بم کی دھماکہ خیز کہانی
منشاء بم کا نام گزشتہ ماہ یعنی ستمبر میں زبان زد عام ہوا۔ قبضہ مافیا کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے پوچھا کہ 'منشا بم ہے کون؟'پولیس نے بتایا کہ لاہور کے علاقے جوہر ٹاون میں زمین پر قبضہ کرنے والے گروہ کا سربراہ ہے۔ پولیس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ماضی میں منشاء بم کو گرفتار کرنے کی سب کوششیں ناکام رہیں۔سپریم کورٹ میں موجود ایک پولیس افسر نے بتایا کہ جب بھی ہم نے منشاء کو گرفتار کرنے کی کوشش کی، ٹیلیفون کال آ گئی۔ جب پوچھا گیا کہ کال کون کرتا ہے تو پولیس افسر نے عدالت میں بیٹھے حکمران جماعت کے سیاست دان کرامت علی کھوکر کی طرف اشارہ کر دیا۔ کرامت علی کھوکر پاکستان تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی ہیں۔کرامت علی کھوکر نے ان الزامات کو رد کر دیا لیکن اس سماعت کے بعد ملک بھر میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ منشا بم ہے کون؟ملک منشاء کھوکر عرف منشاء بم لاہور کے مہنگے علاقے جوہر ٹاون میں قبضہ گروپ کا سربراہ مانا جاتا ہے۔ اس پر قبضے، قتل، اقدام قتل اور پولیس پر فائرنگ کے 70 مقدمے درج ہیں۔ غیر قانونی طور پر زمین پر قبضہ کرنے کا پہلا مقدمہ 1982 میں درج کیا گیا۔منشاء بم غریبوں کی زمینیں زبردستی ہتھیانے میں ملوث رہا ہے۔ اقتدار میں موجود ہر سیاسی پارٹی کے ساتھ منشاء کے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ ممبران پارلیمنٹ اس کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ پولیس حکام نے روز نامہ پاکستان کو بتایا کہ منشاء نے وکلاء کی ایک ٹیم بنا رکھی ہے جو اس کے خلاف مقدمات کو دیکھتی ہے۔ پنجاب حکومت کے دیگر محکموں میں بھی اس کا اثر رسوخ ہے۔جو پولیس والا منشاء کے خلاف مقدمہ درج کر لیتا ہے، یہ گروہ اس کو بے بنیاد مقدمات میں گھسیٹ لیتا ہے۔ اس وقت بھی ایسے 6 کیس مختلف عدالتوں میں جاری ہیں جن میں پولیس پر اغوا کا الزام ہے۔لیکن لگتا ہے کہ اب منشاء بم قانون کی گرفت میں آ چکا ہے۔ چیف جسٹس نے منشاء اور اس کے بیٹوں کے نام ای سی ایل پر ڈالنے کا حکم دیا ہے تاکہ وہ ملک سے بھاگ نہ سکیں۔رواں ہفتے میں شہر کی انتظامیہ نے منشاء کے قبضے سے 80 کنال زمین واگزار کر لی ہے، جس کی قیمت پانچ ارب سے زیادہ ہے۔ منشاء کا کزن اس زمین پر بنے غیر قانونی پلازوں اور گھروں سے کرایہ وصول کرتا تھا۔لاہور میں زمینوں پر قبضوں کے مقدمات میں پنجاب پولیس کو مطلوب ملزم منشا بم کی گر فتاری کیسے عمل میں آئی۔ملزم گرفتاری دینے اچانک خود ہی سپریم کورٹ پہنچ گیا جہاں وہ کئی گھنٹے انتظار کرتا رہا اور بعد ازاں پولیس نے اسے گرفتار کرکے تھانہ سیکریٹریٹ منتقل کردیا۔منشا بم اور اس کے بیٹوں پر لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں زمینوں پر قبضے کا الزام کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک عام شہری کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی جس کی سماعت کے دوران پولیس نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا تھا کہ منشابم کے خلاف 70 مقدمات درج ہیں۔پولیس کی رپورٹ کے بعد چیف جسٹس نے منشا بم کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے تھے۔ 4 اکتوبر کو پولیس نے منشا بم کے بیٹے فیصل منشا کو ناکے پر روکنے کی کوشش کی تھی، لیکن وہ فرار ہوگیا۔