مصر کے مرکزی بازار کی بغلی گلیوں میں بے شمار چائے خانے تھے، مقامی باشندے روایتی لباس میں منڈلاتے پھرتے، کہیں بیٹھ جاتے تو پھر بیٹھ ہی جاتے

Oct 30, 2024 | 09:47 PM

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:46
 سب سے دلچسپ چیز مرکزی بازار کی بغلی گلیوں میں بنے ہوئے بے شمار چائے خانے تھے۔ گلی میں دونوں طرف دُکانوں اور دیواروں کے ساتھ ساتھ بینچیں اور کرسیاں لگا کر بیٹھنے کا انتظام کیا ہوا تھا اور بعض جگہ تو خالص مصری انداز میں فرشی نشستیں بھی لگائی گئی تھیں۔ حقے بھی کثرت سے مہیا کیے گئے تھے جسے وہاں کام کرنے والے چھوٹے چھوٹے لڑکے تھوڑی تھوڑی دیر بعد تازہ کر دیتے تھے۔ مرد و زن دونوں ہی اس انتظام سے فیضاب ہوتے تھے۔ آپ کی فرمائش پر وہاں کام کرنے والا لڑکا چھوٹے چھوٹے کانچ کے گلاس نما کپ میں گرم گرم چائے یا ترکی کافی لے آتا۔ مصری لوگ شکر کا استعمال بہت فراخ دلی سے کرتے ہیں۔ اس لئے کپ میں کم از کم ایک تہائی چینی چائے کے نیچے پڑی صاف نظر آتی تھی۔ جن لوگوں کے شکر سے تعلقات کچھ ایسے قابل رشک نہیں ہیں وہ ان کو پہلے سے منع کر دیتے، تاہم ان کی ٹرکش کافی اتنی کڑوی اور ذائقہ کی سخت ہوتی ہے کہ دوسرا گھونٹ لینے سے پہلے بڑی دیر تک سوچنا پڑتا تھا کہ لے لیا جائے یا چھوڑ دیا جائے۔
مقامی مصری باشندے اپنے روایتی لباس میں چائے خانوں کے آس پاس منڈلاتے پھرتے اور پھر جب وہ کہیں بیٹھ جاتے تو پھر بیٹھ ہی جاتے تھے۔ کیتلیاں بھر بھر کے چائے بنتی اور ان میں مال غنیمت کی طرح تقسیم ہوتی رہتی تھی۔
میں نے خان الخلیلی کے بازار سے اپنی پسند کی خریداری کی اور پھر واپسی کا قصد کیا۔ عبدو بھیڑ بھاڑ سے بچنے کی خاطر مجھے ایک بغلی گلی میں لے آیا اور ہم اس تنگ سی گلی میں سے چلتے ہوئے باہر کی طرف بڑھنے لگے۔ یہ لاہور کے اندرون شہر کی طرح کا ایک عام سا محلہ تھا جہاں پھلوں، سبزیوں اور حجاموں وغیرہ کی دُکانیں تھیں اور کچھ چھوٹے چھوٹے جنرل سٹور بھی تھے۔ ایسے ہی جب میں ایک قصاب کی دکان کے سامنے سے گزرا تو مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی کہ وہاں پھٹے پر ایک موٹی سی مصری خاتون تنہا بیٹھی گائے کے گوشت کے پارچے بنا رہی تھی۔ اس دوران وہ پیشہ ور قصابوں کی طرح بڑی مہارت سے سب اوزاروں کا استعمال کر رہی تھی، سامنے گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے ٹکڑے لٹکے ہوئے تھے۔ یہ غالباً پہلا اور آخری موقع تھا کہ میں نے ایک خاتون کوقصاب کے روپ دیکھا تھا۔
 مسجد اور مدرسہ سلطان حسن
ابھی مغرب کی اذان میں کچھ وقت تھا۔ عبدو نے فیصلہ کیا کہ وہ مجھے قاہرہ کی ایک بڑی اور قدیم مسجد دکھائے گا۔ یہ عظیم الشان مسجد اور مدرسہ سلطان حسن کہلاتا ہے۔ بڑی ہی پُروقار عمارت تھی جو وہاں بیان کی گئی تاریخ کے مطابق 1360 عیسوی میں مکمل ہوئی تھی۔ مسجد کا مرکزی ہال بہت وسیع و عریض ہے۔ یہ دنیا کی چند بڑی مسجدوں میں سے ایک ہے۔
عبدو نے اس کی تاریخ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ بے تحاشہ تعمیری نقائص کی وجہ سے یہ مسجد ہمیشہ جان لیوا حادثوں کی وجہ بنی رہی۔ اس کے چاروں کونوں پر200 فٹ اونچے مینار تعمیر ہونے تھے۔ جن میں سے ابھی دو ہی مکمل ہوئے تھے کہ ایک روز اچانک اس کا ایک مینار زمین بوس ہوگیا اور اپنے ساتھ تین سو کے قریب نمازیوں کی جانیں بھی لے گیا۔ ابھی لوگ اس صدمے سے باہر بھی نہ نکلے تھے کہ دوسرا مینار بھی نیچے آن پڑا۔ بات یہی ختم نہیں ہوئی۔ بعد ازاں مسجد کا ایک گنبد بھی بیٹھ گیا اور کئی لوگ اس کے نیچے دب کر جاں بحق ہوگئے۔ بڑا جانی نقصان ہوگیا تھا۔ لہٰذا  فوری طور پر مسجد میں تعمیر کا باقی ماندہ کام منسوخ کر کے مسجد کے تعمیراتی نقشے نئے سرے سے بنائے گئے اور یوں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔
اپنی خوبصورتی اور وسعت کی بدولت یہ مسجد سیاحوں کے لیے بڑی کشش کا باعث ہے اور تقریباً ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح تھوڑا سا وقت نکال کر اس مسجد کو ایک نظر دیکھ لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سیاحوں کی آمدو رفت کا سلسلہ سارا دن جاری رہتا ہے۔ ہماری وہاں موجودگی کے دوران ہی مغرب کی اذان ہوئی اور اس کی خوبصورت اور مسحور کن آواز نے ایک سماں باندھ دیا اور لوگ جوق در جوق اندر آنے لگے۔  (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزیدخبریں