صدر کابینہ کی منظوری کے پابند انتظامیہ نے عدلیہ کو نشانہ بنایا ، جسٹس قاضی فائز کے اہل خانہ کی جاسوسی کی گئی : منیر اے ملک
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیراے ملک نے کہا ہے کہ میرے موکل کے اہل خانہ کی لندن میں 10 سالہ سرگرمیوں کی رپورٹ لینے کےلئے نجی سکیورٹی ایجنسی کی خدمات حاصل کی گئیں ، جسٹس فائز عیسیٰ اپنی اور اہل خانہ کی جاسوسی پر بیان حلفی دینے کو تیار ہیں، صدر کابینہ کی منظوری کا پابند ہے،کابینہ کی منظوری کے بغیر ریفرنس بھیجنا درست نہیں،انتظامیہ کی جانب سے عدلیہ کو نشانہ بنانے کی کوشش اور بد نیتی پر مبنی ریفرنس کو خارج ہونا چاہیے۔ منگل کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ بنچ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک اپنے دلائل جاری رکھے ۔ دور ان سماعت جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہاکہ کیا قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے 2014 ءمیں ٹیکس ریٹرن فائل کی۔ منیر اے ملک نے کہاکہ مجھے اس بات کا علم نہیں حکومت اس کا جواب دے سکتی ہے، میں یہاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نمائندگی کر رہا ہوں،میرے موکل کو ٹیکس ریٹرن اور اثاثے ڈکلیئر کرنے سے متعلق نوٹس بھیجے گئے۔ انہوںنے کہاکہ نوٹس میں 2015 ءسے 2018 ءتک کی تفصیلات مانگی گئیںحالانکہ میرے موکل نے 2014 ءمیں تمام تفصیلات جمع کرا دی تھیں۔منیر اے ملک نے کہاکہ جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا نوٹس دیا گیا،جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے 2015 ءسے 2018 ءتک کے گوشوارے جمع نہیں کرائے۔جس ایڈریس پرنوٹس بھیجا گیا وہ جسٹس فائز عیسیٰ 1997 ءمیں فروخت کر چکے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے 2014 ءمیں گوشوارے جمع کرائے تھے۔جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہاکہ حکومت کے پاس نیا ایڈریس ہونا چاہئے تھا۔ منیر اے ملک نے کہاکہ میں جسٹس فائز عیسیٰ کا وکیل ہوں انکی اہلیہ کی طرف سے بات نہیں کروں گا۔انہوںنے کہاکہ غلط ایڈریس پرنوٹس بھجوانا بد نیتی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہاکہ اول سوال اہلیہ کے نام اثاثے ظاہر کرنا لازمی ہونے یا نہ ہونے کا ہے۔منیر اے ملک نے کہاکہ جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس دائر ہونے کے بعد برطانیہ نہیں گئے،اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو حکومت نے جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی ٹریول ہسٹری دی تھی۔انہوںنے کہاکہ دستاویزات کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ 2018 ءکے بعد برطانیہ نہیں گئے۔انہوںنے کہاکہ ٹریول ہسٹری 2009 ءسے 29 دسمبر 2018 ءتک جمع کرائی گئی۔انہوںنے کہاکہ جسٹس فائز عیسیٰ کی بیٹی اگست 2018 ءکے بعد برطانیہ نہیں گئی۔انہوںنے کہاکہ جسٹس فائز عیسیٰ کا بیٹا 11 جنوری 2019 ءکو برطانیہ گیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ مبینہ جاسوسی کی دنوں میں جسٹس فائز عیسیٰ کے اہل خانہ بیرون ملک نہیں گئے۔ منیر اے ملک نے کہاکہ جسٹس فائز عیسیٰ اور اہل خانہ کی جاسوسی کیسے ہوئی یہ ہمیں بھی نہیں پتا،کچھ علم نہیں کہ ای میل ہیک کیا گیا یا کسی نے پیچھا کیا،جسٹس فائز عیسیٰ اپنی اور اہل خانہ کی جاسوسی پر بیان حلفی دینے کو تیار ہیں۔اس موقع پر اٹارنی جنرل نے بیان حلفی جمع کرانے پر اعتراض اٹھایا ۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ 184/3 کی درخواست میں شواہد ریکارڈ نہیں ہو سکتے،شواہد دینے کیلئے جوڈیشل کونسل کا فورم موجود ہے۔منیر اے ملک نے کہاکہ شکایت کنندہ وحید ڈوگر کبھی لندن گئے ہی نہیں۔ جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہاکہ ریفرنس وحید ڈوگر نے نہیں صدر مملکت نے دائر کیا ہے،سرکاری اداروں کے ریکارڈ تک صدر کو رسائی ہوتی ہے،صدر مملکت نے اگر ریکارڈ نکالنے کا حکم دیا تو سامنے لایا جائے۔جسٹس منیب اختر نے کہاکہ بظاہر جاسوسی ہونا آپکا تجزیہ ہے۔منیر اے ملک نے کہاکہ انتظامیہ نے عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ صدر کا کردار تو صرف ڈاکخانے کا ہے۔ منیر اے ملک نے کہاکہ صدر صرف ڈاکخانہ ہی نہیں بلکہ وہ اپنی رائے دینے کے پابند بھی ہیں۔جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہاکہ آپ کے مطابق ریفرنس کے دائر ہونے کے بعد تحقیقاتی اداروں نے تحقیقات کو منجمد کردیا۔منیر اے ملک نے کہاکہ جی ایسا ہی ہوا ہے اور اٹارنی جنرل کو نوٹس بھی ضابطے کے مطابق جاری نہیں ہوا۔انہوںنے کہاکہ جب صدر نے ریفرنس کونسل کو بھیجا تو کونسل کو معاملہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ریفرنس قابل جواز ہے کہ نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آپ کا کہنا ہے کہ صدر کے ریفرنس دائر کرنے کے بعد انکوائری کی جاسکتی ہے۔جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ ریفرنس دائر کرنے سے پہلے بھی انکوائری ہو سکتی ہے۔منیر اے ملک نے کہاکہ نہیں اب نہیں ہو سکتا ہے یہ غیر قانونی ہوگا۔جسٹس منیب اختر نے کہاکہ میرے خیال میں18 ویں ترمیم کے بعد کونسل کے پاس از خود نوٹس لینے کے اختیارات آ گئے ہیں،از خود نوٹس اور صدر کے اختیارات دو مختلف چیزیں ہیں۔ منیر اے ملک نے کہاکہ ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کے دو پاسپورٹ ہیں،تاثر دیا گیا کہ انہوں نے سپین میں اپنا نام مختلف بتایا۔ منیر اے ملک نے کہاکہ غلط تاثر دے کر کہا گیا کہ انہوں نے بے نامی جائیدادیں بنائی ہیںجبکہ سپین کے قانون کے مطابق نام مختلف انداز سے لکھا جاتا ہے۔ جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہاکہ ایسی کوئی بات نہیں اس معاملے کو سب سمجھتے ہیں۔ منیر اے ملک نے کہاکہ لیکن جان بوجھ کر غلط تاثر پھیلایا گیاجسٹس عمر عطاءبندیال نے کہاکہ ان دستاویزات کا مطلب ہے کہ مزید مواد اکٹھا کیا جا رہا ہے۔منیر اے ملک نے کہاکہ ریفرنس دائر کرنے کے بعد مواد اکٹھا کرنا جوڈیشل کونسل کا کام ہے۔انہوںنے کہاکہ ریفرنس دائر ہونے کے بعد صدر اضافی دستاویزات جمع نہیں کرا سکتا۔منیر اے ملک نے کہاکہ سیاسی انتقام کیلئے عدلیہ کو استعمال کیا جا رہا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا صدر مملکت وزیر اعظم کو استعمال کر سکتا ہے۔ منیر اے ملک نے کہاکہ صدر مملکت کے آفس کا مرتبہ زیادہ اہم ہے۔ جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہاکہ آپ کہتے ہیں ریفرنس دائر ہونے کے بعد مواد اکٹھا کرنا کونسل کا کام ہے،کونسل صدارتی ریفرنس کو اٹھا کر پھینک نہیں سکتی،کونسل صدارتی ریفرنس پر اضافی مواد مانگ سکتی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہاکہ کیا آپ کا کیس یہ ہے کہ جو الزامات عائد کیے گئے سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ منیر اے ملک نے کہاکہ میرا کہنا یہ تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی واحد ادارہ ہے اس سے پہلے جو تحقیقات کی گئی وہ اختیارات سے تجاوز ہے،سپریم جوڈیشل کونسل کو بائی پاس کر کے تحقیقات انتظامیہ کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آپ کے کہنے کا مطلب ہے صدر نے جو ریفرنس بھجوایا وہ بھی اختیارات سے تجاوز ہے۔ منیر اے ملک نے کہاکہ صدر کابینہ کی منظوری کا پابند ہے،کابینہ کی منظوری کے بغیر ریفرنس بھیجنا درست نہیں۔منیر اے ملک نے کہاکہ میرا کیس ہی یہ ہے کہ صدر کابینہ کی منظوری کے پابند تھے،کونسل کو ریفرنس پر کارروائی سے پہلے ان پہلو کا جایزہ ہ لینا چاہیے تھا،یہ ریفرنس بد نیتی پر مبنی ہے اس کو خارج ہونا چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ صدر کو اس طرح کے معاملات میں استثنا نہیں، صدر کا استثنا بہت محدود ہے،اگر بد نیتی ظاہر ہو جائے تو ریفرنس خارج کر کے کارروائی ہونی چاہیے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ کیا کونسل کو اختیار ہے کہ ریفرنس میں بدنیتی ظاہر ہونے پر صدر کے خلاف جا سکتی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ صدارتی استثنا اور کونسل کے اختیارات دو الگ چیزیں ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ وہ کونسل جو صدر کے ریفرنس پر کاروائی کی پابند ہے وہ صدر کے خلاف کیسے کارروائی کر سکتی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ اگر آپ بد نیتی پر کارروائی چاہتے ہیں تو آپ کو کونسل کے پاس ہی جانا چاہیے۔ منیر اے ملک نے کہاکہ کونسل میں ریفرنس دائر کرنے سے پہلے جو بد نیتی برتی گئی اس کے خلاف میں اس عدالت میں آیا ہوں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آپ نے کونسل کی کارروائی کو بھی چیلنج کیا ہے اس لیے اب آپ کے پاس محدود گراﺅنڈز ہیں۔جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہاکہ آپ نے بہت اہم نقاط اٹھائے ہیں،ہم آپکے معترف ہو گئے ہیں۔ وکیل بلال منٹو نے کہاکہ مجھے کونسل کی کارروائی کا ریکارڈ چاہیے۔ جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہاکہ آپ کی درخواست کونسل کی انتظامی اور کونسل کے سٹرکچر سے متعلق ہے،ابھی ہم اس کیس پر فوکس کر رہے ہیں،ہو سکتا ہے ہم آپ کا کیس اس سے الگ کر دیں۔ بلال منٹو نے کہاکہ کیا آپ اس کیس میں دائر درخواستوں کو الگ کریں گے۔ جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہاکہ قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق درخواستوں کو سنیں گے باقیوں کا الگ کر دیں گے،آپ کا معاملہ ہم بعد میں دیکھیں گے۔ بعد ازاں کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی ۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیس
