غیر مستحکم تعلیمی نصاب
ہمارے تعلیمی نصاب میں غیر مستقل مزاجی تعلیمی معیار اور نظام کو متاثر کر رہی ہے۔ ایک جامع اور مستقل تعلیمی نصاب کا قیام وقت کی ضرورت ہے کہ طالب علموں کو معیاری تعلیم فراہم کی جا سکے تاکہ وہ مستقبل میں ملک کی ترقی میں مؤثر کردار ادا کر سکیں اگرچہ نصاب میں جدت طلبا کو عالمی معیار کی تعلیم فراہم کرتی ہے، اس سے وہ بین الاقوامی سطح پر بھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں،اور انہیں مختلف ممالک میں بھی تعلیمی اور پیشہ وارانہ مواقع مل سکتے ہیں۔تاہم نئی تبدیلیاں اکثر طلبا کے لیے مشکلات لئے ہوتی ہیں کیونکہ انہیں پرانے نصاب کے بجائے نئے مواد کو سمجھنا اور یاد کرنا ہوتا ہے۔ اس سے وہ ذہنی دباؤ میں آجاتے ہیں اور ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اوراگر اساتذہ کو نصاب کی تبدیلی کے مطابق تربیت نہ دی جائے تو وہ نئے نصاب کو بہتر طریقے سے پڑھانے میں ناکام رہتے ہیں، جس کا منفی اثر طلبا کی تعلیم پر پڑتا ہے۔عین وقت پر نصاب میں تبدیلی امتحانات پر اثر انداز ہوتی ہے۔طلبا اکثر نئے نصاب کو مکمل طور پر سمجھنے میں وقت لگاتے ہیں، جس سے ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ بہت کچھ بدل دیا جاتا ہے۔اب موجودہ حکومت کی طرف سے ایک حکم نامہ جاری ہوا ہے کہ امسال میٹرک امتحان میں سوالیہ پرچہ میں conceptual/analytical پچیس نمبر کے سوالات شامل کئے جائیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے طلبا و طالبات کے سوچنے سمجھنے اور چیزوں کو عملی زندگی میں استعمال کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔لیکن ایسی تبدیلی تعلیمی سال کے آغاز میں ہونی چاہیے تھی لیکن کسی بھی چیز کو نصاب کا حصہ بنانے سے پہلے اس پر مشاورت کرنا چاہیے اور جن اساتذہ نے بچوں کو نصاب پڑھانا ہو ان کی مناسب تربیت کی جائے۔راتوں رات جاری ہونے والے حکم ناموں سے بہتری کی بجائے بدتری جنم لیتی ہے،اس لیے کہ تعلیمی نصاب میں تبدیلی جہاں طلبا کو جدید دور کے مطابق علم فراہم کرنے کا ذریعہ بنتی ہے، وہیں اس کے ساتھ کچھ مشکلات بھی پیدا کرتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ نصاب کی تبدیلی کا عمل تدریجی اور منظم ہو تاکہ طلبا کو اس سے بہم فائدہ پہنچے اور وہ کامیاب زندگی گزار سکیں۔ اساتذہ کو بھی اس تبدیلی کے مطابق تربیت فراہم کرنا لازمی ہے تاکہ وہ طلبا کی بہتر طریقے سے رہنمائی کر سکیں۔یہ ایک اہم مسئلہ ہے جو تعلیمی نظام میں استحکام کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اور اس کے نتیجے میں طالب علموں کی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے تعلیمی نصاب پر اکثر سیاسی جماعتوں،امداد دینے اور قرض دینے والی طاقتوں کا اثر ہوتا ہے، جو اپنے مقاصد کے مطابق تبدیلیاں کرواتے ہیں۔ یہ تبدیلیاں تعلیمی نظام میں غیر مستقل مزاجی کا باعث بنتی ہیں۔ دنیا پر حکومت کرنے والی طاقتیں اپنے فائدے کے لیے ہمارے تعلیمی نصاب میں مذہبی یا ثقافتی مواد شامل کرواتی رہی ہیں جس سے تعلیمی ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں پاکستان میں تعلیمی وسائل کی کمی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔جب نصاب کو مستقل بنیادوں پر اپڈیٹ کرنے یا ایک ہی نصاب کو تمام صوبوں میں رائج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو مالی اور انتظامی مسائل پیش آتے ہیں۔تیزی سے کی جانے والی نصابی تبدیلیوں سے تعلیم کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ اساتذہ کو نئے نصاب کی تیاری اور تدریسی مواد کو اپڈیٹ کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔
تعلیمی نصاب کی تبدیلیوں کے باعث طلباء کو مختلف امتحانات میں مشکل پیش آتی ہے۔ نصاب کی غیر مستقل مزاجی سے طلباء کی ذہنی اور تعلیمی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔جب نصاب تبدیل ہوتا رہتا ہے تو اساتذہ کو بار بار تربیتی پروگراموں میں شامل ہونا پڑتا ہے، جس سے ان کی تدریسی ذمہ داریوں میں خلل آتا ہے اور ان کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔اس صورتحال سے دوچار لوگ پوچھتے ہیں کہ اس کا مستقل حل کیا ہو سکتا ہے۔سب سے آسان حل یہ ہے کہ ریاست کو ایک طریقہ کار طے کر لینا چاہیے۔ تھنک ٹینک بنا کے ایک مستقل تعلیمی پالیسی بنائے جسے تبدیل نہ کیا جائے،وقت کے ساتھ ساتھ اس میں صرف ضروری اصلاحات کی جائیں۔ باہمی مشاورت سے وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا نصاب تیار کرے، جو تمام صوبوں کے لئے قابل قبول ہو تاکہ تعلیمی معیار میں یکسانیت آئے۔بہت ضروری ہے کہ تعلیمی نصاب کو سیاسی و ثقافتی دباؤ سے آزاد کیا جائے تاکہ طلباء کو معیاری اور مستقل تعلیم حاصل ہو سکے۔ا اساتذہ کی تربیت کو بھی مستقل بنیادوں پر انجام دیا جانا چاہیے تاکہ وہ ہر نصاب کو مؤثر طریقے سے پڑھا سکیں۔
تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے، اور اس کو مؤثر بنانے میں نصاب کا اہم کردار ہوتا ہے۔ نصاب، دراصل تعلیمی مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہے جو طلبا کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت کرتا ہے۔اگرچہ وقتاً فوقتاً نصاب میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں تاکہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق علم فراہم کیا جا سکے۔ تاہم، نصاب میں کی گئی تبدیلیاں طلبا کی زندگیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں، جو مثبت اور منفی دونوں ہو سکتے ہیں۔ نصاب کی تبدیلی جدید دور کے علوم، ٹیکنالوجی اور مارکیٹ کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ اس سے طلبا کو جدید ترین معلومات اور مہارتیں حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے جو انہیں عملی زندگی میں کامیاب بنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔۔conceptual/analytical کو فوری نافذ کرنے کی بجائے اس پر مزید مشاورت کی جائے۔ اساتذہ کی تربیت کے لیے ورکشاپس کا اہتما م کیا جائے اور پھر اسے مستقل بنیادوں پر تعلیمی نظام کا حصہ بنادیا جائے۔بلکہ ایسے سوالات کو نہم دہم کی بجائے فرسٹ ائیر سیکنڈ ائیر میں ہونا چاہئے تصوراتی اور تجزیاتی سوالات رکھنے کیلئے سٹوڈنٹس کی عمر کا تعین کرنا بھی لازم ہے اب جبکہ میٹرک کے امتحانات میں چند ہی ماہ باقی ہیں تو اس بارے سٹوڈنٹس میں گہرا اضطراب پایا جارہا ہے کہ سال بھر کی تیاری دو تین ماہ میں کرنی مشکل ہو جائے گی لہذا ایسے سوالات کو نئے تعلیمی سال پر اٹھایا جائے جس کا اعلان بھی فی الفور کرکے طلباء کو ذہنی اذیت سے بچایا جائے۔