کالم کی محدودات
کالم صحافتی ادب کی پیداوار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا تعلق کسی بھی زبان کے قدیم اور روائتی لٹریچر سے نہیں۔ جب تک چھاپہ خانہ ایجاد نہیں ہوا تھا کسی کو اخبار بنانے یا نکالنے کا خیال تک نہیں آیا تھا۔ اور پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے بھی کافی عرصہ بعد تک اخبار کا وجود ندارد رہا۔ تاہم پہلے جو تحریری مواد مسودے کی صورت میں خال خال تھا اورہاتھ سے لکھا جاتا تھا وہ جب مشینی طباعت نے عام کر دیا تو لوگوں کو پہلے اپنے ملک کی اور پھر دوسرے ملکوں کی خبروں سے دلچسپی پیدا ہونی شروع ہوئی جس نے ایک مختصر عرصے میں اخبار کا روپ دھار لیا۔ اخبارات کی تعمیم و تکثیر نے ایک نئے شعبہ ء ادب کو تخلیق کیا جس نے صحافت کا نام پایا۔ روزانہ اخبار، اسی جدید شعبہ ء ادب (صحافت) کا ایک پاور فل آر گن ہے۔ اور کالم اس آرگن کی ایک ایسی شاخ ہے جومرورِ ایام سے اخبار کے ساتھ لازم و ملزوم ہو چکی ہے۔ روزانہ اخبار کا حجم چونکہ محدود ہوتا ہے، اس لئے کالم کا حجم بھی اسی نسبت سے محدود تر ہوتا ہے۔
بین الاقوامی سطح کے اخبارات کا حجم بالعموم زیادہ ہوتا ہے اس لئے ان میں کالموں کی سپیس بھی زیادہ ہوتی ہے۔ پاکستان میں اردو اخبارات کا حجم پھیلتا اور سکڑتا رہا ہے اور اسی نسبت سے کالموں کی تعداد بھی گھٹتی بڑھتی رہی ہے۔ آج بھی اگرچہ پرنٹ میڈیا پر فنانشل کرنچ چھایا ہوا ہے پھر بھی بعض اخبارات میں دو دو ادارتی صفحات شائع ہو رہے ہیں۔ اگر ایک صفحہ پر پانچ سات کالم بھی سما جائیں تو اس اخبار میں روزانہ دس سے بارہ کالم شائع ہوتے ہیں۔
بہت کم قارئین کو ایک سے زیادہ اخبار دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔آج کا قاری چونکہ عدیم الفرصت بھی ہے اس لئے وہ جب اخبار دیکھتا ہے توخبروں کے صفحات پر صرف اچٹتی سی نظر ڈالتا ہے کہ یہ ساری خبریں ایک روز پہلے الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے پہلے ہی اس کی نظر سے گزر چکی ہوتی ہیں اس لئے وہ سیدھا ادارتی صفحے / صفحات کا رخ کرتا ہے۔
قاری اور کالم نویس کا ایک باہمی انفرادی،جذباتی اور نادیدہ رشتہ بھی ہوتا ہے۔ کسی کالم نویس کی پسندیدگی کا دار و مدار بہت سی باتوں پر ہوتا ہے۔ مثلاً مشترک سیاسی وابستگی، بین الاقوامی موضوعات یا ایسا غیر سیاسی مواد جس میں سیاست زدگی سے ہٹ کر اکتسابِ معلومات کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ دوسری بات کالم کا عنوان ہے جو قاری کو اپنی طرف راغب کرتا ہے۔ اگر قاری یہ دیکھتا ہے کہ اس نے گزشتہ 24گھنٹوں میں جو کچھ الیکٹرانک میڈیا کے ٹاک شوز میں سنا ہوتا ہے، وہی مواد کسی کالم کا عنوان بھی ہے تو پھر صرف کالم نویس کی ذاتی علمیت یا زبان و بیان پر اس کی گرفت یا موضوع زیر بحث پر اس کی سیر حاصلی ہی قاری کا دامنِ توجہ کھینچتی ہے، وگرنہ چبائے ہوئے کو چبانا کہاں کی دانش مندی ہے؟
میں نے ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ کالم ایک ادھوری، نامکمل، ناتمام اور مختصر تحریر کا نام ہے۔ کسی بھی اخبار میں کالم کا ایک مخصوص ”رقبہ“ مقرر ہے۔ فرض کریں اگر آپ کوئی تحریر صرف 10منٹ میں ختم کرنے کے عادی ہیں تو آپ کی توجہ کا دامن وہی کالم کھینچے گا جس کی سپیس (رقبہ) یا الفاظ کی ایک بندھی ٹکی تعداد مقرر ہو گی۔ بیشتر اخبارات نے کالم اور دوسری خبروں کی اشاعت کی کمپوزنگ کا ایک فانٹ سائز مقرر کر رکھا ہے۔ جو صرف 6x6 والی نظر کے حامل قاری کو مدنظررکھ کر مقرر کیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ لکھے پڑھے اور سنجیدہ قارئین کی بیشتر تعداد معنک (Be-Spectacled) ہوتی ہے اس لئے ان حضرات و خواتین کے لئے یہ فانٹ سائز کم بلکہ بہت کم ہوتا ہے۔لیکن اخبار کی انتظامیہ نے چونکہ زیادہ سے زیادہ تحریری مواد اپنے اخباری صفحات میں سمیٹنا ہوتا ہے اس لئے فانٹ سائز کا فیصلہ قارئین کی عینک کا نمبر دیکھ کر نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ مواد کو کم سے کم جگہ میں سمونے کی ’مجبوری‘ پر ہوتا ہے۔
انگریزی زبان کے اخبارات اس ’آزار‘ میں زیادہ گرفتار نہیں۔ ایک تو ان کا فانٹ سائز اردو اخبارات کے فانٹ سائز سے بڑا ہوتا ہے، دوسرے ان کی ہر سطر میں الفاظ کی تعداد کم ہوتی ہے اور تیسرے دو سطروں کا درمیانی فاصلہ زیادہ رکھا جاتا ہے۔ اردو اخبار کی انتظامیہ کو اس محدودیت کا علم ہے لیکن قاری کی نظر پر دباؤ کے مقابلے میں انتظامیہ کو اپنی جیب کے دباؤ پر زیادہ توجہ فرمانی پڑتی ہے۔
اردو کالم آجکل ایک شعلہ ء مستعجل بن چکا ہے۔ کسی بھی موضوع پر کوئی مفصل تبصرہ ممکن نہیں ہوتا۔ شائد بعض قارئین یہ چاہتے بھی نہیں کہ ان کو کسی موضوع پر کوئی ہمہ پہلو یا ہمہ جانبی تبصرہ یا تجزیہ پڑھنے کو ملے۔ اس لئے وہ کالم کا مطالعہ کرتے وقت اپنے ذہن میں الاٹڈ (Alloted)ٹائم فریم کو نگاہ میں رکھتے ہیں۔ کالم نویس کو یہ چیلنج بھی درپیش ہوتا ہے کہ وہ موضوعِ زیر بحث کے زبان و بیان میں ایک اوسط قاری کی دلچسپی برقرار رکھے۔ آج کے قاری کو ساتھ لے کر چلنا ہر کالم نویس کی ایک بڑا مجبوری ہے۔ اگر ایک قاری کسی کالم کو قندِ مکرر کے طور پر دوبارہ پڑھنا چاہتا ہے تو دوسرا قاری اس کو شوقِ فضول سمجھ کر ترک کرنے پر مائل رہتا ہے۔ کئی موضوعات کے مندرجاتی نکات نہائت دقیق اور باریک ہوتے ہیں۔ ان کی تشریح یا توضیح کے لئے آسان زبان اور آسان اصطلاحات میسر نہیں ہوتیں۔ ایسے میں کالم نویس ایک اور امتحان سے گزرتا ہے کہ وہ پہلے کسی ادق یا مشکل اصطلاح کی تشریح اور وضاحت کرے اور پھر اس کو ایک محدود سپیس میں ختم بھی کر دے۔
مثال کے طور پر میں جب بھی کسی عسکری موضوع پر کوئی تفصیل اپنے قاری کے سامنے رکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو موضوع کی اجنیت میرا راستہ روک لیتی ہے۔ اوسط قاری کو چونکہ اس موضوع کی شناسائی سے زیادہ علاقہ نہیں ہوتا اس لئے جب تک مستعمل اصطلاح کی تشریح نہ کردی جائے تب تک بحث کو آگے بڑھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ قاری اور کالم نویس جب ایک صفحے پر نہ ہوں تو تفہیم مطالب ایک بڑا چیلنج بن جاتی ہے۔
کالم کی متعین اور محدود سپیس ایک اور چیلنج بھی سامنے لاتی ہے…… ہمارے معاشرے میں متوازن سیاسی شعور رکھنے والے افراد کی شدید کمی ہے۔ پاکستان کے سیاست زدہ ماحول میں اگر آپ کوئی متوازن تبصرہ یا تجزیہ اپنے کالم کا موضوع بنائیں گے تو اس کے خریدار بہت کم ہوں گے۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ایسے خریداروں کی تعداد دن بدن مزید کم ہو رہی ہے۔لیکن اس ابتلاء کا سب سے بڑا ذمہ دار خود میڈیا ہے۔ دنیا میں بہت کم ممالک ایسے ہیں جن میں میڈیا کو اس قدر مادر پدر آزادیاں دی گئی ہیں جس قدر پاکستان میں ہیں۔ اس ابلاغی آزادی کا تصور بہت سہانا سہی لیکن اس کے لئے ایسی سوسائٹی کا وجود بھی تو لازم ہے جو ان آزادیوں کا مفہوم سمجھے اور انہیں تعمیرِ ملک و قوم کے لئے مثبت انداز میں استعمال کرے۔ ہمارے ہاں یہ متوازن معاشرہ خال خال پایا جاتا ہے اور جوں جوں وقت گزر رہا ہے یہ مزید سکڑتا جا رہا ہے۔