منشا بم 4 اکتوبر سے روپوش رہنے کے بعد اچانک خود اسلام آباد پہنچ گیا اور سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کسی کی زمینوں پر قبضہ نہیں کیا، میرے پاس ساری زمین میرے والد کی ہے، میرے بیٹے نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر چیئرمین کا الیکشن لڑا جس کے بعد سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے مجھ پر جھوٹے مقدمات بنائے۔ملزم منشا بم نے کہا کہ میرے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، مجھے انصاف دیا جائے، میں پولیس سے چھپ کر عدالت آیا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ چیف جسٹس سے ملاقات کروں اور سب بتاکر گرفتاری دے دوں تاکہ انتقامی کارروائی نہ ہوسکے۔ملزم کئی گھنٹے سپریم کورٹ میں بیٹھا اور میڈیا سے بھی گفتگو کرتا رہا۔ بعد ازاں پولیس نے شام 6 بجے اسے گرفتار کرکے سیکریٹریٹ اسلام آباد تھانے میں بند کردیا ۔واضح رہے کہ پنجاب پولیس منشاء بم کو گرفتار کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی تھی۔ اس سے قبل انسداد دہشتگردی لا ہور کی خصوصی عدالت نے منشا بم اور اس کے بیٹوں کے شناختی کارڈ نمبر نادرا سے بلاک کرانے کا حکم دیتے ہوئے دوبارہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے، عدالت نے ملزمان کی ضمانتیں دینے والوں کی جائیدادیں ضبط کرنے کا بھی حکم دیا۔لاہور کی انسداد دہشتگردی عدالت نے منشا بم کے خلاف ایل ڈی اے ٹیم پر حملہ کیس پر سماعت کی۔ ملزمان کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے منشا بم اور اس کے بیٹوں کے شناختی کارڈ نمبر نادرا سے بلاک کرانے کا حکم د یتے ہوئے منشا بم اور اس کے بیٹوں کے دوبارہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے۔عدالت نے بار بار طلبی کے نوٹسز کے باوجود پیش نہ ہونے اورروپوشی پر 4 اکتوبر کو منشا بم اور بیٹوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔ عدالت نے منشا بم کو بیٹوں سمیت گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔منشا بم کے بارے میں کیس کی سماعت کے دوران پولیس نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے اور ایم این اے ملزم کی سرپرستی کر رہے ہیں اور اس کو گرفتار کرنے سے بچانے کے لیے پولیس پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے دونوں رہنماؤں کو عدالت میں طلب کرکے سخت کارروائی کا عندیہ دیا جس پر دونوں نے عدالت سے معافی مانگ لی۔دوسری جانب منشا بم کی سرپرستی کے بارے میں بار بار انگلیاں تحریک انصاف کی جانب اٹھ رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق نے اپنے سوشل میڈیا پر چند تصاویر شیئر کی تھیں جن میں منشا بم کو وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے دیکھا یا گیا حالا نکہ وہ منشا بم نہیں اس کا بیٹا فیصل ہے جبکہ دیگر متعدد تصویروں میں منشا بم اور علیم خان کو ساتھ ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ گر فتاری سے قبل لا ہورپولیس نے سرگرم قبضہ گروپ کے سرغنہ منشا بم اور اس کے بیٹوں کی گرفتاری کیلئے حساس اداروں سے بھی مدد مانگی ، منشا بم کے بنک اکاؤنٹس منجمد کرنے کے لئے عدالت، گاڑیاں ضبط کر نے کے لئے محکمہ ایکسائز اور ہوٹلوں کے سافٹ وئیر ہوٹل آئی میں بھی نام شامل کیے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود پولیس اسے گرفتار نہ کر سکی۔ پولیس کے مطابق منشابم کی گرفتاری کیلئے آپریشن ونگ اورسی آئی اے کی 10 ٹیمیں کام کر تی رہیں۔ ناکامی پر پو لیس نے موقف اختیار کیا کہ قبضہ مافیا کے سرغنہ منشا بم کے ملک سے فرار کا خدشہ ہے جس پر منشا بم اور اس کے بیٹوں کا نام ای سی ایل اور پروونشل آئیڈینٹی فیکیشن لسٹ میں بھی شامل کر دیا گیا ۔