اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 69

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 69

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس خونریز سازش کے بارے میں جعفر برمکی کو کچھ علم نہیں تھا حالانکہ اس کے تنخواہ دار مخبر اسے درون خانہ کی ایک ایک منٹ کی خبر لا کر دیا کرتے تھے مگر منصور ابن زیاد بہت زیرک اور چالاک شخص تھا۔ اپنے دل کی بات کبھی زبان پر نہیں لاتا تھا پھر بھی جعفر برمکی جیسے جلیل القدر آدمی کو قتل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن اس میں کوئی شک بھی نہیں تھا کہ اس کے لئے منصور ابن زیادہ جیسے عیار اور چالباز شخص کی ضرورت تھی۔ اس نے ایک ایسی چال چلی کہ ایک بار تو جعفر بھی اس میں پھنس گیا۔ منصور نے خراسان کے گورنر سے مل کر جعفر برمکی کو ایک ہندی کنیز بھجوائی جسے علوم ہندی پر بے پناہ عبور حاصل تھا اور قدیم ویدوں کے اسے کئی ابواب زبانی یاد تھے۔
جعفر برمکی جیسے علم پسند شخص کو اس کنیز نے بہت متاثر کیا۔ میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ مگر میرے گمان میں یہ بات ہر گز نہیں تھی کہ یہ ہندی کنیز ایک خاص ساز ش کے تحت جعفر کے پاس پہنچائی گئی ہے۔ اس کنیز کا نام ریپا ولی تھا۔ ریپا ولی قدیم ہندی موسیقی میں بھی ماہر تھی ۔ وہ جب پراچین ہندی علوم پر جعفر سے باتیں کرتے تھک جاتی تو دنیا پر نغمہ و آہنگ کا جادو چھیڑ دیتی۔ جعفر برمکی پہروں اس کے پاس بیٹھا اس کی موسیقی سنتا رہتا۔
اب ہندی کنیز ریپا ولی نے اپنے منصوبے پر عمل درآمد شروع کردیا۔ وہ منصور ابن زیاد سے حاصل کیا ہوا بے ذائقہ ست روز ہر مشروب میں ڈال کر جعفر کو پلانے لگی۔ اس زہر کی تاثیر یہ تھی کہ جگر اور گردوں کے فعل کو آہستہ آہستہ مفلوج کردیتا تھا اور انسان کی موت واقع ہوجاتی تھی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد جعفر برمکی کی آنکھوں میں حلقے نمودار ہونے لگے اور بھوک کم ہوتی گئی اور چہرے پر تھوڑی تھوڑی سوجن بھی دکھائی دینے لگی۔