کالم کی مختصر سپیس کی وجہ سے اس کی ایک محدودیت یہ بھی ہے کہ قاری موضوعِ زیر بحث کا عموماً ایک پہلو ہی دیکھ اور پڑھ سکتا ہے…… وہ کالم ختم کرتا ہے تو اس کے ذہن میں کالم میں بیان کئے گئے نکات اور ”اسرار و رموز“ کا بطلان (Rebuttal) بھی مچلنے لگتا ہے۔ لیکن وہ کسی ٹی وی ٹاک شوز میں تو شریک نہیں ہوتا کہ اپنے حریف کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا ترکی بہ ترکی اور فی الفور جواب دے سکے۔ اس طرح کے استدلال اور ردِ استدلال کی گنجائش کالم میں کہاں ہوتی ہے؟ چنانچہ اگر کسی قاری کو آپ کے کالم میں بیان کردہ پہلوؤں سے اختلاف ہو تو اس کے سامنے دو ہی راستے کھلے رہ جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ آنے والے کل میں اپنی طرف سے ایک کالم لکھے اسے اخبار میں شائع کروائے اور دل کی بھڑاس نکالے یا پھر اس ’بھڑاس‘ کو دل ہی میں دفن کرکے چپ ہو رہے…… میں سمجھتا ہوں کہ کالم نویس کو ایسے متنازعہ فیہ موضوعات پر لکھتے ہوئے دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اور دونوں کو یکساں استدلال کے ساتھ سپورٹ اور رد کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس پر جانبدار ہونے کا لیبل لگ جاتا ہے۔
وہ قاری جو کالم نویس کے کیمپ کے خلاف دوسرے کیمپ کا باسی ہوتا ہے وہ جب آپ کا کالم دیکھتا ہے تو سر جھٹک دیتا ہے۔ اس کا استدلال ایک لحاظ سے درست بھی ہوتا ہے اس لئے آپ اسے مطعون نہیں کر سکتے……میرا خیال ہے کہ کسی بھی ایسے معاشرے میں جہاں سیاسیات کا موضوع اولیت حاصل کر لیتا ہے اس میں کالم نویس قبیلے کی دوشاخیں ہو جاتی ہیں۔ ایک کا غالب جھکاؤ مشرق کی طرف ہوتا ہے تو دوسری مغرب کی طرف جھکی ہوتی ہے۔ ان شاخوں کو ملانا اور ”سیدھا کرنا“ کارے دارد ہے……
رڈیارڈ کپلنگ کی زبان میں مشرق، مشرق ہے اور مغرب، مغرب…… اور یہ دونوں آپس میں کبھی نہیں ملتے۔ لیکن جو بات رڈیارڈ نے نہیں لکھی وہ یہ ہے کہ مشرق و مغرب کی یہ نہائیتیں کوئی ساکن یا جامد جغرافیائی نقوش نہیں ہوتے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت نہیں کر سکتے۔ معاشرہ جاندار اور متحرک افراد کا نام ہے، بے جان اور منجمد افراد کا نہیں۔ اس لئے مشرق کو صرف مشرق ہی میں ٹِک کر کھڑا نہیں ہونا چاہیے بلکہ متحرک ہو کر مغرب کی طرف چل پڑنا چاہیے اور مغرب کو بھی مشرق کی طرف سفر کا آغاز کرنا چاہیے۔ دونوں کی رفتارِ حرکت اگر یکساں ہو تو وہ دونوں عین درمیان میں آکر رک جائیں گے…… پھر مشرق، مشرق نہیں رہے گا اور مغرب، مغرب نہیں ……
…… ایک متوازن دل و دماغ کے حامل کالم نگار کو یہی فریضہ ادا کرنا چاہیے۔ لیکن میری یہ گزارشات صرف خواہش ہی ہیں ان کو حقیقت کا لباس اوڑھانے کے لئے جب تک کالم نگاروں کا سارا قبیلہ (یا اس قبیلے کی غالب اکثریت) مشرق و مغرب کی دو نہائیتوں سے چمٹنے رہنے کی روش ترک کرکے 180ڈگری پر معکوس سمتوں میں حرکت پذیر نہیں ہو گی، اس وقت تک ہم ایک ساکت اور جامد قبیلہ ہی بنے رہیں گے۔ یہ قبیلہ اگر سنگ مرمر کا بھی ہو جائے تو پھر بھی زندگی اور حرکت کے آثار سے خالی رہے گا…… الغرض کالم نویس کو اپنی اس محدودیت (Limitation)سے باہر نکلنا چاہیے۔ اس کو معاشرے کو ایجوکیٹ کرنا ہوتا ہے اور ایجوکیشن لچک پذیری کا دوسرا نام ہےّ اگر کالم نویس اس صفت سے متصف ہے تو وہ خورشید سے بھی شبنم ٹپکا سکتا ہے۔بقولِ اقبال:
وہ صاحبِ فن چاہے تو فن کی برکت ہے
ٹپکے بدنِ مہر سے شبنم کی طرح ضو
