پنجاب کی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کی تعیناتی کا عمل بڑی حد تک مکمل ہو گیا ہے۔یہ ایک ایسا معاملہ تھا جس کی طرف ایک عرصے سے توجہ نہیں دی جا رہی تھی، 25سے زائد یونیورسٹیاں مستقل وائس چانسلروں کے بغیر کام کر رہی تھیں جس سے ایک انتظامی خلاء صاف نظر آ رہا تھا۔ وائس چانسلر کی حیثیت یونیورسٹی میں ایک کلیدی نوعیت کی ہوتی ہے،اکثر اختیارات اُس کے گرد گھومتے ہیں اگرچہ سینڈیکٹ اور سینٹ جیسے ادارے بھی ہوتے ہیں تاہم وائس چانسلر کو ہر یونیورسٹی کے کیلنڈر میں بااختیار رکھا گیا ہے،ظاہر ہے جب اتنے وسیع اختیارات کے ساتھ کوئی کسی منصب پر آتا ہے تو اُس کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے پھر یہ امر بھی یقینی ہے کہ وہ یونیورسٹی کو اپنے ویژن اور سوچ کے مطابق چلانا چاہتا ہے ان حالات میں یہ کہے بنا چارہ نہیں کہ اگر کسی یونیورسٹی کو ایک اچھا اور وسیع تجربہ رکھنے والا وائس چانسلر میسر آ جائے تو وہ اپنے ادارے کی حالت بدل سکتا ہے،اسے نئی رفعتوں اور نئی منزلوں سے ہمکنار کر سکتا ہے۔اب چاہئے تو یہ کہ پنجاب کی25 یونیورسٹیوں کے جو نئے وائس چانسلرز مقرر ہوئے ہیں، اُن میں ایک صحت مند مقابلے کا رجحان پیدا ہو جائے،وہ اپنی اپنی یونیورسٹیوں کو تعلیمی معیار، پُرامن ماحول، تحقیق میں وسعت اور مالی طور پر خود مختار بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔یہ بہت اہم ہے کہ یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم کے معیار کو عالی سطح کے برابر لایا جائے،اس وقت صورتحال ناقابل ِ رشک ہے کہ عالمی رینکنگ میں ہماری کوئی یونیورسٹی کسی نمایاں درجے پر نظر نہیں آتی۔مکھی پر مکھی مارنے اور ایک سطحی نوعیت کی تحقیق کرنے کے دائرے کو توڑنا ہو گا۔ اس وقت سوشل سائنسز کے شعبوں میں پی ایچ ڈی ڈگریوں کی بھرمار ہے،جبکہ پیور سائنسز کے شعبے تحقیق کے اعلیٰ معیار کو ترس رہے ہیں، ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں عالمی معیار کی یونیورسٹیوں کے کیمپس موجود نہیں، یہ کیمپسز متحدہ عرب امارات، قطر، سعودی عرب، ملائیشیا، انڈونیشیا میں تو موجود ہیں جس کی وجہ سے وہاں تعلیم کا معیار اوپر جا رہا ہے جب تمام یونیورسٹیاں ایک جیسے معیار کی حامل ہوں تو مقابلے کی صورت پیدا نہیں ہوتی۔ اگرچہ ہماری یونیورسٹیوں میں ایسے اساتذہ کی کمی نہیں جو بڑی بڑی عالمی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں مگر جب تک ہم انہیں یہاں وہ تدریسی ماحول فراہم نہیں کریں گے،وہ سہولتیں نہیں دیں گے جو آکسفورڈ، ہارورڈ، واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی کے اساتذہ کو حاصل ہیں، میری مراد ریسرچ لیبارٹریاں، لائبریریاں اور سازگار ماحول، تب تک ہم اپنے تعلیمی معیار کو اوپر نہیں لے جا سکتے اس میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہماری حکومتوں کی طرف سے بھی ہمیشہ رہی ہیں۔ہمارا تعلیمی بجٹ وقت گزرنے کے ساتھ بڑھنے کی بجائے کم ہوا ہے۔ اس وقت پنجاب کی بہت سی یونیورسٹیاں ایسی ہیں جن کے اساتذہ کو وقت پر تنخواہیں نہیں مل رہیں۔دوسری طرف پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں فیسیں بڑھانے کا معاملہ بھی اتنا آسان نہیں، اُس کا طلبہ اور معاشرے کی طرف سے شدید ردعمل ہوتا ہے جیسا کہ اسلام آباد میں طالبات کی طرف سے آیا ہے۔ ایسے میں ریاست کی یہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ تعلیم کے لئے زیادہ وسائل مختص کرے، ترقیاتی کاموں کو روکا جا سکتا ہے تعلیم کے اعلیٰ معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا،کیونکہ اس سے قوم کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے۔
