جماعت اسلامی کے نئے اتحادی؟
سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کی جماعت اسلامی بھی عجیب جماعت ہے ہرفرد اس کو نقائص سے پاک اس کے ذمہ داران کو اعلیٰ صفات کا حامل دیکھنے کا خواہاں رہتا ہے اس کی معمولی سی کوتاہی کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے قیام جماعت اسلامی پاکستان سے اب تک اہل ِ پاکستان جماعت اسلامی کو ووٹ دیں یا نہ دیں، مگر مشکل میں ان کی خواہش ہوتی ہے جماعت اسلامی اور اس کے ادارے ان کا سہارا بنیں، بانی جماعت اسلامی سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کا تاریخی فرمان پڑھ رہا تھا جو آقا دو جہان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت اللعالمین کے حوالے سے فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مبعوت ہوئے تو وہ کسی قبیلے کا جھنڈا لے کر نہیں اٹھے تھے، کسی قومی نعرے پر لوگوں کو اکٹھا نہیں کیا تھا، کوئی اقتصادی نعرہ نہیں لگایا تھا،بلکہ جس چیز کی آپؐ نے دعوت دی اس کا پہلا جز توحید تھی، یعنی ”تمام انسانوں کو تمام بندگیاں چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی بندگی کے لئے مخصوص کر دیا۔ نبی ئ مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت میں دُنیا کے لئے رشد و ہدایت کا پیغام لے کر آئی۔ یہی وجہ ہے دُنیا کی مقصدیت کو آقا دوجہاں کی آمد کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے63 سال تک بندگی خدا اور فرمانِ خدا کو ایک ایک فرد تک پہنچانے کے بعد آخری خطبہ ئ حج میں فرمایا:اے لوگوں کیا مَیں نے اللہ کا پیغام آپ تک پہنچا دیا ہے، بلند آواز میں ایک لاکھ24 ہزار سے زائد افراد نے ہاں کی سدا بلند کی۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کو گواہ بنا کر فرمایا:اے اللہ گواہ رہنا مَیں نے تیرا پیغام تیرے بندوں تک پہنچانے کی ذمہ داری پوری کی ہے، پھر رحمت اللعالمین نے فرمایا:مَیں آئندہ حج میں آپ کے ساتھ شاید موجود نہ ہوں گا، مَیں آپ کے لئے اللہ اور اُس کے رسول کا پیغام چھوڑے جا رہا ہوں،جو اس کو پکڑے رکھے گا، کبھی خسارے میں نہیں رہے گا،یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد۔
بات ہو رہی تھی جماعت اسلامی کی جس کو ان دِنوں گیارہ جماعتوں کے اتحاد میں شامل نہ ہونے پر تنہائی کا طعنہ دیا جا رہا ہے، دلچسپ بات یہ ہے جماعت اسلامی اِس لحاظ سے انفرادیت کی حامل رہی ہے، گیارہ جماعتوں کے اتحاد کا حصہ نہ بننے سے پہلے بھی تنقید کا سامنا مسلکی بنیاد پر دیو بندی انہیں دیو بندی ماننے کے لئے تیار نہیں، اہلحدیث جماعت اسلامی کو اہلحدیث ماننے کے لئے تیار نہیں، بربلوی بھی اپنی صفوں میں انہیں جگہ دینے کے لئے تیار نہیں،جماعتی کارکنان سے جب رجسٹرڈ فرقہ بندی جن کی پیداوار کے لئے حکومتی سطح پر تعلیمی بورڈ ہیں، کے حوالے سے سوال کیا جاتا ہے آپ کیا ہیں تو وہ اُلٹا سوال کر دیتے ہیں آپ بتائیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا شیعہ تھے، کیا بریلوی تھے، کیا دیوی بندی تھے اِس سوال پر بھی پھر خاموشی چھا جاتی ہے،کیونکہ ہم اپنے سینے پر دیو بندی، بریلوی، اہلحدیث، شیعہ کا بیج لگا کر فخر محسوس کرتے ہیں،مگر اپنے دفاتر، اپنے شو روم، اپنی ایجنسی،اپنی دکان پر کبھی نہیں لکھا، جہاں صرف شیعہ حقرات آ سکتے ہیں، جہاں صرف بریلوی حضرات آ سکتے ہیں، جہاں صرف اہلحدیث آ سکتے ہیں ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو رہا، کیونکہ کہا جاتا ہے وہ تو کاروبار ہے، مساجد جس کو اللہ نے اُمت مسلمہ کا مرکز محور قرار دیا ہے اس کو متنازعہ بنانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جا رہی۔
