داعش کے سربراہ ابو بکرالبغدادی کی ہلاکت

داعش کے سربراہ ابو بکرالبغدادی کی ہلاکت
داعش کے سربراہ ابو بکرالبغدادی کی ہلاکت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


امریکی سپیشل فورسز نے شمال مغربی شام کے صوبہ ادلیب کے ایک گاؤں میں واقع کمپاؤنڈ پر حملہ کر کے دولت اسلامیہ فی العراق والشام (داعش) کے سربراہ ابو بکر البغدادی کو ہلاک کر دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز ٹیلی وژن پر ایک خصوصی نشریے میں بڑے فخر اور حقارت کے ملے جلے جذبات اور الفاظ کے ساتھ دُنیا کو اطلاع دی کہ ہم نے ابوبکر البغدادی کو ہلاک کر کے بڑے جہادی گروپ پر فتح حاصل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حملے میں بغدادی کے بہت سے ساتھی بھی مارے گئے ہیں،جبکہ ابوبکر البغدادی نے خودکش جیکٹ کے ذریعے نہ صرف اپنے آپ کو ہلاک کیا،بلکہ اس کے تین بچے بھی موت کے گھاٹ اتر گئے۔ اس امریکی حملے میں امریکی افواج کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ روس، ترکی، شام اور عراق نے بھرپور تعاون کیا جس کے لئے ہم ان کے شکر گزار ہیں“……اس بارے میں دو آراء نہیں پائی جاتیں کہ داعش فی الاصل ایک دہشت گرد گروہ ہے، اس کی فکری و نظریاتی تشکیل میں انتہا پسندی اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں غلو(افتراق و تفریق) پایا جاتا ہے۔

القاعدہ کی تخلیق میں امریکہ دشمنی، استعمار مخالف افکار شامل تھے، عرب ممالک میں پائی جانے والی بادشاہتوں کے خلاف جذبات کو ہوا دے کر القاعدہ نے شہرت حاصل کی۔ القاعدہ کو افغانستان کی سرزمین ملی ایسے وقت میں جب پورا عالم اسلام اور عالم مغرب اشتراکی روس کے خلاف یہاں افغانستان میں مورچہ زن تھا۔ القاعدہ نے اپنے بانی شیخ عبداللہ یوسف عزام ؒ کی سربراہی میں عرب نوجوانوں کو جہاد کی تعلیم ہی نہیں دی،بلکہ تربیت بھی دی۔ عبدالرسول سیاف اور مولانا جلال الدین حقانی کے ساتھ مل کر عبداللہ عزام نے القاعدہ کو ایک موثر جہادی قوت بنایا، نظری اور فکری لحاظ سے انہیں عوام میں قبولیت حاصل تھی،پاکستانی، سعودی اور قطری و کویتی حکومتوں کے علاوہ بااثر مذہبی شخصیات کی عملی معاونت بھی حاصل تھی،یہی وجہ ہے القاعدہ نے سرزمین افغانستان پر اشتراکیوں کے خلاف بہادری کی شاندار داستانیں رقم کیں، پھر اشتراکی فوجوں کی افغانستان سے واپسی کے بعد افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوگیا اور اس کے بطن سے طالبان برآمد ہوئے، القاعدہ نے اس دور میں اپنے نوجوان قائد اسامہ بن لادن کی قیادت میں خوب ترقی کی۔


2001ء میں امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر افغانستان پر حملہ آور ہوا، جدید ہتھیاروں کے ساتھ یہاں ایٹم بم کے سوا ہر بم استعمال کیا گیا،لیکن وہ افغانوں کے جذبہ ئ حریت اور مقاومت کو ختم کرنا تو دور کی بات،کمزور بھی نہیں کر سکا، لیکن القاعدہ کے خلاف امریکی اتحادی افواج کی کارروائیاں نتیجہ خیز ثابت ہوتی رہیں، پھر القاعدہ نے امریکیوں کے خلاف عراق میں صف بندی کی تو ابوالمصعب الزرقاوی کی قیادت میں کام شروع کیا۔ 2006ء میں زرقاوی کی موت کے بعد القاعدہ کے کچھ لوگوں نے دیگر چھوٹے گروپوں کے ساتھ مل کر اسلامک سٹیٹ آف عراق (ISI)تشکیل دیا تاکہ گروپ کی کاوشوں کاصلہ انہیں ملے اور وہ اسلامی دُنیا کی قیادت کر سکیں، لیکن ان لوگوں کی متشددانہ حرکات اور افکار کے باعث انہیں عراق میں پذیرائی نہ مل سکی۔ مغربی عراق کے لوگ عملاًاس گروپ کے خلاف ہو گئے اور ISI کی سرگرمیاں ماند پڑنے لگیں۔

