کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف یوم سیاہ، بھرپور طریقہ سے منایا گیا
لاہور سے چودھری خادم حسین
ملک میں ایک ہی روز دو واقعات ہوئے۔ پوری قوم نے کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف یوم سیاہ منایا کہ بھارت نے 72سال قبل اسی روز کشمیر پر قبضہ کیا تھا، لاہور میں بھی اظہار یکجہتی کے لئے ریلیاں نکالی گئیں، سیمینار ہوئے اور بھارت کی مذمت کرتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا، دوسری طرف کراچی سے حزب اختلاف کا آزادی مارچ بھی شروع ہو گیا جو 31اکتوبر کو اسلام آباد پہنچے گا، یوم سیاہ کے حوالے سے جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنی افتتاحی تقریر میں بھارت کی پرزور مذمت اور کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ یہاں مسلم لیگ (ن) نے بھی یوم سیاہ منایا اور ایک بھرپور اجتماع منعقد کیا اس میں خود مرکزی صدر محمد شہباز شریف نے بھی شرکت اور خطاب کیا، محمد شہباز شریف اور دوسرے مقررین نے اپنی تقریروں میں بھارت کے غیر منصفانہ اور ظالمانہ اقدامات کی بھرپور مذمت کی۔ محمد شہبازشریف نے بڑے بھائی سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کی ضمانت پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ اللہ سے ان کی صحت کی دعا ہے اور انشاء اللہ ہم انہی کی قیادت میں کشمیر کو آزاد کرائیں گے۔ پیپلزپارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور سول سوسائٹی نے بھی احتجاجی مظاہرے کئے۔
دریں اثناء مسلم لیگ (ق) کے صدر سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کی عیادت اور ان کی صحت یابی پر مبارکباد کا سلسلہ جاری ہے۔ وہ اپنی لاہور والی رہائش گاہ پر مقیم ہیں، دو روز قبل حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے اراکین پرویز خٹک اور صادق سنجرانی کے ساتھ ان کی صحت یابی پر مبارک دینے آئے اسی اثناء میں پاکستان میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی بھی آئے اور انہوں نے چودھری شجاعت کو مبارک باد دی۔ حسن اتفاق سے سرکاری مذاکراتی ٹیم کے ارکان اور سعودی سفیر بھی ایک جگہ جمع ہو گئے یار لوگوں کے لئے یہ بڑی خبر بن گئی اور قیاس کے گھوڑے دوڑائے گئے کہ یہ سب مولانا فضل الرحمن کے لئے ہوا اور سعودی سفیر کی مدد حاصل کی گئی ہے۔ اہل خانہ نے اس تاثر کی تردید کی اور کہا کہ سعودی سفیر بھی عیادت اور صحت یابی پر مبارک باد دینے آئے اور اتفاق سے مذاکراتی کمیٹی کے اراکین چودھری پرویز الٰہی سے مشاورت کے باعث موجود تھے۔ چودھری پرویز الٰہی خود بھی مذاکراتی کمیٹی کے رکن ہیں، یوں اس اتفاق ملاقات کو دوسرا رنگ دے دیا گیا جو درست نہیں۔
قریبی ذرائع نے بہرحال اس حد تک تصدیق کی کہ جب اہم حضرات آپس میں ملتے ہیں تو حالات حاضرہ پر بھی بات ہوتی ہے، اس لئے سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کی علالت، اس حوالے سے چودھری شجاعت حسین کا مشورہ اور آزادی مارچ پر بھی گفتگو تو ضرورت ہوئی کہ حالات حاضرہ ہیں۔ اس لئے مضر نہیں، تاہم یہ درست نہیں کہ سعودی سفیر کسی ثالثی مشن پر تھے۔ چودھری شجاعت حسین نے تو مشورہ دیا کہ وزیراعظم عمران خان اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کریں اور عدالتوں پر بوجھ ڈالنے کی بجائے خود محمد نوازشریف کو علاج کے لئے ملک سے باہر جانے کی پیشکش کریں اور اجازت دیں، یہ ملکی سیاست کے لئے بھی بہتر ہو گا،بہرحال یہ مشورہ بھی میڈیا ہی کی زینت ہے، دوسری طرف سے جواب نہیں آیا، البتہ رویہ نرم ہو چکا ہے۔
سابق وزیراعظم محمد نوازشڑیف نیب کی حراست سے سروسز ہسپتال لائے گئے اور یہ ایک بڑا مسئلہ بن گیا کہ ان کے خون میں سفید خلیوں کی تعداد (مقدار) کم زیادہ ہونے لگ گئی، فکر مندی ہوئی اور بڑا بورڈ بنا کر علاج کیاگیا، ان کی علالت کا سن کر مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور کارکن بھی چلے آئے۔ محمد شہبازشریف اور بعض رہنماؤں کو ملنے کی اجازت دی گئی، کارکن باہر نعرے لگاتے رہے اور انہوں نے کیمپ بھی لگا لیا ہے جو جاری ہے۔ اس اثناء میں لاہور اور اس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ سے بھی درخواست ضمانت منظور ہو گئیں اور منگل تک نواز شریف آزاد ہو گئے اس کے بعد ان کی والدہ اور دوسرے اہل خانہ بھی عیادت کے لئے آئے۔ کہا جا رہا ہے کہ سابق وزیراعظم کو علاج کے لئے ملک سے باہر جانے کی اجازت مل جائے گی تاہم وہ خود جانا نہیں چاہتے اور انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ ملک کے اندر رہ کر علاج کرائیں گے، ان کو شریف میڈیکل کمپلیکس یا اتفاق ہسپتال منتقل کرنے پر بھی مشاورت ہوئی تاہم ضمانت کی توثیق تک یہ فیصلہ موخر کر دیا گیا تھا، ان کی صاحبزادی مریم نواز بھی زیر علاج اور سروسز ہسپتال میں ہیں، ان کو وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر منتقل کیا گیا کہ والد کی دیکھ بھال کر سکیں۔
وزیراعظم عمران خان لاہور آئے۔ یہاں کئی اجلاسوں کی صدارت کی۔اہم فیصلے ہوئے اور یہیں سے ننکانہ صاحب گئے جہاں گورونانک یونیورسٹی کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا۔
