ریاستی رٹ ہر صورت قائم رکھی جائیگی، قومی سلامتی کمیٹی، سعد رضوی کو نہیں چھوڑا جا سکتا، وزیراعظم، پولیس پر حملہ کرنیوالوں کی حوالگی تک بات نہیں ہو سکتی، عسکری قیادت، پنجاب میں رینجرز کو گولی چلانے کااختیا ر
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک،نیوزایجنسیاں) وزیر اعظم عمران نے واضح کیا ہے کہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد رضوی کو نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، جس میں وزیراعظم عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ سعد رضوی کو نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔ذرائع کے مطابق انہوں نے کہا کہ فرانسیسی سفیر کی بے دخلی سے متعلق کوئی بات نہیں ہوگی،نجی ٹی وی کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ عسکری قیات نے کہا کہ کالعدم ٹی ایل پی کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، یہ ملک میں افراتفری پید ا کررہے ہیں۔عسکری قیادت نے کہا کہ پولیس پر حملہ کرنے والوں کو حوالے کیے جانے تک بات نہیں ہوسکتی۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں پولیس اور رینجرز پر حملہ کرنے والوں کے خلاف رینجرز کو ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ جمعہ کو وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزراء، مشیر قومی سلامتی، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، تینوں مسلح افواج کے سربراہان،ڈی جی آئی ایس آئی، آئی بی و ایف ائی اے اور سینئر سول و عسکری حکام شریک ہوئے۔وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ قانون کی عملداری میں خلل ڈالنے کی مزید کوئی رعایت نہیں دی جائے گی،پولیس کو جان و مال کے تحفظ کے لیے دفاع کا حق حاصل ہے،تحمل کا مطلب ہر گز کمزوری نا سمجھا جائے،ریاست آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہ کر مذاکرات کرے گی اور کسی قسم کے غیر آئینی اور بلا جواز مطالبات تسلیم نہیں کریگی اور ریاست کی حکمرانی کو چیلنج کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے ٹی ایل پی احتجاج کے دوران جان و مال کو نقصان پہنچانے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی گروپ یا عناصر کو امن و عامہ کی صورتحال بگاڑنے اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔کمیٹی نے پولیس کی پیشہ وارانہ کارکردگی اور تحمل کو خراج تحسین پیش کیا جن کے 4 اہلکار شہید اور 400 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ کمیٹی نے اعادہ کیا کہ تحمل کا مطلب ہر گز کمزوری نا سمجھا جائے،پولیس کو جان و مال کے تحفظ کے لیے دفاع کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہاکہ ریاست پر امن احتجاج کے حق کو تسلیم کرتی ہے تاہم ٹی ایل پی نے دانستہ طور پر سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا اور اہلکاروں پر تشدد کیا،یہ رویہ قابل قبول نہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی نے کہاکہ ریاست آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہ کر مزاکرات کرے گی اور کسی قسم کے غیر آئینی اور بلا جواز مطالبات تسلیم نہیں کرے گی۔ وزیر اعظم اور قومی سلامتی کمیٹی ممبران نے امن و عامہ کی صورتحال برقرار رکھنے کے دوران شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے لیے تعزیت کی اور کہا کے شہید اہلکاروں کے اہل خانہ کو معاوضہ اور ان کی کفالت یقینی بنائی جائے گی۔ وزیر اعظم نے کہاکہ حکومت قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی ہر قسم امداد اور پشت پناہی جاری رکھے گی کیونکہ یہ عوام کا تحفظ کر رہے ہیں۔ اعلامیہ میں کہاگیاکہ اربوں مسلمان حضرت محمد ؐ کی ذات اقدس سے محبت کرتے ہیں اور عقیدت رکھتے ہیں تاہم کسی بھی دوسری اسلامی ریاست میں املاک اور عوام کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ کمیٹی نے کہاکہ ٹی ایل پی کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کا منفی تاثر گیا ہے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ٹی ایل پی کے ساتھ صرف آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے مذاکرت کئے جائیں گے۔ ٹی ایل پی کو مزید قانون شکنی پر کوئی رعایت نہیں دی جائے گی اور نا ہی کسی قسم کے ناجائز مطالبات تسلیم کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ریاست کی حکمرانی کو چیلنج کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ عوام کے جان و مال کے تحفظ اور ریاست کی حکمرانی کو قائم رکھنے کے لیے تمام اقدامات یقینی بنائیں جائیں۔دوسری جانب اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہوئے،زیر حراست تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کے ساتھ لانگ مارچ ختم کرنے کے لیے مذاکرات جاری ہیں، ریاست کی رٹ کو ہر حال میں قائم کیا جائیگا، خواہش ہے کہ معاملات خوش اسلوبی سے حل ہو جائیں،وزیر اعظم عمران خان آئندہ چند روز میں قوم سے خطاب کریں گے،کالعدم تنظیم کے ساتھ معاہدے پر دستخط وزیر اعظم کی منظوری کے بعد کیے تھے، بعض واٹس ایپ گروپ بھارت، ہانگ کانگ اور جنوبی افریقا سے آپریٹر کیے جارہے ہیں جبکہ مقامی سطح پر آپریٹ کیے جانے والے واٹس ایپ گروپ کو ایف آئی اے دیکھے گی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے موجودہ صورتحال پر قومی سلامتی کمیٹی کو اعتماد میں لیا۔شیخ رشید نے کہا کہ رینجرز کو آرٹیکل 147کے تحت پنجاب میں پولیس کو رینجرز کے ماتحت کردیا گیا ہے، انہیں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 97 کے اختیارات بھی تفویض کیے گئے ہیں جس کے بعد ان کی تعیناتی کی صوابدید پنجاب حکومت کی ہوگی۔وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومت، ٹی ایل پی کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر قائم ہے لیکن ٹی ایل پی نے تاحال سڑکوں کو عام ٹریفک کے لیے بحال کیا اور نہ ہی جی ٹی روڈ چھوڑ کر مرکز واپس گئے ہیں جس کے بعد معمولات زندگی بری طرح متاثر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں وزیر اعظم عمران خان آئندہ چند روز میں قوم سے خطاب کریں گے جبکہ وزیر اعظم کا بیانیہ دراصل پوری قوم کا بیانیہ ہوگا۔بعد ازاں پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو مخاطب کر تے ہوئے کہا ہے کہ آپ بزور طاقت ریاست سے باتیں نہیں منوا سکتے جبکہ مذاکرات آئین اور قانون کے تحت ہوں گے،ریاست کو کمزور نہ سمجھیں، ہم نے بڑے بڑے دہشت گرد گروپس کو شکست دی ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ریاست یہ برداشت نہیں کرے گی کہ آپ ایک حد سے آگے بڑھیں، ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ سڑکوں پر خون بہے، ہم کیوں چاہیں گے کہ ملک میں امن و امان خراب ہو۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اس لیے آ پ لوگ واپس اپنے گھروں کو جائیں، ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ آپ بزور طاقت ریاست سے اپنی باتیں منوا لیں گے۔ ریاست کو کمزور نہ سمجھیں، ہم نے بڑے بڑے دہشت گرد گروپس کو شکست دی ہے۔ حکومت زیادہ دیر مذاق برداشت نہیں کر سکتی، مظاہرین کو ایک حد سے آگے جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، احتجاج کے باعث صورت حال ایسی ہو گئی ہے کہ کلمہ گو کو اپنی گواہی دینا پڑ رہی ہے۔ فواد چوہدری نے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا حوالہ دے کر کہا کہ مذاکرات تو ہورہے ہیں اور مذاکرات تو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ایل پی) سے بھی ہوں گے، ہم بادشاہت میں نہیں ہیں اس لیے تمام مذاکرات آئین اور قانون کے تحت ہوں ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کہیں کہ جو ہمارا ہے وہ ہمارا ہے اور جو تمہارا ہے وہ بھی ہمارا ہے، ایسا نہیں ہوتا، تصادم کے ذریعے کچھ نہیں ملے گا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ علما اکرام حق کی بات کرنے کے لیے آگے بڑھ کر کردار ادا کریں۔
قومی سلامتی کمیٹی