اس کے بعد 2007ء میں باغیانہ سرگرمیوں سے نمٹنے کی امریکہ کی نئی سٹرٹیجی نے بھی کام دکھایا۔ سنی قبائلی لیڈروں نے پیسے لے کر جہادی سرگرمیوں میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا،اس طرح ISI کی سرگرمیوں میں کمی آتی چلی گئی حتیٰ کہ 2010ء میں ابوبکر البغدادی منظر پر نمودار ہوا اور اس نے ISI کی قیادت سنبھالی،یہ ایک شعلہ بیان جہادی تھا، جسے امریکیوں نے جنوبی عراق کی ایک جیل میں قید کر رکھا تھا۔ پانچ سالہ قید کاٹنے کے بعد بغدادی کو رہا کیا گیا اور وہ ISI کا قائد قرار پایا۔یہ ایک ایسا نکتہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بغدادی امریکی ایجنٹ تھا۔جسے امریکیوں نے داعش تخلیق کرنے اور چلانے کے لئے جیل سے رہا کیا۔

اس وقت عراق میں نوری المالکی کی حکومت القاعدہ کے خاتمے کے نام پر سنی مسلمانوں کے خلاف مورچہ زن تھی۔وہ بعثی حکمرانوں کی باقیادت کے خاتمے کے نام پر بھی سنی مسلمانوں کو قتل کر رہے تھے، اِسی لئے مغربی عراق میں جہاں سنیوں کی اکثریت تھی، بغدادی کو کامیابی ملی۔ اس علاقے میں جہادی سرگرمیوں کو فروغ ملا۔ 2011ء میں عراق بموں کے دھماکوں سے گونج اٹھا۔ اس کے بعد داعش نے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ کار عراق کے ساتھ ساتھ شام تک پھیلا دیا۔ 2011 ء میں شامی حکمرانوں نے سنی مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا تو داعش کے بیانیہ کو اور بھی قوت ملی۔


جنوری 2014ء میں داعش نے سنی اکثریتی علاقوں الفلوجہ اور الرامدی پر قبضہ کر لیا،اس سے پہلے وہ الرقع پر قبضہ جما چکے تھے۔اس کے بعد وہ شمال کی طرف بڑھے اور موصل پر قبضہ کر لیا، جون کے مہینے میں بغدادی نے خلافت کے قیام کا اعلان کر دیا۔ داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں نے دُنیا کی توجہ حاصل کی،ایسی سرگرمیوں کے باعث عراق میں نوری المالکی کی حکومت ختم ہو گئی،اقوام عالم کے مطالبے پر اگست کے مہینے میں امریکی فضائیہ نے داعش کے آزاد کرد علاقے کی طرف بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لئے بمباری شروع کر دی۔ دسمبر 2014ء میں داعش نے اردن کے ایک جنگی پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔اردن میں مظاہرے شروع ہو گئے اور اردنی حکومت پر دباؤ بڑھنا شروع ہو گیا کہ وہ داعش کے خلاف جنگی اتحاد سے الگ ہو جائے، لیکن فروری 2015ء میں داعش نے ایک وڈیو جاری کی جس میں گرفتار پائلٹ کو زندہ جلانے کا منظر دکھا یا گیا تھا، اس کے بعد داعش کے خلاف فوجی ایکشن کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ عراق اور شام میں وسیع علاقوں پر قبضے کے بعد داعش نے شیعہ اور عیسائیوں کے علاوہ سنی گروہوں کے خلاف بھی محاذ کھول دیا۔