قتل، اقدام قتل،زمینوں پر قبضے اور لڑائی جھگڑوں کے 80سے زائد مقدمات میں مطلوب ملزم طارق کھوکھر المعروف منشا بم کو جب اسلام آباد سے پنجاب پولیس کے حوالے کیا گیا۔ منشا بم نے جج کے سامنے اپنے ڈرکا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ڈرہے کہیں پولیس اہلکار مجھے مارنہ دیں۔اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر منشا بم کو صحافیوں نے گھیرلیا، ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ آپ کا نام منشا بم کس نے رکھا؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ یہ نام شریف گجر نامی شخص نے رکھا تھا اس کے بھائی کے ساتھ منہ ماری ہوئی تھی جس کے بعد اس نے یہ نام رکھ دیا۔ایک اور صحافی نے سوال کیا کہ آپ عدالتوں میں کیوں پیش نہیں ہوئے آپ پر 80مقدمات ہیں، اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پولیس نے ان کے ساتھ بڑی زیادتیاں کی ہیں۔ پولیس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ منشا بم کا اصل نام منشاء کھوکھر ہے، لاہور کے لینڈ مافیا کے اس بڑے نام کے خلاف 90 کے قریب قتل، اقدام قتل، فائرنگ اور قبضے کے مقدمات درج ہیں،جو پولیس افسران کارروائی کرتے ہیں ان کے خلاف عدالتوں میں درخواستیں دینا اور رٹ کروانا منشا بٹ کا معمول ہے، رپورٹ کے مطابق منشاء بم کی طرف سے اس وقت بھی مختلف عدالتوں میں پولیس کے خلاف الزامات کی چھ درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ منشاء بم کے ساتھ اربوں روپے کی جائیداد ہتھیانے کی وارداتوں میں محکمہ مال اور ایل ڈی اے کا عملہ بھی برابر کا شریک ہے، ہماری اطلاعات کے مطابق ملک منشاء کھوکھر ولد حکیم علی کھوکھر کے خلاف پولیس نے 1982 میں ناجائز قبضہ کرنے پر پہلا مقدمہ درج کیا تھا جس کے بعد مقدمات کا ایک سلسلہ چل پڑا، ان مقدمات کی تعداد اس وقت 90 کے قریب پہنچ چکی ہے، جوہر ٹاؤن لاہور کے علاقہ حاکم چوک میں منشاء بم نے لوگوں کی زمینوں پر قبضے کیے ہوئے ہیں، جہاں پر اس نے سکول مارکیٹیں، فرنیچر ہاؤس قائم کر رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے وکلاء کا اپنا ایک گروپ بھی بنا رکھا ہے جو اس کے کالے کارناموں کی پردہ پوشی اور وکالت کرتے ہیں، اطلاع کے مطابق گزشتہ 36 سالوں سے پولیس کو کسی بھی محکمہ کی طرف سے ایسی کوئی دستاویز یا ثبوت نہیں دییگئے جن کے ذریعے اس بات کی نشاندہی ہوتی کہ جس جگہ پر منشا بم نے قبضہ کیا وہ کسی اور شہری کی ہے، اسی وجہ سے منشاء بم مزید مضبوط ہوتا چلا گیا اور اسے مزید مضبوط بنانے میں ہر دور کے ایم این اے اور ایم پی ایز کا بھی گہرا ہاتھ ہے۔ منشا بم گرفتاری کیس کی سماعت کے دوران ڈی آئی جی پولیس رانا شہزاد اکبرنے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت سے پہلے انہیں مسلم لیگ(ن) کی حمایت حاصل تھی۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اراکین اسمبلی کو چاہیے تھا کہ کیمپ لگا کر قبضے واگزار کرواتے۔مگر ایسا نہیں ہو رہا ۔مقامی ایس پی صدر معاذ ظفر نے بتایا ہیکہ منشا بم کیخلاف 82 مقدمات درج ہونے کے باوجود کارروائی نہ ہونا حیران کن ہے، ملزم اقتدار میں آنے والی ہر پارٹی کیساتھ شامل ہو جاتا تھا، ملزم کیسے پولیس سے بھاگتا رہا؟ اس بارے میں میرٹ پر تفتیش ہو گی جبکہ منشا بم کے بھائی مشتاق کیخلاف بھی مقدمہ درج ہے اورتمام مقدمات کی جے آئی ٹی تفتیش کرے گی۔