اپوزیشن کے جلسے،بعض دلچسپ حقائق
پاکستان میں جیسا بھی ہے، ایک جمہوری نظام موجودہے۔اسمبلیاں موجود ہیں،جیسی بھی ہیں۔ پارلیمنٹ کی تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتیں ممبر بھی ہیں۔ صدر مملکت، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور گورنر بھی ہیں۔ عوام کو خارجہ امور سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ ہرحکومت اپنی حکمت عملی کے مطابق چلاتی ہے،پاکستان میں عموماًریاستی ادارے ہی عالمی حالات کے مطابق ان کا رخ متعین کرتے ہیں۔ عوام کو دفاعی نظام سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، اس لئے کبھی جلسے جلوسوں میں اس پرکوئی زیادہ بات بھی نہیں ہوتی۔ عوام کی زیادہ دلچسپی دال روٹی،لباس، اور تعلیم سے ہے۔جمہوری نظام میں ووٹ لے کر آنے والی حکومت چاہے جتنے دعوے کرتی رہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پرہے۔ لیکن اس کا حق حاکمیت چھوٹے طبقے کی اکثریت کے مسائل کے حل اور عوام کی ضروریات زندگی کی آسانی سے دستیابی سے ہی تسلیم کیا جائے گا۔اگر حکمران یہ ضروریات مہیا نہیں کرتے تو حق حاکمیت نہیں رکھتے۔ اس کے مقابلے میں اگر حکومت بہت اچھا کام بھی کررہی ہو تو بھی اپوزیشن تنقید برائے اصلاح جاری رکھتی ہے اور ملک و قوم کی بہتری کے لئے مطالبات اور احتجاج بھی کرتی رہتی ہے۔یہ احتجاج ایوان کے اندر کرتے ہیں جب بات نہیں سنی جاتی تو پھر اسمبلی کے باہر بھی احتجاج کیا جاتا ہے۔ اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتوں نے مل کر پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے نام سے جو تنظیم سازی کی، اس کے تین جلسے ہو چکے ہیں۔
میرا نقطہ نظر ہمیشہ یہ رہا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ ایک منصوبے کے مطابق کچھ لوگوں یا سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو استعمال کرتی ہے۔ان سے کہا جاتا ہے کہ کچھ کر کے دکھاؤ۔واقفان حال جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو 2013ء کے انتخابات کی مہم پر نکلنے نہیں دیا گیا تھا کہ دہشت گردی ہے،آپ کی لیڈر شپ کی زندگی کو خطرہ ہے۔ نواز شریف کی حکومت کے خلاف عمران خان نے احتجاج شروع کیا۔ مسلم لیگ (ق) کی طرح،تحریک انصاف کو بھی مختلف سیاسی جماعتوں سے توڑ کر جیتنے والے موثر گھوڑے مہیا کئے گئے۔ پھر پراپیگنڈہ ایسا ہوا کہ مذہبی معاملات کو چھیڑ کر مولویوں کو سڑکوں پر لایا گیا۔ حتی ٰ کہ میاں نواز شریف پر مسجد میں حملہ بھی ہوا۔یہ مہم ان کی نااہلی تک جاری رہی۔ پانامہ کو دوبارہ کسی نے نہیں چھیڑا۔کیونکہ مقصود صرف وزیر اعظم کی نااہلی تھی۔ اسی طرح میموگیٹ کے نام سے بھی ایک ڈرامہ رچایا گیا۔ جس میں ہدف تنقید پیپلز پارٹی کی قیادت اور حکومت رہی۔1990ء کی دہائی میں جھانکیں تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اقتدار کی میوزیکل چیر کی اصل کھلاڑی قوت اسٹیبلشمنٹ ہی تھی، جس نے اقتدار ہمیشہ اپنے پاس رکھا اور سیاسی جماعتوں کو پہلے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا اور پھر سیاسی قیادت کو اقتدار منتقل نہیں کیا، بلکہ شریک اقتدار کیا۔
پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کے دنوں کی بات ہے۔ ہم نے پارلیمنٹ کے سامنے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا تھا۔جس میں محترمہ بینظیر بھٹو، ائر مارشل اصغر خان، اورمیں بھی تحریک جعفریہ کی نمائندگی کے لئے موجود تھا۔ہم نے فیصلہ کیا کہ اس وقت کی ٹرائیکا کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کی جائیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے فیصلہ کیا کہ ہم نواز شریف سے کہتے ہیں کہ وہ صدر مملکت کے پارلیمنٹ توڑنے کے اختیار 58(2b)کے خاتمے کی بات کریں ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ بہرحال نواز شریف نے یہ کام نہ کیا، کیونکہ وزیراعظم اور صدر غلام اسحاق خان کے درمیان دوریاں پیدا ہونے کا امکان یقینی تھا۔ جب اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے تو ہم نے حکمت عملی تبدیل کی اور فیصلہ کیا کہ اب نواز شریف کو ٹارگٹ کیا جائے اور صدر کو اس تنقید سے دور رکھا جائے۔پھر ہم نے پورے ملک میں احتجاجی جلسے اور لانگ مارچ کئے،جس میں ہم نے نواز شریف کو ہدف تنقید بنایا اور خوب تحریک چلائی۔ آخر ایک وقت آگیا کہ یہ ٹرائیکا ٹوٹ گئی۔
اب بھی اسٹیبلشمنٹ کے کسی نہ کسی سطح پر کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی رابطے اور اشارے موجود ہیں کہ گوجرانوالہ کا جلسہ میاں نواز شریف کی تقریر نے لوٹ لیا او ر انہوں نے اداروں کے کردار کو ہدف تنقید بنایا، جبکہ کراچی والے جلسے کی بجائے میاں صاحب کے داما د کیپٹن صفدرکے قائد اعظم کے مزار پر سیاسی نعرے بازی کو زیادہ زیر بحث لایا گیا اور اب تک جاری ہے۔ پھر اس کی گرفتاری کے پس پردہ جو واقعات رونما ہوئے، رونگٹے کھڑے کردینے کے لئے کافی ہیں۔ آرمی چیف جنر ل قمر جاوید باجوہ نے بلاول بھٹو زرداری کو تحقیقات کی یقین دہانی خود کروائی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس سارے واقعہ میں کہاں ہیں؟ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سے فون کرکے یا انہیں طلب کرکے حالات سے آگاہی کیوں نہیں لی؟ اس کی خاموشی کے پیچھے کیا مجبوری یا راز پنہاں ہے؟ جس کا ذکر نہیں کیا جارہا۔
یہ سب اپنی جگہ تشویشناک ہے، غور طلب بات یہ ہے کہ ہمیشہ اقتدار کی بندر بانٹ کرنے والوں کے لئے خطرے کی گھنٹی تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی چھتری کے نیچے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سیاست کرنے والی مسلم لیگ(ن) کا بیانیہ بدل گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے بعد اب مسلم لیگ (ن) کی قیاد ت کو بھی غداری کے تمغے دیئے جارہے ہیں۔ نواز شریف کو جیل میں ڈالا گیا۔ہوشیار آدمی ہے، لندن جا بیٹھا۔اس کے خلاف غداری کے مقدمات بھی قائم کئے گئے ہیں اور شاید مزیدبھی ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر پھوٹ ڈالنے کی کوشش بھی آئندہ دنوں میں ہو سکتی ہے۔وزیراعظم عمران خان کا بھی کوئی جانشین سامنے آسکتا ہے۔ یاپھر نظام لپیٹا جاسکتا ہے۔ جس میں بہت کچھ انوکھا بھی ہوسکتا ہے۔ نظام پھر کمزور ہوگا۔لیکن جو کچھ بھی ہوگا، اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق ہوگا۔