شیعوں کے خلاف تو سنی مسلمانوں میں پہلے ہی عداوت اور نفرت پائی جاتی تھی، لیکن جب سنیوں کے مزارات کو بھی بت پرستی کی جگہ قرار دے کر انہیں تباہ کرنا شروع کر دیا گیا تو داعش کے خلاف سنیوں میں بھی نفرت پھیلنے لگی، عیسائیوں کے خلاف قتل و غارت گری نے امریکہ اور برطانیہ کو بھی داعش کے خلاف متحرک کیا۔القاعدہ عالمی استعمار کے خلاف تھی،اس کے قائدین جدید تعلیم یافتہ اور فکری و نظری اعتبار سے بڑا واضح نقطہ نظر رکھتے تھے۔ان کا دشمن بڑا واضح تھا،انہیں مسلمانوں کی عمومی حمایت حاصل تھی، لیکن داعش نظری اور فکری طور پر فرقہ وارانہ سوچ رکھتی تھی، جسے عامۃ المسلمین کی تائید حاصل نہیں تھی۔ان کا طرز عمل بھی اسلامی فکرو نظر کا عکاس نہیں تھا، لیکن امریکہ نے ابوبکر البغدادی کی قیادت میں داعش کو بڑھنے،پھیلنے اور پھولنے کے مواقع فراہم کئے اور اسے اپنے مقاصد کے لئے خوب استعمال کیا۔


گزرے 10 سال کے دوران داعش مشرق وسطیٰ کی گرم و سرد سیاست میں ایک عامل کی حیثیت رکھتی رہی ہے 2011ء سے شام میں جاری خانہ جنگی میں داعش ایک فیصلہ کن عامل رہی ہے۔ بغدادی کی شعلہ بیانی، عربی زبان کی فصاحت و بلاغت اور عرب و عجم کی تاریخی تقسیم اور دشمنی کے تناظر میں داعش خوب پھلی پھولی،اس نے کشت و خون کی خوفناک مثالیں اورداستانیں رقم کیں۔ یہ عصر حاضر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ مغربی نوجوان مردوزن داعش کے بیانیہ سے متاثر ہو کر جہادی بنے۔نوجوان عورتوں نے جہادیوں سے شادیاں کیں اور ان کے بچے پیٹ میں لئے واپس وطن لوٹیں۔پاکستان میں بھی مخصوص مذہبی گروہ نے داعش کے لئے کام کیا۔ اطلاعات کے مطابق خواتین اور حضرات نے داعش کی نصرت کے لئے عراق و شام کا سفر بھی کیا۔ دوسری طرف مخالف مذہبی افکار کے حامل افراد نے بھی داعش کے خلاف ”جہاد“میں حصہ لینے کے لئے عراق و شام کا سفر کیا، لیکن اطراف کے یہ سفر یہاں زیادہ نمایاں نہیں ہوئے۔داعش کی طرف سے جاری کردہ وڈیوز اور مغرب کے پروپیگنڈے نے یہاں پاکستان میں بھی داعش کی پذیرائی نہیں ہونے دی۔

عمومی تاثر یہی پیدا ہوا کہ داعش شیعہ مخالف ہی نہیں،بلکہ مسلمان دشمن دہشت گرد تنظیم ہے اور وہ امریکی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بات خاصی حد تک درست بھی ثابت ہوئی۔داعش کے ارتقاء کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اصلاًیہ تنظیم القاعدہ کے لوگوں پر مشتمل تھی، بغدادی کی صورت میں امریکہ نے اس پر غلبہ پایا اور اسے اسلام اور مسلمانوں کو نہ صرف بدنام کرنے،بلکہ ہلاک کرنے کے لئے استعمال کیا۔ امریکی سی آئی اے اس طرح کے کاموں میں یدطولیٰ رکھتی ہے۔ جب یہ تنظیم اور اس کی قیادت، امریکیوں کے لئے کار آمد نہ رہی تو امریکیوں نے اسے ختم کر دیا۔ بغدادی کی ہلاکت اس کی مثال ہے کہ امریکی صدر نے اس کی ہلاکت کا خود اعلان کیا۔ ترک صدر نے اس ہلاکت پر خوشی کا اظہار کیا۔

داعش کو امریکی، افغانستان میں، طالبان کی قوت کم کرنے کے لئے لے کر آئے تھے، لیکن یہاں ان کی دال نہیں گل سکی۔ پاکستان میں بھی فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لئے داعش کا بوٹا لگانے کی کوشش کی گئی، لیکن انہیں کامیابی نہیں مل سکی۔ ایسا لگتا ہے کہ بغدادی کی ہلاکت کے بعد داعش ایسے ہی قصہ ئ پارینہ بن جائے گی،جس طرح اسامہ بن لادن کے بعد القاعدہ قصہ ئ پارینہ بن چکی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -