عوام، ٹرک کی بتی اور مکڑی کا جال
عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے والوں کو کبھی مات نہیں ہوئی، سالہا سال کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ نام ہمیشہ انہی کا لیا جاتا ہے، مگر عوام کی باری کبھی نہیں آتی۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا کہ اس جماعت کی حکومت کے دور میں بھی عوام کی نہیں سنی جا رہی، جو اقتدار میں آئی ہی ان کا نام لے کر تھی۔ ایسا تو ہر دور میں ہوا ہے، عوام پسے ہیں، پہلے سے برے حالات کا شکار ہوئے ہیں، معاشی طور پر اوپر کی بجائے نیچے ہی گئے ہیں۔ کسی کو بھی وزیر اعظم عمران خان کی نیت پر شک نہیں، وہ یقیناً عوام کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہوں گے، لیکن ان کے راستے میں دیدہ و نادیدہ طاقتوں نے ایسے روڑے بچھا رکھے ہیں کہ وہ تیزی سے آگے بڑھنا بھی چاہیں تو نہیں بڑھ سکتے۔ اب تو وہ خود بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت میں آنے سے پہلے اُنہیں علم نہیں تھا کہ مافیاز کس انداز سے کام کرتے ہیں؟ اب انہیں قدم قدم پر ان مافیاز سے لڑنا پڑ رہا ہے۔ جب ملک کا وزیر اعظم ایسی باتیں کرے تو اس میں کیا شک رہ جاتا ہے کہ پاکستان میں حکومت کے اوپر بھی ایک حکومت ہے جو نچلی حکومت کو چلنے نہیں دیتی۔
اس مرتبہ جو خاص بات دیکھنے کو مل رہی ہے، وہ یہ نکتہ ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کی حکومتی صلاحیت اور اختیار کو سلب کر لیا گیا ہے۔ حکومت چاہے بھی تو عوام کو کوئی ایسی سہولت فراہم نہیں کر سکتی جو ان کی زندگی میں تھوڑی سی ہی سہی، راحت لے آئے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اس وقت دیکھنے کو ملی جب وزیر اعظم عمران خان نے عوام کو ایک بڑا ریلیف فراہم کرنے کے لئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 25 فیصد تک کم کر دیں، لیکن مافیاز کو یہ گوارا نہیں تھاکہ عوام کو اتنا بڑا ریلیف ملتا، سو اس نے اپنا کام دکھایا اور پٹرول و ڈیزل غائب کر دیا۔ نیکی اُلٹا گلے پڑ گئی، عوام دہائی دینے لگے کہ قیمت بے شک بڑھا دو، پٹرول فراہم تو کرو۔ پھر سب نے دیکھا کہ وقت سے پہلے پٹرول کی قیمت میں اضافہ کر دیا گیا اور اضافہ ہوتے ہی پٹرول جو نایاب ہو گیا تھا، آسانی سے دستیاب ہونے لگا۔ اب اس بے بسی کو کیا نام دیا جائے؟اس ایک واقعہ سے حکومت غالباً اتنی خوفزدہ ہو گئی کہ اس نے عوام کو کسی معاملے میں ریلیف دینے سے توبہ کر لی۔ چینی کے کارخانوں کے مالکان نے قیمت دوگنا کر دی، مگر ان کے خلاف کسی نے کارروائی کرنے کا سوچا تک نہیں، کیونکہ یہ ڈر تھا کہ کارروائی کی تو مارکیٹ سے چینی غائب کر دی جائے گی اور عوام حکومت کے خلاف دہائیاں دینے لگیں گے۔ اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ معمولی اشیاء، جن میں عام سی سبزیاں بھی شامل ہیں، ذخیرہ اندوز مارکیٹ سے غائب کر کے مہنگے داموں سپلائی کرتے ہیں؟ مگر قانون ان کے خلاف اس خوف سے حرکت میں نہیں آتا کہ انہوں نے سبزیاں بھی گوداموں میں چھپا لیں تو عوام کو کیا منہ دکھائیں گے؟.
ذوالفقار علی بھٹو اس حوالے سے ذرا جرأت مند تھے، حقیقت کوتسلیم کر لیتے تھے۔ آج کے حکمرانوں کی طرح حقائق سے نظریں نہیں چراتے تھے۔ ایک بار انہوں نے لاہور کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ انہیں اس وقت شرمندگی ہوتی ہے جب وہ عوام کو راشن کارڈ کے ذریعے آٹا اور چینی خریدتے دیکھتے ہیں۔ کسی حکمران کے لئے یہ خوشی یا اطمینان کی بات نہیں کہ عوام اپنی بنیادی ضروریات کے لئے قطاروں میں کھڑے ہو کر راشن لیں۔ انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ رات کو جب انہیں یہ خیال آتا ہے، تو ان کی نیند اڑ جاتی ہے۔ وہ اس صورتِ حال کو بدلنا چاہتے ہیں، لیکن ملک کے معاشی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ بعد میں آنے والے حکمرانوں نے تو یہ زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ عوام سے اپنی بری کارکردگی پر معذرت ہی کر لیں، بلکہ ہمیشہ سبز باغ دکھائے اور اپنا وقت گزار کر چلتے بنے۔ جب عمران خان نے وزارت عظمیٰ سنبھالی تھی، تو ان کی باڈی لینگوئج یہ امید دلاتی تھی کہ وہ روائتی حکمران ثابت نہیں ہوں گے۔ عوام کے مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں کریں گے۔ ناکام رہے تو کرسی سے چپکے رہنے کی بجائے مستعفی ہو کر گھر چلے جائیں گے۔ انہوں نے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دینے جیسے شاندار اعلان بھی کئے۔ مافیاز کے خلاف جنگ لڑنے کے عزم کا اظہار بھی کیا، مگر یہ سب کچھ وقت کے ساتھ ساتھ ٹرک کی بتی بنتا چلا گیا۔ عوام کو کچھ ملنے کی بجائے ان کے پاس جو کچھ تھا، وہ بھی چھینا جانے لگا۔ نوکریاں دینے کی بجائے چھیننے کی پالیسی متعارف کرائی گئی اور لاکھوں افراد کو بے روز گار کر دیا گیا۔
اس صورتِ حال کو دیکھ کر ایک سوال ذہن میں کلبلاتا ہے کہ کیا ہمارے جتنے حکمران آئے وہ واقعی دھوکے باز تھے؟ جو عوام کے لئے کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے تھے یا پھر اس ملک میں ایسے طاقتور مافیاز ہمیشہ سے موجود رہے ہیں جو حاکمِ وقت کو بے بس کر دیتے ہیں؟ ذوالفقار علی بھٹو نے زرعی اصلاحات کرنا چاہیں تو انہیں ناکام بنا دیا گیا،بے نظیر بھٹو اور نوازشریف بھی عوام کو ریلیف دینا چاہتے تھے، نہ دے سکے۔ اب یہی بے بسی وزیر اعظم عمران خان کی بھی نظر آ رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں عوام کے خلاف ایک بہت بڑا اور طاقتور ہاتھ سرگرم ہے جو محروم اور مراعات یافتہ طبقوں کی تقسیم برقرار رکھنا چاہتا ہے اور ہر ایسی کوشش کو ناکام بنا دیتا ہے جو عوام کی حالت بہتر بنانے کے لئے کی جا رہی ہو۔ کیا اس مکڑی کے جالے کو توڑنے کے لئے کسی خونی انقلاب کا انتظار کیا جا رہا ہے؟