وزیراعظم سنجیدہ ہو جائیں
عمران خان ایک بار ہی بتادیں کہ ان سے نیاپاکستان بن سکتا ہے یا نہیں؟کیونکہ گزشتہ دو برسوں اور دو مہینوں سے تو وہ یہی باور کرارہے ہیں کہ نیا پاکستان کوئی سوئچ بورڈ نہیں ہے کہ جسے آن کر کے نیا پاکستان بن جا ئے گا۔ اگر ایسا ہے تو پھر وہ 2018ء کے انتخابات سے قبل کی جانے والی اپنی تمام تقاریر پر قوم سے معذرت کریں اور کہیں کہ انتخابات میں ووٹ لینے کے لئے انہوں نے وہ سارا سوانگ رچایا تھا، وگرنہ پی ٹی آئی کے ووٹروں اور سپورٹروں میں بھی اعتبارِ ”کوئے جاناں“ جاتا رہے گا، کیونکہ قوم اب زیادہ دیر تک احتساب کی گھسی پٹی ٹیپ سننے کے لئے تیار نہیں ہوگی۔
عمران خان کو اس لئے بھی سنجیدہ ہوجانا چاہئے کہ اب اپوزیشن نے سڑکوں کے بعد ایوانوں کو بھی گرم کرنا شروع کردیا ہے اور قومی اسمبلی میں اودھم مچ گیا ہے۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی نے 28اکتوبر کو قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر بتایا ہے کہ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو بھارت بھجوانے کے لئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے فوجی قیادت کے سامنے سیاسی قیادت سے جھوٹ بولا تھا کہ ابھی نندن کو رات نو بجے تک رہا نہ کیا گیا تو بھارت حملہ کردے گا۔ایاز صادق موجودہ اسمبلی کو ریموٹ کنٹرول اسمبلی بھی قرار دے رہے ہیں۔ یہی نہیں اپوزیشن حکومت پر کشمیر فروشی کا الزام بھی دھر رہی ہے اور سوال یہ ہے کہ کیا آغا رفیع اللہ کے قومی اسمبلی میں بدتمیزی پر اتر آنے کے بعد کیا حکومت اپوزیشن بنچوں سے ایسے کسی بھی سلسلے کو روک سکے گی؟
عمران خان کو اِس لئے بھی سنجیدہ ہوجانا چاہئے کہ مولانا فضل الرحمن پشاور کے جلسے کو معرکہ کن قرار دے رہے ہیں اور مریم نواز مینار پاکستان گراؤنڈ میں ڈیڑھ لاکھ کا مجمع اکٹھا کرنے کے لئے ورکرز کنونشنوں سے خطاب شروع کرنے والی ہیں۔ایسے میں کروناکے نام پر اگر حکومت نے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی تو سڑکوں اور ایوانوں میں نظر آنے والی گرمی گھر گھر جا گھسے گی اورلوگ گھروں سے نکل آئیں گے۔ حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ بدترین کرونا اٹیک کے باوجود اگر امریکہ میں انتخابات منعقد ہو سکتے ہیں تو پاکستان میں حکومت مخالف تحریک کیوں نہیں چل سکتی؟ ایسے میں کرونا اپوزیشن جلسوں کے پیچھے پیچھے ہی رینگ سکے گا، آگے نہیں نکل سکے گا اور بنانے والے حکومتی تنبیہات کا مذاق بناتے نظر آئیں گے۔
عمران خان کو اس لئے بھی سنجیدہ ہوجانا چاہئے کہ انہوں نے اپوزیشن کو جیب کترے قرار دیا ہے تو اپوزیشن کب سے انہیں اپنی اے ٹی ایموں پر بوجھ قرار دے رہی ہے۔خواجہ آصف تو یہاں تک کہتے پائے جاتے ہیں کہ عمران خان کا ایک ہاتھ جہانگیر ترین کی جیب میں ہوتا ہے اور دوسرا ہاتھ علیم خان کی جیب میں!ایسے میں اگر گرینڈ ڈائیلاگ ہوتا بھی ہے تو اس میں ہر کوئی ہوسکتا ہے، لیکن عمران خان نہیں ہو سکتے، جن پر 2018ء کے انتخابات کےbeneficiaryہونے کا الزام ہے…… ویسے گرینڈڈائیلاگ سے ہمیں خیال آیا ہے کہ کہیں نواز شریف بھی تو قوم کو بدھو نہیں بنا رہے، کیونکہ نون لیگی حلقوں سے گرینڈ ڈائیلاگ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ محلے کا اوباش جوان بہلا پھسلا کر محلے کی شریف لڑکی کی عزت تار تار کرچکے تو اہل محلہ اس کا حل یہی نکالتے ہیں کہ دونوں کی شادی کردی جائے۔ نون لیگ بھی یہی کچھ کرتی نظر آرہی ہے کہ ”بیمار ہوئے،جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوالیتے ہیں“…… خیر توقع یہ رکھنی چاہئے کہ اس ڈائیلاگ سے قوم کی فلاح کا کوئی پہلو نکل آئے گا، کیونکہ جب اوباش نوجوان کے ہاں بھی بیٹی کی پیدائش ہوتی ہے تو اس کی آنکھ جھک جاتی ہے اور وہ بدمعاشی چھوڑ دیتا ہے۔ اگر نواز شریف کی مزاحمت کا مقصد مذاکرات ہیں اور مذاکرات کے نتیجے میں قومی سیاست ایک قدم آگے بڑھ سکتی ہے، آئین کی بالادستی کا خواب نظر آنا شروع ہو جاتا ہے تو قوم کو یہ ملفوف مزاحمت بھی قبول ہے۔
عمران خان کو اِس لئے بھی سنجیدہ ہو جانا چاہئے کہ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے، ہر شے کی قیمت آسمان کو لگی ہوئی ہے،اوپر سے حکومت عوام کو کرونا سے ڈرا کر اپنے سیاسی مقاصد پورے کرنا چاہتی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ حکومت میں بیٹھے آٹا اور چینی مافیا نے عوام کو 404ارب روپے کا ٹیکہ لگایا ہے تو کوئی بتاتا ہے کہ پورے ریجن میں پاکستان کے علاوہ کسی بھی ملک میں مہنگائی اس قدر نہیں ہوئی، جس قدر یہاں ہوگئی ہے اور حکومت اس کی ساری ذمہ داری کرونا کے سر تھوپ رہی ہے، حالانکہ بھارت میں پاکستان سے کہیں بدتر کرونا اٹیک ہوا ہے، مگر وہاں بھی مہنگائی قابو میں ہے۔ اس افراتفری میں اگر دہشت گردی کے واقعات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے تو یہ حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔ حکومت مہنگائی پر قابو نہ پانے کی ذمہ داری بیورو کریسی پر منتقل کر کے بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔یوں بھی نوکریاں نہیں دے سکتی نہ دے، گھر نہیں دے سکتی نہ دے، کم از کم مہنگائی تو نہ ہونے دے۔
اس سار ی صورتِ حال میں اگر حکومت اپوزیشن کے اکابرین کی گرفتاریاں شروع کرتی ہے تو صورتِ حال مزید ابتر ہو جائے گی، لیکن اپوزیشن کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اگر واقعی کرونا کی دوسری لہر شدید ترین ثابت ہوئی تو ان کی تحریک جی ٹی روڈ پر ٹھس ہو جائے گی اور عمران خان ”گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے“ کے مصداق مزے سے چہل قدمی نظر آئیں گے۔