مقابلہ ففٹی ففٹی
مولانا فضل الرحمن پچھلے تین دن سے اپنا یہ تکیہ کلام دہرا رہے ہیں کہ اسلام آباد سے خالی ہاتھ نہیں آئیں گے۔ گویا ”وہ آئے ہیں تیرے در پہ تو کچھ لے کے جائیں گے“ کی گردان کئے ہوئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کسے کہہ رہے ہیں، کس کو خالی ہاتھ نہ جانے کا پیغام دے رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان سے تو یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ مولانا کو بنی گالا سے نکل کر استعفاپکڑا دیں گے۔ وہ تو ایک روز پہلے بھی یہی دہرا چکے ہیں کہ جان چلی جائے، این آر او نہیں دیں گے، مستعفی ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب یہ آزادی مارچ،جو کراچی سے شروع ہوا، آج لاہور سے ہوتا ہوا اسلام آباد کی طرف روانہ ہو جائے گا۔ بہت بڑا آزادی مارچ بھی ہو تو خون خرابے کے بعد بھی ایک منتخب وزیراعظم کو زبردستی مستعفی ہونے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ یہاں تو حکومت نے ابھی تک بڑی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا ہے، کہیں بھی آزادی مارچ کے شرکاء کو نہیں روکا۔
وہ جو کہا جا رہا تھا کہ جگہ جگہ دھرنے ہوں گے، لڑائیاں ہوں گی، امن و امان درہم برہم ہو جائے گا، وہ مرحلہ تو نہیں آیا، سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا ہے۔اب بات صرف اسلام آباد میں جلسے کی ہے، اسے دھرنے میں تبدیل کیا جاتا ہے یا نہیں؟ یہ ابھی قبل از وقت ہے، کیونکہ مولانا اتنا تو کہہ رہے ہیں، استعفے کے بغیر واپس نہیں آئیں گے، مگر کھل کر یہ نہیں کہہ رہے کہ دھرنا دیں گے۔ ویسے بھی اسلام آبا دکی انتظامیہ کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا ہے، اس میں دھرنے کا کہیں ذکر نہیں، ریڈ زون کو جانے والے تمام راستے بھی بند ہو چکے ہیں، بالفرض انسانوں کا سمندر بھی اسلام آباد پہنچ جائے، یہ ممکن نہیں کہ اس مشق سے حکومت تبدیل ہو جائے۔ کیا ایسا پہلے کبھی ہوا ہے جو اب ہو گا؟
ویسے تو مولانا فضل الرحمن خود اپنی واپسی کا ہر راستہ بند کر رہے ہیں، تاہم کچھ چیزیں سیاسی بڑھکوں اور دعوؤں میں شمار ہوتی ہیں؟ اس لئے ان پر یوٹرن لینا اتنی انوکھی بات نہیں سمجھی جاتی۔ خود آزادی مارچ کی داعی جمعیت العلمائے اسلام (ف)اسی مارچ کے معاملے میں کئی ایسی باتیں مان چکی ہے، جو پہلے سننا بھی نہیں چاہتی تھی، مثلاً اس مارچ کے حوالے سے کوئی معاہدہ کرنے کو ہی تیار نہیں تھی اور ڈی چوک پر جلسہ نہ کرنے کی بات تک سننا اسے گوارا نہیں تھا۔ خود مولانا فضل الرحمن اس بارے میں ببانگِ دہل کہہ چکے تھے کہ جلسہ ڈی چوک پر کریں گے، کسی میں ہمت ہے تو روک کر دکھائے، لیکن پھر سب نے دیکھا کہ جمعیت کے اکابرین حکومتی ٹیم سے مذاکرات کے وقت نرم پڑ گئے۔
انتظامیہ کی بتائی ہوئی جگہ پر جلسہ کرنے کی حامی بھر لی۔ کل مولانا غفور حیدری اس جلسہ گاہ کی فضیلتیں بیان کر رہے تھے،اس کے وسیع و عریض اور عین اسلام آباد کے وسط میں ہونے کی وجہ سے اسے مناسب ترین قرار دے رہے تھے۔ حیرت ہے کہ جمعیت العلمائے اسلام(ف) نے ضلعی انتظامیہ کی اس شرط پر بھی اعتراض نہیں کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ18سال سے کم عمر نوجوانوں کو جلسے میں آنے کی اجازت نہیں ہو گی، گویا ایک طرح سے مدرسے کے بچوں کا داخلہ بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔اب ایسے میں اگر جلسے کے بعد مولانا بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی طرح کوئی جواز پیدا کرکے گھروں کی طرف واپسی کا اعلان کر دیتے ہیں، تو اُس پرکوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری اگر آئے تو وہ جلسے سے خطاب کر کے جا چکے ہوں گے، باقی تو مولانا فضل الرحمن ہی بچیں گے، انہیں معلوم ہے کہ اسلام آباد میں ایک ایک دن گزارنا کروڑوں میں پڑے گا، جتنا جلد وہ جلسہ ختم کرکے خرچے کا میٹر آف کر دیں گے، اُن کے لئے اتنا ہی بہتر ہو گا۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ آزادی مارچ کے آغاز سے پہلے مولانا فضل الرحمن بار گیننگ کی بہتر پوزیشن میں تھے،اب جبکہ پورا ملک اس دھرنا مارچ کے گزر جانے سے محفوظ ہو گیا ہے تو اُن کا دباؤ بھی کم ہو گیا ہے۔ اس کا اندازہ وزیراعظم عمران خان کی گورو نانک یونیورسٹی قائم کرنے کی تقریب میں تقریر کے لب و لہجے سے بھی لگایا جا سکتا ہے،جس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ آزادی مارچ حکومت کی بری کارکردگی کے خلاف نہیں،بلکہ کامیابیوں کے خوف کا نتیجہ ہے، کیونکہ اس کے بعد ان سب کی سیاست ختم ہو جائے گی۔ اسلام آباد میں زیادہ سے زیادہ 2014ء والے مناظر دہرائے جائیں گے۔ یہ کہہ کر شرکاء کا لہو گرمایا جائے گا کہ استعفا بس اب آیا کہ آیا، جیسے ڈاکٹر طاہر القادری ہر گھنٹے بعد اپنے کنٹینر سے نکل کر یہ خوشخبری سناتے تھے کہ نواز شریف کا جانا ٹھہر گیا ہے، اب شاید یہ کام مولانا فضل الرحمن کو کرنا پڑے۔
وہ عمران خان کے استعفے کی امید دِلا کر کتنے دن تک کام چلائیں گے؟مولانا فضل الرحمن کی کامیابی کا ففتی ففتی امکان ہے،مگر اصل سوال یہ ہے کہ مولانا کو اگر استعفے کے بغیر آنا پڑا تو وہ اپنے حامیوں اور پورے ملک کے سامنے موقف کیا اختیار کریں گے؟ اب تک تو وہ ہر شہر میں خطاب کرتے ہوئے یہی کہتے چلے آ رہے ہیں کہ سلیکٹڈ اور جعلی وزیراعظم کوایک دن بھی مزید برداشت کیا گیا تو ملک ڈوب جائے گا۔ اگر وہ وزیراعظم کو کئی دن دے کر اسلام آباد سے واپس آ گئے تو اس پر وہ عوام کو کیسے مطمئن کریں گے؟کہنے کو شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی یہی کہہ رہے ہیں،لیکن وہ مولانا کی طرح کشتیاں جلا کر لاؤ لشکر کے ساتھ اسلام آباد کی طرف نہیں بڑھے۔انہوں نے واپسی کے کئی راستے کھلے رکھ چھوڑے ہیں۔
تاہم ایسا بھی نہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے بلائنڈ گیم کھیلی ہے۔ اگر اس گیم کی ناکامی میں بہت کچھ کھونے کا امکان ہے تو بہت کچھ پانے کا امکان بھی ہے۔معاشی فوائد سے قطع نظر سیاسی فوائد کو دیکھا جائے تو بہت زیادہ ہیں، اگر مولانا کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہمیشہ کے لئے ان کی حیثیت ایک بادشاہ گر اور بادشاہ گرانے والے کی ہو جائے گی۔ کوئی حکومت،کوئی حکمران انہیں نظر انداز کرنے کی وہ غلطی نہیں کرے گا جو عمران خان نے کی، وہ جب چاہیں گے، اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کر دیں گے۔ اگر وہ استعفا لینے میں کامیاب نہیں ہوتے، تب بھی گھاٹے میں نہیں رہیں گے۔ انہوں نے خیبر سے کراچی اور بلوچستان سے اسلام آباد تک اپنی عوامی طاقت کا جو مظاہرہ کیا ہے، وہ یہ باور کرا گیا ہے کہ الیکشن میں شکست کے باوجود مولانا فضل الرحمن کی مقبولیت پورے ملک میں موجود ہے، وہ علاقائی لیڈر نہیں،بلکہ ان کی جماعت قومی سطح پر اپنی ساکھ رکھتی ہے۔
یہ انہوں نے ایک ایسے دور میں ثابت کیا ہے، جب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) سٹریٹ پاور سے محروم ہو چکی ہیں، حالانکہ ان کے پاس پارلیمنٹ کے اندر اچھی خاصی نشستیں بھی موجود ہیں۔ یوں لگتا تھا وہ انتخابات میں شکست کے بعد پانچ سال کے لئے سیاست سے آؤٹ ہو جائیں گے، مگر انہوں نے ساری بازی پلٹ کر رکھ دی۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں غیر متعلقہ ہو گئیں اور مولانا سب کے لئے اہمیت اختیار کر گئے۔ آج مولانا فضل الرحمن کا بیانیہ چل رہا ہے۔ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے رہنما جے یو آئی کے جھنڈے پکڑ کر آزادی مارچ میں شریک ہو رہے ہیں۔ شاید جے یو آئی کی سیاسی قوت کبھی اس طرح اُبھر کر سامنے نہ آتی۔
جب ایم ایم اے بنی تھی، اگرچہ انتخابات میں نشستیں جے یو آئی زیادہ لیتی تھی، مگر اس پر چھاپ جماعت اسلامی کی موجود ہوتی تھی۔ اس کی وجہ جماعت اسلامی کا برسوں پر محیط سیاسی امیج تھا، مگر اس آزادی مارچ کے بعد جمعیت العلمائے اسلام (ف) نے اپنی انفرادی طاقت کو ثابت کیا ہے۔ اس کے کارکن اور رہنما سخت جان ہیں اور مولانا فضل الرحمن کی آواز پر لبیک کہنے کو سعادت سمجھتے ہیں۔ وقت بتائے گا کہ مولانا فضل الرحمن نے کیا کھویا کیا پایا؟ تاہم فی الوقت وہ کھونے سے زیادہ پانے کی پوزیشن میں ہیں، استعفا لینے کا تمغہ تو شاید ان کے سینے پر نہ سجے، البتہ یہ تمغہ پہلے ہی ان کے سینے پر سج چکا ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست میں بھونچال لانے پر قادر ہیں۔
