکیل کے لئے ہمارے پاس عددی اکثریت نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ جب کمیٹیاں تشکیل دی جا رہی تھیں تو کیا اس معروضی صورت حال کا علم نہیں تھا، اس کا مطلب یہی ہے کہ کمیٹیاں صرف طفل تسلیاں ہیں، اگر نیا صوبہ پنجاب میں بنانا ہے تو یہ ضروری ہے کہ پنجاب اسمبلی بھی صوبے کے حق میں دوتہائی اکثریت سے قرارداد منظور کرے، اس کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا جاسکتا اور ظاہر ہے اس میں قصور حکومت کا نہیں اپوزیشن کا ہے۔