لاہور،جہلم (مانیٹرنگ ڈیسک،نیوزایجنسیاں) کالعدم تنظیم کا احتجاج روکنے کیلئے رینجرز کے اختیارات میں اضافہ کردیا گیا۔پنجاب میں رینجرز کو مظاہرین کو روکنے کیلئے ضرورت پڑنے پر اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ محکمہ داخلہ پنجاب کے مطابق رینجرز بغیر وارنٹ کسی بھی جگہ داخل ہو سکتے ہیں اور ملک کیخلاف کسی سرگرمی میں ملوث ہونے کے شبہ میں کسی کو بھی گرفتار کر سکتے ہیں۔رینجرز کسی بھی جگہ سے ہتھیار اور دیگرسامان قبضے میں لے سکتے ہیں، قانون ہاتھ میں لینے والوں اور خطرہ ثابت ہونے والوں کیخلاف مقدمات درج کروا سکتے ہیں۔محکمہ داخلہ پنجاب کے مطابق رینجرز کو اختیار ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کے خلاف گولی چلانے کا حکم دے جس سے ریاست و عوام کو جان ومال کا خدشہ ہو، اس شق کا اطلاق تب ہوتا ہے جب ریاست کو امن و امان کا سنگین مسئلہ درپیش ہو، آئین کے سیکشن 147کے تحت اس وقت رینجرز کو پنجاب پولیس کے اختیارات حاصل ہیں، انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 5 کے تحت بھی رینجرز کو اختیارات دیئے گئے۔کالعدم تنظیم کے احتجاجی مارچ کے پیش نظر غیر یقینی صورتحال جمعہ کو بھی برقرار رہی، رکاوٹوں کے باعث عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا، کئی علاقو ں میں سبزیوں اور اشیائے خوردونوش کی قلت پیدا ہوگئی۔گوجرانوالہ جی ٹی روڈ پر کالعدم تنظیم کے مظاہرین کے احتجاج کے سبب پورے شہر میں کاروباری سرگرمیاں معطل اور دکانیں بند ہیں، گوجرانوالہ سے وزیر آباد تک تمام سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں جمعہ کو چھٹی دی گئی ہے۔تفصیلات کے مطابق کالعدم تنظیم کے گوجرالہ سے اسلام آباد کی جانب مارچ کے پیش نظر اسلام آباد اور راولپنڈی میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے،راولپنڈی میں غیر یقینی صورتحال جمعہ کوبھی برقرار رہی،راولپنڈی سے لاہور اور فیصل آباد کے راستے کراچی جانے والی ٹرینیں متبادل روٹ رواں دواں رہیں ادھر گوجرانوالہ میں راستے بند ہونے کے باعث اشیائے ضروریہ اور سزیوں کی قلت پیدا ہوگئی،لاہور اور، راولپنڈی کے درمیان چلنے والی ریل کار نائٹ کوچ اور سبک خرام بھی تاحال بند رہی، مری روڈ تیسرے روز بھی سیل رہا، مریڑ چوک سے فیض آباد تک تمام ملحقہ شاہراہیں سیل رہیں، میٹرو بس سروس اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند رہی، مری روڈ اور ملحقہ تجارتی مراکز مکمل بند رہے، مری روڈ پر تعلیمی ادارے، بینک اور بازار مکمل بند رہے، راستے سیل ہونے سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کر نا پڑا، میٹرو بس ٹریک کا کنٹرول رینجرز نے سنبھال رکھا ہے، نماز جمعہ کے بعد سیکورٹی انتظامات مزید سخت کر دیئے گئے۔دوسری جانب حکومت نے کالعدم ٹی ایل پی کا مارچ روکنے کیلئے جی ٹی روڈ پر چناب و جہلم کے مقامات پر رابطہ پلوں پر کنٹینرز کے بعد دیواریں کھڑی کرنا شروع کردیں۔پلوں پر مختلف مقامات پر حفاظتی باڑ توڑ کر رکاوٹوں کے لیے وقفے وقفے سے بند کی شکل میں دیواریں تعمیر کر نا شروع کر دی گئیں، ماررچ کے شرکاء کے پاس جدید تین سے چار ہیوی کرینیں اور ایکسیکویٹرز سمیت مختلف مشینیں بھی ہیں۔آر پی او راولپنڈی عمران احمر بھاری پولیس نفری کے ہمراہ جہلم میں خود موجود رہ کر صورتحال کی مانیٹرنگ کرتے رہے، رینجرز بھی چناب اور جہلم کے مقامات پر موجود رہی۔حکومت نے مارچ کو کسی بھی صورت جہلم سے آگے نہ بڑھنے دینے کا عندیہ دے رکھا ہے۔ نیشنل ہائی وے، جی ٹی روڈ، چناب ٹول پلازہ سے چکوال موڑ بھائی خان سوہاوہ تک چھ مقامات سے ٹریفک کیلئے بند رہی۔اوجلا کینال وزیر آباد،چناب ٹول پلازہ گجرات، کینال بریج اور جہلم ٹول پلازہ، جہلم کینٹ، پاکستان ٹوبیکو کمپنی کے مقامات، چکوال موڑ، بھائی خان پل سوہاوہ کے مقامات ٹریفک کیلئے بند رہی۔ مذہبی و سیاسی جماعتوں کا اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور دھرنے کی وجہ سے10ٹرینیں منسوخ کردی گئیں۔چند روز کے دوران ریلوے کو ٹرین منسوخ کرنے پر مالی طور پر 49 لاکھ روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑرا، ٹرینیں منسوخ ہونے سے مسافروں کو ری فنڈ بھی کرنا پڑا اور مسافروں کو بھی مشکلات سامان رہا۔گجرات،لالہ موسیٰ،کھاریاں،جہلم کے کالجز اور یونیورسٹیز کو فوری چھٹیاں دے دی گئی۔ہفتے والے دن یونیورسٹی آف لاہور چناب کیمپس، پنجاب کالج (گجرات،لالہ موسیٰ،کھاریاں)اور دوسرے پرائیویٹ کالجز کو بھی چھٹیاں دے دی گئیں۔راولپنڈی سے گجرانوالہ تک تمام داخلی وخارجی راستے بند،رکاوٹیں لگا دی گئیں۔دوسری جانب رات گئے وزیرآباد کے تمام داخلی و خارجی راستوں کو کھول دیا گیا۔
احتجاجی مارچ