ایس پی صدر معاذ ظفر نے بتایا کہ ملزم زمینوں پر قبضہ کر کے پراپرٹی کرائے پر دیتے تھے، اوورسیز پاکستانی محمود اشرف کی 6 کینال اراضی پر منشا بم اور ان کے بیٹوں نے ناجائز قبضہ کیا تھا،تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ منشا بم پر 1982ء میں قبضے کا مقدمہ درج تھا، اس کیخلاف اب تک 82 مقدمات درج ہو چکے ہیں۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں بیرون ملک مقیم پاکستانی محمود اشرف نے ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں کہا گیا تھاکہ لاہور کے معروف علاقے جوہر ٹاؤن میں 9 پلاٹس پر منشا بم نے قبضہ کر رکھا ہے اور وہ قبضہ گروپ ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یتیموں، غریبوں، مسکینوں اور تارکین وطن کی زمینوں پر قبضے کرلیے گئے، ایک عورت کو 60 سال بعد سپریم کورٹ نے قبضہ واگراز کروا کردیا۔ ہم نے قبضے اور واگزار کرانے کا حکم دیا تو اب وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی متحرک ہوگئے، اچھی بات ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب ہمارے حکم کے بعد متحرک ہوئے، یہ کام انتظامیہ کا ہے، اسے کرنا چاہیے۔سماعت کے دوران پنجاب پولیس کی جانب سے بتایا گیا کہ جو پولیس اہلکار قبضے واگزار کراتے ہیں، ان کے تبادلے کروادیے جاتے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ہمیں کسی پولیس افسر کے تبادلے میں بدنیتی نظر آئی تو عدالت دیکھ لے گی۔پنجاب پولیس نے بتایا کہ منشابم ایک بہت بڑا مافیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بیرون ملک پاکستانی ہمیں ڈیم کی تعمیر میں مدد کے لیے بلوا رہے ہیں، وہ وہاں بڑی مشکل سے خون پسینے کی کمائی سے جائیدادیں بناتے ہیں اور یہ لوگ اس پر قبضہ کرلیتے ہیں۔عدالت میں چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ پولیس تارکین وطن کی جائیدادوں پر قبضے کو واگزار کروائے، اگر کسی عدالت نے حکم امتناع دے رکھا ہے تو سپریم کورٹ اسے دیکھ لے گی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ، بیرون ملک پاکستانی اس ملک سے بہت پیار کرتے ہیں لیکن ایک بیرون ملک پاکستانی کی جائیداد پر منشابم نے قبضہ کیا۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ جن کی زمینوں پر قبضے کیے گئے ہیں وہ واگزار کروائیں اور اگر کسی پر حکم امتناع ہے تو اس کی فہرست ہمیں دیں، میں تو سوچ رہا ہوں کہ یہ معاملہ وزیر اعظم عمران خان کو بھجوا دوں۔بعد ازاں عدالت سے منشا بم اور ان کے چاروں بیٹوں کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا اور سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔ان دنوں لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے منشا بم کو بیٹے سمیت 10 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر رکھا ہے جبکہ منشابم کے بیٹے طارق منشا نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے پانچ روز کی حفاظتی ضمانت حاصل کررکھی ہے اورعدالت نے پولیس کوطارق منشا کی گرفتاری سے روک دیا ہے۔منشا بٹ کے بیٹے طارق منشا زمینوں پرقبضوں کے مقدمات میں لاہورپولیس کومطلوب ہیں۔لاہور میں تجاوزات کیخلاف آپریشن میں تیزی آگئی مگر قبضہ گروپوں کیخلاف حقیقی اقدامات میں ابھی وقت لگے گا۔اب تک عملاً صرف جوہر ٹاؤن کے علاقے میں بدنام زمانہ قبضہ گروپ منشا بم کے سرغنہ پلازے اور فرنیچر کی دکانوں کیخلاف ہی بڑی کارروائی کی گئی ۔ قبضہ عناصر کے حکومتی اور سیاسی سطحوں پر گہرے مراسم کے باعث انتظامیہ نے اراضی چھڑانے اور اصل مالکان کے حوالے کرنے کی رفتار تیز کرنے کی بجائے تاجروں اور عام لوگوں کی تجاوزات پر توجہ مرکوز کرلی۔ جوہر ٹاؤن میں بھی صرف 39نجی پلاٹوں کو واگزار کرایا جاسکا۔ یوں 34 سرکاری پلاٹوں سمیت 73پلاٹ واگزار کرائے جاسکے۔ واضح رہے صوبائی دارالحکومت میں ایک سو اسی سے زائد ایسے سرگرم قبضہ عناصر اور قبضہ گروپوں کے بارے میں پولیس نے دو سال قبل حکومت کو رپورٹ کیا تھا کہ انہیں گرفتار کرنے کی اجازت دیدی جائے کیونکہ یہ عناصر بہت بااثر ہیں۔ حتیٰ کہ شہر میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں لیکن ابھی تک پولیس کی یہ درخواست زیر غور نہیں آسکی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے عبدالعلیم خان کا نام واپس لئے جانے کی ایک بڑی وجہ ان کا قبضہ گروپوں کے ساتھ قریبی تعلق اور نیب کیسز بنے تھے لیکن بعدازاں ان کو سینئر وزیر کے طور پر لئے جانے سے ایک مرتبہ پھر ایسے عناصر کو بالواسطہ سہارا مل گیا۔ واضح رہے کہ ہاؤسنگ کے صوبائی وزیر میاں محمود الرشید کے قریبی عزیز مصطفی رشید کا نام بھی ان کے مخالفین اسی طرح کی سرگرمیوں کیلئے لیتے رہے ہیں۔ دستیاب رپورٹس کے مطابق ایسے قبضہ عناصر کی تعداد کنٹونمنٹ ڈویڑن میں باقی ڈویڑنز کے مقابلے میں کم از کم دو گنا ہے۔دوسرے نمبر پر سٹی ویڑن ہے جہاں قبضہ عناصر کی تعداد تین درجن جب کہ ماڈل ٹاؤن ڈویڑن میں 2درجن کے قریب ہے۔سرکاری اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خوب اچھی طرح آگاہ ہیں کہ گرین ٹاؤن ایسے قبضہ عناصر کی اہم آماجگاہ ہے اور اسمیں ایل ڈی کے افسران اہلکار بھی ان کی مدد کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ حکومت نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے آپریشن کا رخ محض مارکیٹوں میں تعمیر تجاوزات اور غیر منظور شد سائن بورڈز کو اتارنے تک محدود کردیا ہے۔شہر میں جگہ جگہ سائن بورڈز اتارے اور اضافی طور پر تعمیر کردہ شیڈز اور چھجیتو گرائے گئے لیکن بڑے اور بااثر قبضہ گروپوں کیخلاف کوئی بامعنی کارروائی سامنے نہ آسکی ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قبضہ عناصر نہ صرف سیاسی و انتخابی حوالے سے شہری سیاست میں پس پردہ رہ کر اہم کردار کے حامل ہوچکے ہیں بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں بشمول حکمران جماعت کی طرف سے انتخابی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق شہر میں بڑے قبضہ عناصر نے نہ صرف اپنے اپنے علاقے میں ڈیرے قائم کررکھے ہیں بلکہ اپنے علاقوں میں آنے جانے والوں پر نظر رکھنے کیلئے اپنے ڈیروں کے آس پاس سی سی ٹی وی کیمرے لگا رکھے ہیں یا اپنا نجی مخبری کا نظام قائم کررکھا ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ایسے ہی ایک گروپ نے صوبائی حکومت میں شامل ایک اہم شخصیت کی ہاؤسنگ سوسائٹی کو تحفظ دینے کیلئے خدمات پیش کی تھیں۔پاکستان کی پولیس جرائم کی نرسری کا درجہ رکھتی ہے اور اس نے جرائم کو پال پوس کر معاشرے میں دندنانے کے لیے کھلی چھٹی دے رکھی ہے جب کہ ہمارے حکمرانوں کی طرف سے سستے اور فوری انصاف کے لیے جامع، ٹھوس اور قابلِ عمل پالیسی نہ بنائے جانے کی وجہ سے عدلیہ کو فوری فیصلے کرنے کے بجائے تاریخیں، ضمانتیں اور اسٹے آرڈر دینے پر لگا دیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج عدالتیں مقدمات کے التوا کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔یہاں انصاف اسلیے نہیں مل پاتا کہ عدالتوں میں جو استغاثہ پیش کیا جاتا ہے وہ اس قدر کمزور ہوتا ہے کہ عدالتوں کو مجبوراً ملزمان بری کرنا پڑتے ہیں‘ بڑے بڑے کیسوں میں عدالتوں کو ثبوت نہیں ملتے۔