ٹیوٹا کے ایسوسی ایٹ انجینئر کے لئے انگریزی ذریعہ تعلیم
ہم عالمی مغربی تہذیب سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے برطانوی استعمار سے1947ء میں آزادی حاصل کی،پھر دولت مشترکہ کے رکن بنے، پھر اشتراکی روس اور سرمایہ دارانہ دنیا کی باہم جنگ میں امریکی حلیف بنے۔سیٹو،سینٹو معاہدوں کے ممبر بن کر ہم مغربی اتحادی کے طور پر آگے بڑھتے رہے۔1979ء میں جب اشتراکی افواج افغانستان پر حملہ آور ہوئیں تو ہم نے امریکی اتحادی بن کر افغان مجاہدین کی تحریک آزادی کو سپورٹ کیا، پھر 2001ء میں 9/11کے بعد ہم دہشت گردی کے خلاف امریکی عالمی جنگ میں امریکی اتحادی بنے۔ہمارا قانونی وریاستی ڈھانچہ بھی مغربی طرز قانون و حکمرانی سے جڑا ہوا ہے۔ ہمارا دفاعی سٹرکچر بھی برطانوی و امریکی طرز پر ہے،ہماری ٹیکنالوجی بھی مغربی طرز پر چلتی ہے۔یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری علمی،فنی،قانونی اور ریاستی معلومات کے ماخذ مغرب سے اخذ کردہ ہیں۔ ہمارے میڈیکل کالجز ہوں یا انجینئرنگ یونیورسٹیاں،ٹیکنالوجی کالجز ہوں یا اسی طرح کے دیگر فنی ادارے، سب کی کتب و معلومات کے ماخذ مغربی ہیں اور ان کی زبان انگریزی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے اعلیٰ تعلیمی و تدریسی اداروں میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے، کیونکہ ہم عالمی معیشت کا بھی حصہ ہیں۔ انٹر نیشنل مانٹیری فنڈ ہو یا ورلڈ بینک یا ایسے ہی دیگر فنانشل انسٹی ٹیوشنز،ہماری قومی معیشت ان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ہمارا تعلیمی ڈھانچہ اور نظم و نسق بھی مغربی طرز پر استوار ہے، ہمارا حکمران طبقہ بھی انگریزی زبان سے جڑا ہوا ہے۔ہمارے سپیرئیر سروسز کے امتحانات بھی انگریزی میں ہوتے ہیں، ایسے میں انگریز ی زبان سے منہ موڑنا ممکن نہیں ہے۔
صوبے میں فنی تعلیم اور ووکیشنل تربیت کے لئے ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (ٹیوٹا) مرکزی حیثیت کا حامل ادارہ ہے۔ 1999ء میں قائم کئے جانے والے اس ادارے میں بہت کچھ کرنے کی گنجائش موجود ہے، ہمارے ہاں فنی تعلیم اور ووکیشنل تربیت یافتگان کو معاشرے میں بہت زیادہ پذیرائی بھی حاصل نہیں ہے۔ ہاتھ سے کام کرنے والوں کو معاشرتی سطح میں بہت اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔بہت سے نوجوان اپنے اپنے فن میں بہت ماہر ہونے کے باوجود جاب مارکیٹ میں اپنے آپ کو بہتر انداز میں پیش نہیں کر سکتے۔نتیجتاً وہ بہتر روزگار کے مواقع حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں،یہی مسئلہ انہیں بیرون ممالک میں روزگار کے حصول میں بھی پیش آتا ہے۔ روزگار کی عالمی منڈی میں ہمارے ہنر مند بھارتی،بنگلہ دیشی، سری لنکن اور دیگر ہنر مندوں سے پیچھے اِس لئے رہ جاتے ہیں کہ وہ آجرو ں کے ساتھ کمیونی کیٹ نہیں کر سکتے، جبکہ جب مقابلے میں دوسرے ممالک کے ہنر مند اپنی ابلاغی صلاحیتوں کے باعث بہتر مقام و مرتبہ حاصل کر لیتے ہیں۔