جمہوریت سنگین خطرے میں ،کامران خان نے اپوزیشن جماعتوں پر بجلیاں گرا دیں

 جمہوریت سنگین خطرے میں ،کامران خان نے اپوزیشن جماعتوں پر بجلیاں گرا دیں
 جمہوریت سنگین خطرے میں ،کامران خان نے اپوزیشن جماعتوں پر بجلیاں گرا دیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن)معروف تجزیہ کار اور سینئر صحافی کامران خان نے کہا ہے کہ فوجی لیڈرشپ پرعمران خان حکومت کا تختہ الٹنے میں اپوزیشن کا  ساتھ دینے کے لئے فوج مخالف بیانیہ سے دباؤ ڈالنا آگ سے کھیلنا ہے، یہ آگ پاکستان مارکہ جمہوریت کو ایک بار پھر ابدی نیند سلا دے گی اور کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا، بہتر ہے نواز، بلاول، مریم فوج مخالف بیانئیے کو ہی فوری گہری نیند سلادیں۔

تفصیلات کے مطابق مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ پر اپنے ویڈیو بیان میں کامران خان کا کہنا تھا کہ میں آج آپ کی توجہ عمران خان مخالف تحریک کے اس حصے کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں جس کی حدت کو اگر فوری نہ روکا گیا تو خدانخواستہ پاکستان برانڈ جمہوریت ایک بار پھر جل کر خاک ہو جائے گی،انتہائی خطرناک وہ تیر اندازی ہے جو اپوزیشن کے مخصوص لیڈر ذاتی وجوہات کی بناء پر افواج پاکستان،اُس کی لیڈر شپ اور آئی ایس آئی کے خلاف کر رہی ہے،نواز شریف کا نام لے لے کر حملہ آوری ہو یا پھر کیپٹن صفدر کی گرفتاری سے جڑا ہوا یکطرفہ بیانیہ،بلاول بھٹو کی فوج مخالف دشنام طرازیاں ہوں یا ایاز صادق کا بھارت کے خلاف ہماری تاریخی فوجی فتح کو ملیا میٹ کردینے کا عمل صرف اور صرف یکطرفہ بیانیہ چل رہا ہے۔

کامران خان کا کہنا تھاکہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ دشمن دہشت گرد قوتوں سے جنگ میں روزانہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے فوج کے سپاہی سے لیکر اعلیٰ افسر  تک آج بے چین ہیں،پی ڈی ایم لیڈرز فوج کے خلاف تحریک کے بیانیہ کے گریبان میں جھانک کر دیکھے تو سوالات کا انبار نظر آئے گا ،آرمی چیف ،پی پی پی اور پی ایم ایل این کی لیڈر شپ کے لئے پچھلے اکتوبر تک اتنے پسندیدہ تھے کہ ان کی تین سال کی ایکسٹینشن کے لئے نواز شریف ،زرداری اور بلاول نے غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا  اورمطلوبہ قانون سازی میں حصہ لیا  تو پھر مسئلہ کیا ہے؟۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ اب یہی لیڈرز چاہتے ہیں کہ آئی ایس آئی،جنرل باجوہ اور فوجی لیڈر شپ  منتخب  حکومت عمران خان کے خلاف اُن کے ساتھ  کھڑی ہو یا پھر کم از کم نیب کیسز ہی ٹھنڈے کرا دے،یہ لیڈر شپ چاہتی ہے کہ جنرل باجوہ اور فوجی لیڈر شپ فراموش کر دے،الیکشن 2018  کو اسی اپوزیشن نے تسلیم کیا ،پارلیمنٹ سے وفاداری کا حلف اٹھایا ،پارلیمنٹ نے اکثریتی ووٹ سے عمران خان کو  وزیر اعظم بنایا،شہباز شریف وزیر اعظم کا الیکشن لڑے پیپلز پارٹی نے انہیں دغا دیا اور وہ الیکشن ہار گئے،پارلیمنٹ سے باہر اسے حرام کہنے والی جماعتیں اسی پارلیمنٹ کا تسلسل دامے ،درمے سخنے دے رہی ہیں،ان تمام حقائق کے باوجود فوجی لیڈر شپ پر وزیر اعظم عمران خان مخالف تحریک کا پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کے لئے دباؤ ڈالنا  آگ سے کھیلنا ہے،وہ آگ جو پاکستان مارکہ جمہوریت کو ایک بار پھر ابدی نیند سلا دے گی۔