اکبر نے سنا ہے اہل غیرت سے یہی

اکبر نے سنا ہے اہل غیرت سے یہی
 اکبر نے سنا ہے اہل غیرت سے یہی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مریم نواز نے کہا تھاکہ وہ نواز شریف کو مصر کے محمد مرسی نہیں بننے دیں گی، وہ اپنے اس مشن میں کامیاب تو ہوئی ہیں، لیکن دیکھنایہ ہے کہ وہ کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں کیونکہ اس کے باوجود کہ مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کی برکتیں اس کے آغاز سے قبل ہی وقوع پذیرہونا شروع ہو گئی ہیں، نواز شریف نے نہ توضمانت کی بھیک مانگی ہے، نہ ملک سے باہر علاج کروانے کی فرمائش کی ہے اور نہ ہی کسی این آراو کی تلاش کی ہے۔ انہوں نے اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت میں رکھ دیا ہے اور اسی کی رضا کے متمنی ہیں۔


25اکتوبر کے کالم میں عرض کی تھی کہ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کی ذمہ دار عدلیہ کو قرار دیا جاتا ہے اسی طرح کل کا مورخ نواز شریف کو اس صورت حال سے دوچار کرنے کا ذمہ دار میڈیا، بطور خاص الیکٹرانک میڈیا کو قرار دے گا، جن کے اینکر صاحبان کو نواز شریف ایک وقت میں کہتے تھے کہ ہمت کریں اور کھڑے ہو جائیں، لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا اور آج جہاں نواز شریف زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، وہ اینکر صاحبان آزادی اظہار پر پابندی کا بین کرتے نظر آ رہے ہیں۔


اٹھے گا اعتبارِ کوئے جاناں ہم نہ کہتے تھے!
مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ بھلے ان کا اپنا فیصلہ ہو، لیکن (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنا وزن مولانا کے پلڑے میں ڈال کر اسے ایک قومی سطح کی ایکٹویٹی بنادیا۔ اب سے دو ہفتے قبل تک یہ باتیں کھلے بندوں ہو رہی تھیں کہ نون لیگ کے شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے آصف زرداری عین موقع پر وہی گل کھلائیں گے جو اس سے قبل چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر دیکھنے میں آئے تھے، تاہم نواز شریف کی خرابی صحت نے ساری اپوزیشن کو یکمشت کردیا اور آج آزادی مارچ کا پھبن دیکھنے کے لائق ہے، آج حکومت ان کی ضمانتیں ہاتھوں میں لئے پھر رہی ہے اور وہ ان پردستخط کرنے کے روادار نہیں ہیں، وہ بضد ہیں کہ جب تک ہوش میں ہیں تب تک پاکستان نہیں چھوڑیں گے، ہاں بے ہوش ہوجائیں تو جہاں جی چاہے لے جائیں۔

سیاست کے طالبعلم جانتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں وہ زندہ لاکھ کے ہیں تومر کر سوا لاکھ کے ہو جائیں گے، کیونکہ ایک سیاستدان کا ہی اتناحوصلہ اور جگرا ہوتا ہے کہ بڑھ کر موت کو گلے لگالے اور پھر بھٹو کی طرح پچاس سال تک قبر سے ملک پر حکمرانی کرے، یہ کسی طالع آزما آمر کے بس کی بات نہیں ہوتی، بھلے وہ لاکھ مکے لہرا لہرا کر دکھاتا پھرے!


آج شہباز شریف اور آصف زرداری غیر متعلقہ ہو چکے ہیں اور ان سے بڑھ کر وہ حلقے غیر اہم ہو چکے ہیں جو انہیں اپنے گھڑے کی مچھلی تصور کرتے ہوئے سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ، خرد کو جنوں اور جنوں کو خرد بتاتے پھرتے ہیں، ان کی کرشمہ سازیاں ماند پڑی دکھائی دیتی ہیں اور نواز شریف کے ”ووٹ کو عزت دو“کے بیانئے کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

صورت حال کا قابل غور پہلو یہ ہے کہ جو سیاسی جماعتیں اور سیاسی قوتیں 2014ء کے فرمائشی دھرنے کے وقت نواز شریف کے ساتھ کھڑی تھیں، آج بھی وہیں کھڑی ہیں اور پی ٹی آئی حکومت کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ میثاق آمریت کا منہ چڑا رہی ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پاکستانیوں نے بحیثیت قوم آگے کا سفر طے کیا ہے اور بات 1950ء کی دہائی سے بہت آگے بڑھ چکی ہے جب نہرو اتنی دھوتیاں نہیں بدلتے تھے جتنی پاکستان میں حکومتیں بدلتی تھیں۔ اس ضمن میں پاکستانی عوام بھی خراج تحسین کے لائق ہے جو سیسہ پلائی دیوار کی طرح جمہوریت کے ساتھ چمٹی رہی ہے اور بالآخر سیاسی قیادت کو راہ راست پر لے آئی ہے۔ پاکستان میں اب کچھ بھی سلیکٹڈ نہیں چلے گا، صرف میرٹ کا بول بالا ہوگا۔


نواز شریف کو توڑنے کا مشن ناکام ہو چکا ہے۔ میڈیا کے جغادریوں نے کیا کیا قیافے نہ لگائے تھے کہ نواز شریف جلد وطن سے باہر چلے جائیں گے کیونکہ ڈیل ہو چکی ہے لیکن پھر اسلام آباد ہائیکورٹ میں وہ مناظر بھی دیکھنے کو ملے کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک ایک اینکر پرسن سے پوچھا کہ ان کے پاس ڈیل کی کیا اطلاعات ہیں۔ یہی نہیں انہوں نے مرکزی اور پنجاب حکومت کو نوٹس کیا کہ بتایا جائے کہ وہ نواز شریف کی ضمانت کی مخالفت کرتے ہیں یا نہیں۔ چشم فلک نے دیکھا کہ اس وقت ہر کوئی اپنی بغلیں جھانک رہا تھا۔

نواز شریف کو پاکستان کی سیاست سے ختم کردینے کی پیشگوئیاں کرنے والے اس نجومی کی طرح نظر آرہے ہیں جنھیں علم ہی نہ تھا کہ انہیں جوتیاں پڑنی ہیں کیونکہ 11اکتوبر 2019ء کو نیب عدالت میں پیشی کے موقع پر نواز شریف نے اکبر الہ آبادی کے الفاظ میں اپنا ذہن بتادیا تھا کہ
اکبر نے سنا ہے اہل غیرت سے یہی
جینا ذلت سے ہو تو مرنا اچھا!

مزید :

رائے -کالم -