ایسے ہی معاملات کو دیکھتے ہوئے ٹیوٹا نے،ٹیوٹا کے چیئرمین علی سلمان صدیق نے ایک حکم نامے کے ذریعے ڈپلومہ آف ایسو سی ایٹ انجینئر(DAE) پروگرامز کے لئے 2020-21ء سے انگریزی ذریعہ تعلیم نافذ العمل قرار دے دیا ہے۔پنجاب بھر میں ٹیوٹا کے زیر انتظام ٹیکنالوجی کالجز میں تین سالہ ڈپلومہ کورسز کے لئے ذریعہ تعلیم انگریزی ہو گا۔ ابتداء میں ڈپلومہ کے لئے ذریعہ تعلیم انگریزی ہی تھا، جسے 80ء کی دہائی میں اُردو کر دیا گیا، جس کے منفی اثرات دیکھنے میں آئے، اِس لئے دوربارہ انگریزی کر دیا گیا ہے۔چیئر مین ٹیوٹا نے یہ قدم ٹیوٹا مینجمنٹ،ماہرین،اساتذہ ٹیکنالوجسٹس اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد اٹھایا ہے۔
مشاورت کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ پڑھائے جانے والے علوم اور سکھائے جانے والے فنون کا نصاب زیادہ تر انگریزی زبان میں ہے۔ ٹیکنیکل علوم و فنون کی تمام اصلاحات انگریزی زبان میں ہیں، کیونکہ ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترویج اور ترقی کا سہرا اقوام مغرب کے سر جاتا ہے اور ان کی زبان انگریزی ہے، اس کے علاوہ دیگر زبانوں میں موجود مواد بھی انگریزی زبان میں منتقل کیا گیا ہے۔ ہم ابتدائی معلومات حاصل کرنا چاہیں یا اعلیٰ فنون و علوم کے ماخذ،سب کچھ انگریزی زبان میں ہی ملے گا،اِس لئے ڈی اے ای کے لئے ذریعہ ابلاغ /تعلیم بھی انگریزی ہی ہونا چاہئے۔ مشاورت کے دوران اس بات پر بھی اتفاق رائے پایا گیا کہ بیرون ممالک ملازمتوں کے حصول کے وقت ہمارے تربیت یافتہ ہنر مند بھارت،بنگلہ دیش، سری لنکا، فلپائن وغیرہ سے تربیت یافتگان کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتے ہیں، کیونکہ ہمارے ہنر مندو ں کی ابلاغی صلاحیتیں دیگر ممالک سے آنے والے ہنر مندوں سے کمزور اور پست ہوتی ہیں۔ فنی اعتبار سے ان کے برابر، بلکہ ان سے بہتر صلاحیت رکھنے کے باوجود اگر ہمارے ہنر مند بہتر ملازمتیں حاصل نہیں کر پاتے تو اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوتی کہ ان کی اپنے آپ کو بیان کرنے اور پیش کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ اور دیگر ممالک، جہاں ہنر مندوں کی ضرورت ہوتی ہے وہاں ذریعہ ابلاغ، انگریزی ہوتا ہے۔پورے مشرق ِوسطیٰ میں ہی دیکھ لیں، عربی اور انگریزی ہی دو اہم ابلاغی زبانیں ہیں جو بولی اور سمجھی جاتی ہیں، اِس لئے ضروری سمجھا گیا ہے کہ ٹیوٹا اپنے تربیت یافتگان اور ہنر کاروں کی مارکیٹ میں پذیرائی اور روزگار کے بہتر مواقع ہم پہنچانے کے لئے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنا دیا جائے: اس طرح جب وہ تین سال تک انگریزی میں سننے، پڑھنے،لکھنے اوربولنے کے عمل سے گزریں گے تو ان کی نہ صرف اس زبان سے شناسائی ہو گی، بلکہ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے میں بھی آسانی محسوس کریں گے۔