12ربیع الاول کے مبارک موقع پر اِس بات کا بھی فیصلہ ہونا چاہئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعرے لگا کر معاشرہ سنوارہ جا سکتا ہے، فرقہ واریت سے تائب ہو کر رضائے الٰہی کا حصول ممکن ہے یا سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کر کے اپنی زندگیوں کو بدلا جا سکتا ہے۔ بات ہو رہی تھی،جماعت اسلامی کی تنہا پرواز کی جماعتی کارکن تو بڑا یکسو ہے، موجودہ پالیسی سے کیونکہ وہ تو آگاہ ہے، جماعت اسلامی جب مسلم لیگ(ن) کی اتحادی تھی، تو اسے کیا ملا، جب مولانا فضل الرحمن کی اتحادی تھی، اسے کیا ملا جب اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھی تو جماعت کو کیا ملا، عام کارکن کا موقف سامنے آیا ہے۔ جماعت اسلامی پہلی دفعہ پکی سڑک پر چڑھی ہے،جو حقیقی معنوں میں اس کی منزل رضائے الٰہی کا حصول دِلا سکتی ہے۔ اب عوام فیصلہ کیسے کرے جو پہلے ہی مسلکی بنیاد پر تقسیم ہے، سیاسی طور پر (ن)، (م)، (ش)، پی پی پی، جے یو آئی،(جے یو پی) اور دیگر میں تقسیم ہے، کیا ان میں سے کسی کا حصہ بنا جائے۔ اس سوال کا جواب گزشتہ ہفتے امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے ایک گھنٹہ سے زائد نشست میں اور دوسرا ربیع الاول کے حوالے سے منصورہ میں ہونے والی فقید المثال میلاد کانفرنس میں کچھ وقت گزارنے سے ملا،حالانکہ مَیں جانتا ہوں سیرت کانفرنس سے میلاد کانفرنس کا نام بھی جماعت اسلامی سے محبت کرنے والوں کو ہضم نہیں ہو گا، اس کے لئے بھی نئی بحث شروع ہو سکتی ہے، حوصلہ افزا بات ہے سراج الحق سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کی دعوت کے ایک ایک نقطہ پر یکسو ہیں اور ان کی ٹیم بھی پورے طور سرگرم عمل ہے، آخر میں جماعت اسلامی کے نئے اتحادیوں کا ذکر کرنا ہے جو عام لوگ نہیں ہیں وہ خواص میں اور ہمارے معاشرے کا اہم حصہ وہ ہیں۔
علماء اکرام، مشائخ، عظائم، درگاہوں کے گدی نشین اور پیر حضرات ان بزرگوں کو کوئی نام بھی دے لیں ان کی اسلام کی ترویج اور اشاعت سے انکار ممکن نہیں ہے، مجھے کوٹ مٹھن شریف کے خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ پیر غلام رسول اویسی صاحبزادہ سلطان احمد، جواد نقوی، مولانا غیاث دین، ڈاکٹر طارق زادہ، پیر جلیل شرقپوری اور دیگر مشائخ کی طرف سے سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کی دعوت کو اہل ِ اسلام کے لئے خیر برکت قرار دینا اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق کو اپنا قائد تسلیم کرنا معمولی بات نہیں ہے، منصورہ گراؤنڈ میں میاں مقصود احمد کی نبی کریم صلی اللہ علی وآلہ کے جانثاروں کی موجودگی میں خوبصورت الفاظ کے ذریعے جماعتی پیغام کی للکار عام نہیں تھی۔ قاضی حسین احمد بھی ایسی محفلیں سجاتے رہے ہیں ان کے بعد سراج الحق کے سپاہی میاں مقصود احمد اور ان کے سیکرٹری پیر برہان الدین کی کوشش قابل ِ ستائش ہے۔مَیں جماعتی کارکنان سے معافی طلب کرتے ہوئے درخواست کروں گا،جس طرح صرف نعروں کے ذریعے انقلاب ممکن نہیں اس کے لئے نبیئ مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل ضروری ہے اسی طرح سیرت اور میلاد کے فرق کو زیر بحث لانے کی بجائے اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے جماعت کی دعوت کو بند کمروں سے نکال کر ایک ایک گروہ، ایک ایک درگار، ایک ایک جماعت تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔سید مودودی ؒ کا میٹھے پانی کا کنواں آپ کے پاس موجود ہے اس کو عام عوام کے لئے کھول دیں اس سے مسلم لیگ(ن) کا کارکن فیض یاب ہو یا پیپلزپارٹی کا کارکن، مولوی ہو یا پیر، آپ اپنی انفرادیت قائم رکھیں۔ یہ آپ کا اور آپ کے امیر کا امتحان ہے،اس کی منصوبہ بندی کارکنان نے نہیں، جماعت اسلامی کی قیادت نے کرنی ہے، موجودہ حالات میں بڑا خلا موجود ہے، پاکستانی قوم باریاں لگانے اور لینے والوں سے مایوس ہو کر ایسی صالح قیادت کی منتظر ہے جو ان کے مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، دہشت گردی کے لگائے ہوئے زخموں پر مرحم لگا سکے۔