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 68پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شاہی طبیبوں نے تشخیص کی مگر سوائے اس کے ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ جعفر کے جگر میں حدت بڑھ رہی ہے۔ ٹھنڈی ادویات تجویز ہوئیں۔ علاج بھی جاری رہا اور ریپاولی مشروب میں ملا کر زہر بھی دیتی رہی۔ جعفر کی صحت روز بروز گرتی جا رہی تھی۔ میں نے کچھ جڑی بوٹیوں کو کھرل کروا کر ان کا سفوف جعفر کو پلایا۔ مگر زہر خورانی کا سلسلہ چونکہ جاری تھا اس لئے میری جڑی بوٹیوں کا اثر بھی بے کار ہوگیا۔ ایک رات اتفاق سے مجھے جعفر برمکی کے محل خاص کے مشروب خانے میں کا اتفاق ہوا۔ سنگ ابیض کے تخت پر ظروف مشروب سجے ہوتے تھے۔ اس مختصر سے کمرے میں زربفت کے سنہری جھالر دار پردے لٹک رہے تھے۔ تخت کے ساتھ طلائی چوب کاری سے مزین صندل کی لکڑی کی مستطیل عمارت تھی جس کے اوپر سونے کا ایک شاہین بیٹھا تھا۔ مجھے کمرے کے باہر کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ پھر سرگوشی کی آواز آئی۔ اگر یہ سرگوشی کی آواز نہ آتی تو میرے دل میں ذرا سا بھی شک پیدا نہ ہوتا اور میں وہیں کھڑا رہتا لیکن سرگوشی سے میرے کان کھڑے ہوگئے ۔ ہزاروں برس سے محلاتی سازشوں اور قتل و غارت کے ماحول سے گزررہا تھا۔ پاؤں خود بخود دیوار پر پڑے ہوئے زربفت کے بھاری پردے کی طرف اٹھے اور پردے کے پیچھے جا کر چھپ گیا مگر اس طریقے سے کہ مشروب خانے کا تقریباً سارا منظر نظروں میں تھا۔
دروازے کا پردہ ہٹا اور ہندی کنیز ریپاولی مشروب خانے میں داخل ہوئی۔ وہ مشروب لینے آئی تھی۔ میں سوچنے لگا کہ خواہ مخواہ پردے کے پیچھے چھپ کر گناہ گار ہوا۔ اگر کسی باعث ریپاولی کو معلوم ہوگیاتو بڑی شرمندگی ہوگی۔ بہرحال اب میں اس انتظار میں تھا کہ یہ ہندی کنیز باہر جائے اور میں پردے کے عقب سے نکلوں۔
ریپاولی صراحی میں سے سونے کے ایک پیالے کو بھر رہی تھی۔ جب وہ پیالہ بھر چکی تو اس نے اپنی انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی کا ننھا سا ڈھکن کھولا اور ایک نگاہ اپنے اردگرد ڈالی۔ میں پردے کے پیچھے متجسس اورمتحیر تھا کہ یہ کیا کرنے والی ہے۔ یہ تسلی کر کے اسے وہاں کوئی نہیں دیکھ رہا۔ اس نے انگوٹھی کے خول میں پوشیدہ سفید رنگ کا سفوف مشروب کے گلاس میں چھڑکا اور پھر انگوٹھی کا ڈھکن بند کیا اور گلاس طلائی طشتری میں رکھ کر باہر نکل گئی۔
میری ذہن میں جعفر برمکی کی بیماری کا راز کھل چکا تھا۔ ریپاولی کسی دشمن کی ایما پر محفل جمی ہوئی تھی۔ اسحاق موصلی رباب پر جادو جا رہا تھا۔ جعفر مسند پر تکیوں کے سہارے نیم دراز تھا۔ اس کی آنکھیں آہنگ فسوں ساز کے اثر سے بند تھیں۔ منقش چھت سے قیمتی فانوس لٹک رہے تھے۔ فصا عود و عنبر کی خوشبوؤں سے معمور تھی۔ ریپاولی نے مشروب کا پیالہ جعفر کے سامنے رکھا تو جعفر نے آنکھیں کھول دیں۔ دیپاولی نے مسکراتے ہوئے مشروب پیش کیا۔ جعفر نے پیالہ تھام لیا۔ میں جعفر کی مسند کے پاس ہی بیٹھا تھا۔ جعفر برمکی پیالہ ہونٹوں کے پاس لے گیا تو میں نے بڑے ادب سے کہا۔
’’ عالی جاہ ! سبع سیارگان کی کتاب تقویم میں درج ہے کہ جب آسمان پر سعد و نحس سیاروں کا ظہور ہو تو اس وقت کسی بھی سیال شے سے چند لمحوں کے لئے اجتناب کرنا چاہیے۔‘‘
’’جرجان بن سعی کیا تم نجوم بھی جانتے ہو؟ اگر ایسا ہے تو تمہیں یہ کیوں نہیں معلوم کہ اس وقت آسمان پر سعد اورنحس سیاروں میں قرب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ‘‘
میں نے بضد ہو کر کہا۔ ’’ عالی جاہ ! اگر آپ اسی وقت ایک لمحے کے لئے کھلے آسمان تلے تشریف لے چلیں تو یہ خاکسار آسمان پر سعد و نحس سیاروں کے قرب کی نشان دہی کر سکتا ہے۔ ‘‘
جعفر برمکی نے پیالہ ہاتھ سے رکھ دیا۔ ریپاولی نے دینا اور اسحاق موصلی نے رباب پر ہاتھ روک دیا۔ جعفر برمکی مسکراتا ہوا میرے ساتھ ایوان سے باہر نکلا اور بولا۔
’’ ہم تمہارے دعوے کو غلط ثابت کر دکھائیں گے۔ ہم نے نجوم اپنے دادا سے پڑھا ہے جو اس فن میں یکتا تھے۔ ‘‘
باہر آتے ہی میں جعفر برمکی کو بارہ دری میں لے گیا اور اسے ساری بات بتا دی۔ اس کے چہرے پر تحیر کے آثار نمودار ہوئے۔
’’ جرجان ! کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’ حضور ، میں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا تو مجھے بھی کبھی یقین نہ آتا۔‘‘
جعفر ایک پل کے لئے گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
’’ لیکن ریپاولی کس کے ایما پر ہمیں زہر دے رہی ہے۔ ‘‘
میں نے کہا۔ ’’ اب یہی ہمیں معلوم کرنا ہے عالی جاہ!‘ ‘
جعفر برمکی نے مجھے ساتھ لیا اور یہ کہہ کر عشرت گاہ میں داخل ہوا کہ ہم اس سازش کا پتہ چلائیں گے لیکن ریپاولی پر کچھ بھی ظاہر نہیں ہونے دیں گے۔ جعفر برمکی نے اس خیال سے کہ ریپاولی کو شک نہ گزرے مسند پر بیٹھتے ہی پیالے میں سے ایک گھونٹ مشروب کا لیا اور میری طرف دیکھ کر ہنس کر بولا۔
’’ ہمارے ندیم خاص کا دعویٰ غلط نکلا۔ ‘‘
میں دیکھ رہا تھا کہ جعفر کا چہرہ فکر مند ہے۔ اس نے مشروب کا دوسرا گھونٹ لینے سے پہلے طبیعت کی ناسازی کا بہانہ بنا کر محفل ختم کردی اور مجھے اپنے ساتھ لے کر اپنی خلوت گاہ خاص میں آگیا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)