آج کل سکول اساتذہ کے ٹی این اے ٹیسٹ کا بڑا شہرہ ہے،جس کے خلاف اساتذہ سراپا احتجاج ہیں،اس سے پہلے کالج اساتذہ کو اگلے گریڈ میں ترقی کے لئے ایک امتحان سے گزارا گیا۔یہ اچھی بات ہے،ایسا ہونا چاہئے، مگر یہی اساتذہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یونیورسٹی کی سطح پر اساتذہ کی پرفارمنس جانچنے کا کوئی نظام نہیں جو ایک بار استاد بن گیا بس خود کار طریقے سے ترقی کرتا جائے گا۔وائس چانسلرز کو اس طرف توجہ دینی چاہئے، صرف ریسرچ پیپرز کی اشاعت کافی نہیں، طالب علموں سے اساتذہ کے بارے میں رائے لینا بھی ضروری ہے۔ایک بار 2005ء میں جب ڈاکٹر نصیر اللہ خان بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر بن کر آئے تو انہوں نے یہی نظام رائج کیا،اُس وقت اساتذہ نے مزاحمت کی، مگر وہ اسے نافذ کرنے میں کامیاب رہے،انہی دِنوں میری اور شوکت اشفاق کی اُن سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا اس کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں، اساتذہ کی حاضری یقینی ہو گئی ہے اور تدریس کا معیار بھی بہتر ہوا ہے۔یاد رہے کہ طلبہ و طالبات کو ایک فارم دیا جاتا تھا، جس پر وہ اپنے ٹیچروں کے بارے میں رائے دے کر ایک بکس میں ڈال دیتے جسے یونیورسٹی کے رجسٹرار کھولتے تھے۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر نصیر احمد خان2006ء میں ہونے والے ملتان طیارہ حادثہ میں جاں بحق ہو گئے اور اُن کا یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا، بعد میں آنے والے وائس چانسلروں نے اسے جاری نہیں رکھا،یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ یونیورسٹیوں میں سمسٹر سسٹم کی وجہ سے بہت سی برائیوں نے بھی جنم لیا ہے۔کئی اساتذہ کے بارے میں درخواستیں بھی دی گئیں اور شکایات بھی سامنے آئیں،حیرت ہے کہ چالیس پینتالیس سال گزر گئے آج تک یونیورسٹیوں کی سطح پر اس سسٹم کی افادیت یا عدم افادیت پر کوئی رپورٹ تیار نہیں کی گئی۔ایچ ای سی بھی مکھی پر مکھی مارنے والا ادارہ بن کر رہ گیا ہے اس کے پاس اس امر کا جائزہ لینے کے لئے کوئی موثر طریقہ کار نہیں کہ یونیورسٹیوں میں تدریس اور تحقیق کا معیار کیا ہے۔آج یہ شرمناک حقیقت سب کو معلوم ہے تحقیقی مقالے لکھنے کی ”فیکٹریاں“ کھل چکی ہیں جو معاوضہ لے کر یہ موضوع پر مقالہ تیار کر دیتی ہیں۔ یونیورسٹیوں نے سیلف ڈیفنس کا ایک بوسیدہ نظام رائج کیا ہوا ہے جہاں پسند کے بیرونی ممتحن بُلا کر منظوری دے دی جاتی ہے اگر نئے وائس چانسلرز اس پہلو پر توجہ دے کر جامعات کا نظم و ضبط، تحقیقی معیار اور تدریسی نظام بہتر بنا دیتے ہیں تو یہ اُن کا بہت بڑا کارنامہ ہو گا۔
یونیورسٹیوں میں معیار کو بہتر بنانے کے لئے اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ جامعات میں اساتذہ کی بھرتی کامعیار شفاف اور میرٹ کو یقینی بنایا جائے۔اس حوالے سے تحفظات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں،کالج اساتذہ کی بھرتی پبلک سروس کمیشن جیسے ایک آزاد ادارے کو سپرد کی جاتی ہے تو یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی بھرتی کے لئے بھی کوئی آزاد اور خود مختار ادارہ بنایا جائے،موجودہ نظام میں فیورٹ ازم کے امکانات سو فیصد موجود ہیں،کیونکہ وائس چانسلر اور شعبوں کے ڈینز مل کر جو چاہیں فیصلہ کر سکتے ہیں اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے اہل اور قابل افراد محروم رہ جاتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کی ہر چھ ماہ بعد ایک قومی کانفرنس ہونی چاہئے یہ کوئی گیٹ ٹو گیدر نہ ہو،بلکہ اس میں ہر یونیورسٹی اپنی رپورٹ پیش کرے،جس میں تحقیق اور تدریس کے حوالے سے نمایاں کامیابیوں کا ذکر موجود ہو۔ یونیورسٹی میں وائس چانسلر کو ایک بادشاہ کا درجہ حاصل ہوتا ہے تاہم اس بادشاہت کو کانٹوں کو سچ سمجھنا چاہئے کیونکہ اس ذمہ داری کا تعلق براہِ راست قوم کے مستقبل اور تقدیر سے ہوتا ہے،جنہیں یہ منصب ملا ہے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں تاہم انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے ”جن کے رتبے ہیں سوا اُن کی سوا مشکل ہے“ انہیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ تاریخ بنانی ہے یا تاریخ کی منہ زور موجوں کی نذر ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